ایجاد کو مفروضے سے مارکیٹ تک لے جانے والے کاروباری نوجوان

نیل مکینزی - بزنس رپورٹر


 

Riut backpack

Riut Limited

جب ڈاکٹر فرانسیسکو ویلاسکو نے کووڈ کے ایک وارڈ میں کام شروع کیا تو وہ اپنا لیپ ٹاپ اور نوٹس ایک پلاسٹک کی ایک تھیلی میں لے کر کام پر جاتے تھے۔

ان کا نیا بیگ کینوس سے بنا ہوا تھا اور اسے ہر دن ہسپتال میں کام ختم کرنے کے بعد سٹیریلائیز یعنی جراثیم سے پاک بھی نہیں کیا جاتا سکتا تھا۔

میکسیکو میں مقیم اس ڈاکٹر نے بیگ بنانے والی برطانوی کمپنی سے رابطہ کر کے انھیں اس مسئلے کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی گرل فرینڈ نے ان سے کہا کہ وہ فضول میں پریشان ہو رہے ہیں کیونکہ وہ کمپنی ان کی بات پر کان تک نہیں دھرے گی لیکن ولاسکو نے پھر بھی کمپنی کو ایک طویل پیغام لکھا۔

ریوت بیگز کی سارہ گِبلِنگ نے فوراً ان کے پیغام کا جواب دیا۔ انھوں نے لکھا کہ میں بیگ کی ڈیزائنر ہوں اور مجھے اس بات کا شدید افسوس ہے کہ آپ اپنا بیگ پیک استعمال نہیں کر پا رہے۔ آپ برائے مہربانی مجھے اپنا آدھا گھنٹہ دیں اور بتائیں کہ آپ کو کس طرح کے بیگ کی ضرورت ہے۔‘

ولاسکو نے سارہ کو اپنے کام کے درمیان پیش آنے والی مشکلات کی تفصیل بتائی کہ کس طرح ہسپتال سے واپس آکر وہ اس بیگ کو دھو نہیں سکتے اور انھیں فکر ہوتی ہے۔انھوں نے سارہ کو وہ تمام تفصیلات بتائیں جو وہ اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتا رہے تھے۔

سارہ خود اپنی پریشانیوں میں الجھی ہوئی تھیں۔ انکی بیگ کمپنی ایک مائیکرو بزنس ہے جو وہ خود مانچسٹر سے چلاتی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے وفادار گاہکوں سے رابطے میں رہتی ہیں اور اپنے نئے ڈیزائنز کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے کِک اسٹارٹر مہم چلاتی ہیں۔

تاہم کورونا پھیلنے کے بعد لوگ نہ تو سیر و تفریح کے لیے باہر جا رہے ہیں اور نہ ہی کام کے لیے دفاتر میں زیادہ لوگ جاتے ہیں۔ اور اب تو لوگوں نے بیگ خریدنا بھی چھوڑ دیا ہے اس وجہ سے ان کا کاروبار ڈوبنے لگا ہے اور اب وہ اسے بچانے کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔

سارہ گلبن

Sarah Giblin
سارہ گلبن کا کاروبار لاک ڈاؤن کے دوران متاثر ہوا

تاہم ڈاکٹر ولاسکو سے بات کرنے کے بعد سارہ نے نئے خاکے بنانے شروع کیے اور وہ بھی ایسے بیگوں کے جنہیں سٹیریلائز کیا جا سکے۔

ایمبولینس بیگوں پر تحقیق کرنے اور لوگوں سے بات کرنے کے بعد انھوں نے ترپال سے ملتا جلتا ایک کپڑا منتخب کیا جس کو لاریوں پر لگایا جاتا ہے اور بیگ کے سائڈ پر انھوں نے ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر رکھنے کی جیبیں لگائیں۔

اور یہ تھا کووڈ کے دور کا ’ریوت بیگ‘۔ اس طرح کے مشکل حالات میں نیا راستہ ڈھونڈنے والی سارہ تنہا نہیں تھیں۔

لاک ڈاؤنز نے بہت سارے پروڈکٹ ڈیزائنرز اور موجدوں کے لیے انوکھے مواقع اور چیلنج پیش کیے ہیں۔

ایک غیر منافع بخش تنظیم، ’میڈ اِن برٹین’ جو برطانیہ کے چھوٹے مینوفیکچررز کی نمائندگی کرتی ہے، نے بی بی سی کو بتایا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے کے مقابلے میں اس سال ان کی ممبرشپ 130 فیصد بڑھ گئی ہے۔

لاک ڈاؤن سے پہلے کے مقابلے میں مارچ 2021 تک، برطانوی انٹلیکچوئل پراپرٹی آفس میں رجسٹرڈ پیٹنٹ درخواستوں کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد کے مقابلے بڑھ کر 4295 ہو گئی ہے۔

ملازمتوں کے بدلتے حالات اور نئی مصنوعات کی توقعات برطانوی موجدوں کے لیے ایک زرخیز زمین ثابت ہوئے ہیں۔

لیکن کووڈ کے دوران کام کرنے والے بہت سارے پروڈکٹ ڈیزائنرز کی طرح سارہ کو بھی نئے انتظامی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پچھلے سات سالوں سے وہ اپنے ڈیزائن جنوبی چین کے ایک ویئر ہاؤس سے بنوا رہی ہیں اور ہر سال وہاں کا سفر کرتی ہیں۔ وہ عام طور پر یہ یقینی بنانے کے کوشش کرتی ہیں تیار ہونے پر ہر بیگ کا سائز، اس کی بناوٹ، سلائی زپ کی فٹنگ سب کچھ پرفیکٹ ہو۔

اب سارہ مانچسٹرکے اپنے سٹوڈیو میں پھنسی ہوئی تھیں اور ذاتی طور پر اپنے سامان کا معائنہ کرنے سے قاصر تھیں۔

سارہ کا کہنا ہے کہ ‘جب میں وہاں نہیں ہوں تو چین میں میرے پروڈکشن مینیجر میری آنکھیں اور کان ہوتے ہیں۔

پروٹو ٹائپس بنانے کے بعد چین میں ان کے ویئر ہاوس نے ریوت بیگ کا ایک جدید ترین ورژن بنایا۔ ڈاکٹر ورلاسکو نے ان نمونوں میں سے ہر ایک پر اپنی رائے دی۔ اور لیپ ٹاپ کا بیگ اپریل میں مارکیٹ میں ریلیز کیا گیا۔

سارہ کا کہنا تھا کہ میں اس بیگ پر دس سال تک تجربہ کر سکتی تھی لیکن میں نے اسے بازار میں لانے کا فیصلہ کیا۔

Tom Pellereau won the BBC show The Apprentice in 2011

Andrew Fosker/PinPep
Tom Pellereau with Lord Sugar, promoting one of his products

سنہ 2011 میں ٹام پیلیریو نے بی بی سی کا شو ‘دی اپرینٹِس’ جیتا تھا۔ وہ سارہ کے جذبات سے متفق ہیں کہ کوئی بھی نئی چیز بنانے یا ایجاد کرنے کا سب سے مشکل حصہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کب تجربے بند کر کے سامان کی فروخت کا آغاز کیا جائے۔

اس موسم خزاں میں ٹام اپنے میک اپ برش کلینر کے بعد ایک نیا پراڈکٹ جاری کریں گے۔ اسے ڈیزائن کرنے میں چار سال لگے فی الحال اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں جلدی ہی اسے بازار میں لانے کی تفصیلات عام کی جائیں گی۔

ٹام کا کہنا تھا کہ ایک موقع ایسا بھی آیا جب انھوں نے انٹرنیٹ سے پلمبنگ کے اوزار منگوائے اور ان کی مدد سے اپنے کاسمیٹک پراڈکٹ کو تراشا۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کے گھر میں میک اپ برش اور کاسمیٹکس کے سامان سے بھری الماری ہے۔

نئی نئی اشیا بنانے والوں کو ان کا مشورہ ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں سے اس پراڈکٹ کے بارے میں رائے ضرور لیں۔

’آپ کو واقعی لوگوں کی رائے یا فیڈ بیک پر توجہ دینی ہو گی، بصورت دیگر آپ کو حقیقت میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا آپ نے کوئی ایسی چیز بنائی ہے جسے لوگ خریدنے میں دلچسپی لیں گے۔‘

ٹام

Oliver Garrner

ٹام کا ایک اور مشورہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ملازمت کبھی نہ چھوڑیں کیونکہ کوئی بھی نئی ایجاد یا نئی چیز بنانے اور اسے بازار میں لانے اور آمدنی شروع ہونے میں لمبا عرصہ لگ سکتا ہے اور اس دوران کس طرح مالی طور پر مستحکم رہنا ہے اور اس بارے میں فیصلہ کرنا اہم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو مارکیٹ کا حصہ بنے رہنا ضروری جتنا لمبے عرصے تک ہو سکے۔‘

ٹام کروی نیل فائل کی اپنی مشہور ایجاد کے دوران پیسے بچانے کے لیے پانچ سال تک اپنے والدین کے ساتھ رہنے چلے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں یاد ہے کہ انجینیئرنگ کے دور کے ان کے ساتھی بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کر رہے تھے اور مہنگی چھٹیاں منانے جایا کرتے تھے اور میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہا تھا اور اکثر اپنے دوتسوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھا کرتا تھا۔

ایک ٹیکنالوجی جو اگر ٹام کے سفر کے آغاز میں میسر ہوتی تو یقیناً یہ ان کا سفر آسان بنا دیتی اور انھیں پروڈکٹ کے پروٹو ٹائپ بنانے میں مدد دیتی وہ تھری ڈی پرنٹنگ ہے۔

John Docherty and girlfriend

John Docherty

جب جان ڈوکٹی کے ذہن میں ڈیزائن آیا تو انھیں اپنا پراڈکٹ ڈیزائن ٹارس ٹیکنالوجی کو بھیجنے میں محض ستر پاؤنڈ خرچ کرنے پڑے جو شروپ شائر میں ان کے گھر کے نزدیک ہی تھی۔

باکسنگ اور مارشل آرٹ ٹیچر جان نے محسوس کیا کہ جب آپ مکا مارتے ہیں اور اپنے ہاتھ کے گرد کچھ باندھتے ہیں بجائے اس کے کہ سختی سے بند مٹھی کا استعمال کریں۔

باکسنگ دستانے میں عام طور پر تھوڑا سا جھاگ ہوتا ہے جو اس مقصد کو پورا کرتا ہے۔ لیکن 30 سال تک ٹریننگ کے دوران ان کے ہاتھ اور کلائی پر لاتعداد چوٹیں آنے کے بعد جان نے سوچنا شروع کیا کہ کیا اس ڈیزائن میں بہتری آ سکتی ہے۔

پھر جب لاک ڈاؤن ہوا تو حکومت سے انھیں وضیفہ ملنے لگا۔

ان کا کہنا تھا ’میں اپنے پارٹنراور اپنے بیٹے کے ساتھ گھر میں تھا۔ ایک تفریحی ماحول تھا مجھے لگا کہ میں کچھ نیا کر سکتا ہوں۔ اور اچانک مجھے اس چھوٹی ایجاد پر توجہ دینے کا وقت مل گیا۔‘

John Docherty's invention, the hand grenade

John Docherty

انھوں نے سلیکون ربڑ کا ایک دستی بم کے سائز کا کون بنایا جسے باکسنگ کے دستانے میں بھرا جانا تھا۔ جو ہاتھ کو کسی بھی طرح کی چوٹ سے بچانے میں مدد گار ہوتا۔

پروٹولیب نامی ایک اور مقامی پروڈکشن کمپنی نے ان کے باکسنگ ہینڈ گرینیڈ تیار کرنے پر اتفاق کیا۔ جان کی ایجاد نے پروفیشنل باکسرز اور سوشل میڈیا پر اثر ڈالنے والوں کی توجہ حاصل کرنے لگی ہے۔

باکسنگ کے دستانے بنانے والی بڑی کمپنی فیلیپو دی ناردو نے جان کے ساتھ معاہدہ کیا۔

جان کا کہنا ہے کہ ’میں ہر دن حیرت میں خود کو چٹکی کاٹتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ پہلے کسی اور نے اس ایسا کیوں نہیں کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32539 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp