تعلیمی نظام کی درستگی کے معیارات کا تعین


تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ہر انسان کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے اور اسے اپنے وجود و ہستی کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ انسانیت کی فلاح و بھلائی کے لیے اور اپنی ہستی کو بہتر بنانے کے لیے معاشرے کے ایک اہم اور کارآمد فرد کے طور پر ابھر سکے۔ بابل، مصر، چین، اور ہندوستان کے تعلیمی نظامات کی معلومات تک رسائی ممکن ہے۔ قدیم لوگ کس انداز میں اپنے معاشرے کو تربیت دیتے تھے اور انسانوں کو معاشرے کے دھارے میں شامل کرتے تا کہ اپنی بقا و اصلاح کا نظام بنا سکیں۔

ان تہذیب یافتہ علاقوں کے تعلیمی نظام کے متعلق ہم جان چکے ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم تہذیبوں کے نظامات سے نوع انسانی ابھی تک بے خبر ہے۔ انسان کو علم نہیں کہ انسانیت نے اپنی تعلیم و تربیت کا آغاز کیسے کیا تھا اور ایک انسان ہونے کے ناتے اپنی ہستی اور کائناتی نظام میں جان ڈالنے کے لیے کیسے کس رستہ سے گزر کے زندگی کی اس معراج تک پہنچا ہے۔ یونان اور روم کے معاشرتی و معاشی نظامات اور سیاسی و تہذیبی نظام کی بنت سے انسان واقف ہو سکا ہے۔

یونان میں شہری ریاستیں قائم تھی۔ یونان میں ایک ہی طرح کی بولی اور زبان رائج تھی، اسی زبان کے ذریعہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے تھے۔ ایک ہی طرح کے عقائد کے نظام کے پیرو تھے۔ نسلی صفات میں بھی یکسانیت نظر آتی ہے۔ جہاں تک سیاسی سوجھ بوجھ اور بصیرت کی بات ہے تو ان کا شعور بہت پختہ دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی خیالات اور افکار کو آزادی کے ساتھ بیان کرتے اور اتفاق و اختلاف کی مکمل گنجائش رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں رقابت بھی در آتی تھی۔

مشترکہ خطرہ کے پیش نظر وہ اکٹھے ہو جاتے اور مل کر اس کا مقابلہ کرتے، کیوں کہ ہستی کی بقا کو اولیں حیثیت دیتے تھے۔ جیسے ہی خطرہ ٹل جاتا اور فتح یاب ہوتے تو اپنے معمولی نوعیت کے جھگڑوں میں الجھ پڑتے تھے اور اپنی اپنی ریاستوں میں لوٹ جاتے اور کھیلوں میں بھی مقابلہ کرتے۔ اگر دیکھا جائے تو مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ اصل میں یونانی قوم کی خاطر ایسا نہ کرتے، بلکہ اپنی ریاست کی ناموری اور شہرت اور اپنی ہستی کی بقا کے لیے یہ رویہ اور عمل ظاہر کرتے تھے۔

بحیثیت قوم ان کا شعور اتنا پختہ نہ تھا۔ تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو یونانی قوم تعلیمی نظام میں بلند معیارات کی حامل نہ تھی، لیکن ایتھنز اور سپارٹا کی ریاستیں تعلیمی نظام میں وسیع تر مفادات کے پیش نظر توجہ کرتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے ایک قابل قدر تعلیمی نظام کو فروغ دیا تھا۔ ان دو میں سے بھی ایتھنین جو تھے وہ تعلیمی معیارات کی اعتبار سے بلند تر ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے بے مثال اقدار، رنگارنگ اور خوب صورت تہذیبی اثاثہ انسانیت کو دیا۔

اسپارٹا پانی سے دور تھا۔ اس کے قریب سمندر نہ تھا جس کی وجہ سے وہاں جو تہذیب پروان چڑھتی ہے وہ اکھڑ قسم کی ہے۔ اگر اسپارٹا کی ریاست کا محل وقوع دیکھا جائے تو اس ریاست کے گردوپیش میں ایسے لوگ آباد تھے جو ان کے باج گزار تھے۔ یہ محکوم لوگ تھے وہ اسپارٹا والوں کو خراج ادا کرتے۔ اور اسپارٹا والوں کے پاس جنگی قیدی بھی تھے جو ان کے کام آتے تھے۔ ان کو قابو میں رکھنے کے لیے اور محکوموں پر اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے اسپارٹا والوں کو تعلیمی نظام کی ضرورت پیش آئی۔

انھوں نے ریاستی سطح پر اس کا انتظام کیا۔ اسپارٹنز کو اپنی بقا کے لیے ایسے نوجوانوں کی ضرورت تھی جو جسمانی طاقت میں اچھے ہوں اور جرات، ضبط اور اطاعت کی صفات و خصائص سے متصف ہوں۔ یہ خوبیاں جنگ کے لیے ناگزیر ہیں۔ جنگی فرائض کی ادائیگی کے لیے انھوں نے اپنے تعلیمی نظام کو اس انداز میں ترتیب دیا جو ان کی ضروریات کے مطابق تھا۔ اسپارٹا میں جسمانی طاقت کی قدر زیادہ تھی اس لیے انھوں نے ذہن کی بجائے جسم پر توجہ مرکوز کی اور ایسا تعلیمی نظام لاگو کیا جو جسمانی طور مضبوط افرادی قوت دے سکے۔

ایتھنین تعلیم نظام کے لحاظ سے اسپارٹن سے مختلف تھے۔ ایتھنین کے حالات ایسے نہ تھے، ان کو صرف جسمانی طاقت کی ضرورت ہی نہ تھی بلکہ ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کی ضرورت تھی۔ ایتھنز والے ذہنی نشوونما اور ترقی کے لیے زیادہ زور دیتے تھے۔ ایتھنز میں جسم کے ساتھ ذہنی نشوونما اور بلند نظری و فکری کا خاص کر خیال رکھا گیا۔ ایتھنز والے لچک دار رویہ کے حامل لوگ تھے۔ ان میں نئے خیالات کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔

وہ نئے افکار و نظریات کو پرکھتے اور جانچ کے بعد اس کو اپنا لیتے اگر وہ ان کے لیے قابل عمل اور مفید ہوتا۔ ایتھنز والوں میں تحقیق جذبہ بلند تھا۔ وہ ہر معاملے اور ہر خیال کی تصدیق اور جانچ کے بعد اسے اپنے تعلیمی نظام میں داخل کرتے اور اسے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ بائبل میں ان کی اس عادت خاصہ کو بیان کیا گیا ہے جو کہ آج بھی ان کے تعلیمی نظام کی بلند نظری کا شاہد ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے تعلیمی نظام کے معیارات پر اگر بات کی جائے تو ہندوستان کی تہذیب یعنی وادی سندھ کی تہذیب دریاؤں کی پروردہ ہے۔ پانی کی وافر دستیابی کے باعث زراعت کا شعبہ مستحکم تھا۔ لوگوں کی خوراک کی ضروریات پوری ہو رہی تھی۔ خوشحالی کی وجہ سے لوگ مکانات، برتن، نقاشی، دھات سے بنی اشیا، تانبا، کانسی اور چاندی کا استعمال کرتے تھے۔ موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں کی کھدائی اس کی شاہد ہے۔ کسی بھی خطے کا جغرافیائی محل وقوع اس کے تعلیمی نظام کا تعین کرتا ہے۔ لوگوں کی ضروریات کے مطابق ریاست تعلیمی نظام کو متعین کرتی ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد تعلیمی نظام کی درست سمت ابھی تک نظر نہیں آتی۔ ہم اپنے جغرافیائی محل وقوع کو مدنظر رکھ کا اپنی تعلیمی پالیسیوں کا تعین نہیں کر پار ہے۔ اس جدید سائنسی و انفو ٹیکنالوجی کے دور میں ہماری قومی ضروریات کیا تقاضا کرتی ہیں ہمیں اسے مدنظر رکھ کر اپنی سمت کے تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کا ایک حلقہ قائم کرنا چاہیے جو جغرافیائی محل وقوع سے واقفیت کے ساتھ اس جدید دور کی ضروریات کے تقاضوں کے سمجھتے ہوئے اپنی سفارشات پیش کریں تا کہ درست سمت تعلیمی نظام کی رہنمائی کی جاسکے۔ کسی بھی قوم کی ترقی اس کے تعلیم نظام سے وابستہ ہوتی ہے۔ تعلیمی نظام افرادی قوت کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیمی نظام کی درستگی ایک قوم کی بقا کے لیے نہایت اہم حیثیت رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments