ڈاکٹر تحسین فراقی اور بالشتیے


گروپ بندی نے علم و ادب کو بہت نقصان پہنچایا ہے، اب یہی دیکھ لیجیے کہ جس منصور آفاق کو لیجنڈ ڈاکٹر تحسین فراقی کی جگہ مجلس ترقی ادب کی کرسی دینے پر ایک عالم اعتراض کر رہا ہے اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے ممتاز ادبی شخصیت ڈاکٹر خواجہ زکریا ان کے دفتر پہنچے ہوئے ہیں، کل کائنات میں یہ منصور آفاق واحد انسان ہیں جو عثمان بزدار کے لیے دن رات تعریفی کالم لکھتے ہیں اور انہی کالموں کا ”صلہ“ بھی موصوف کو مل چکا ہے اور ایسا کہ جس ڈاکٹر تحسین فراقی نے ان گنت اسٹوڈنٹس کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کروائیں اس کی جگہ ایک ایسے نابغے کو بٹھا دیا گیا ہے جس کے کریڈٹ پر چند کمرشل ڈراموں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے ہاں خوشامد کا بازار ہے جس کی گرمائش نے خوشامد پسند حکمرانوں کو ایسا مست الست کیا کہ وہ منصور آفاقی کے دست منکا مست پر بے اختیار بیعت کرنے پر مجبور ہو گئے اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے عہدے کی مدت ختم ہونے کا اعتبار بھی نہ کیا، المیہ ہے کہ اب لوگ سرکاری مناصب کے حصول کے لیے ہر حد پار کرنے پر تل جاتے ہیں اور یہ تک نہ سوچتے ہیں کہ سازشیں کر کے کسی کو ہٹانے سے منصب تو مل جاتا ہے لیکن عزت نہیں اور دکھ کی بات ہے کہ کبھی جس کرسی پر احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد اور تحسین فراقی سے بڑے اور شاندار لوگ بیٹھا کرتے تھے اب اس پر بار تھی کے کسے نہ جوگے حکمرانوں کے خوشامدی براجمان ہیں، خاکسار کو یاد آ رہا ہے کہ جب لیجنڈ احمد ندیم قاسمی کو اسی طرح عہدے سے ہٹایا گیا تھا تو اس وقت بھی خاکسار نے صدائے احتجاج بلند کی تھی کہ اتنے بڑے مقام و مرتبے کی شخصیت کے ساتھ یہ سلوک نامناسب اور زیادتی ہے اور اب ڈاکٹر تحسین فراقی سے قابل اور شاندار انسان کے ساتھ ظلم پر چپ کیسے رہا جاسکتا ہے؟

اس وقت 99 فی صد لکھنے اور پڑھنے والے ڈاکٹر تحسین فراقی کو یوں ہٹانے پر نوحہ کناں ہیں اور شاید انہیں منصور آفاق کے آنے پر اتنا صدمہ نہ پہنچا ہو جتنا ڈاکٹر تحسین فراقی کی یوں رخصتی پر ہوا ہے اور پھر اگر انہیں ہٹانا ہی تھا تو ان کی جگہ کسی ان سے بڑے اور قد آور انسان کو لاکر بٹھایا جاتا تو بات بھی تھی، تب ایسا شور نہ پڑتا لیکن اگر آپ عالم چنا کو اٹھا کر کسی بونے کو بٹھا دیں گے تو آوازیں تو بلند ہوں گی، اعتراضات تو سامنے آئیں گے اور جو گنتی کے لوگ کہتے ہیں کہ منصور آفاق بڑے قابل ہیں تو اول تو ان کے ہر کالم میں عمران خان اور بزدار کی تعریفیں ہی ان کی ”قابلیت“ کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے کافی ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ کیا منصور آفاق کو ڈاکٹر تحسین فراقی کے بارے کچھ علم نہ تھا؟

وہ کم ازکم اپنے لگانے والوں کو یہ تو کہہ سکتے تھے کہ ”ان کی مدت کے خاتمے کا انتظار کر لیں“ لیکن لگ رہا کہ کسی کو ڈاکٹر تحسین فراقی کو جان بوجھ کر اذیت دینے کی جلدی تھی اور وہ بھی ان دنوں کہ جب ان کا نوجوان بیٹا بھی حال ہی میں اللہ کو پیارا ہوا ہے اور ڈاکٹر تحسین فراقی اس صدمے کے باوجود پہاڑ سی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر بھی علم و ادب کی دن رات خدمت میں جتے ہوئے ہیں اور منصور آفاق سے دس جنم لے کر بھی ان کے برابر نہ پہنچ سکتے ہیں، بہرحال یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمران اپنے خوشامدیوں اور سفارشیوں کو اہلیت نہ ہونے کے باوجود قوم کے سرمائے سے چلنے والے اداروں پر مسلط کرتے پھر رہے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف نے پچھلے کالم میں گلوکار عطاء اللہ عیسی خیلوی کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ عمران خان کے حلقے کے ایک پی ٹی وی سے ریٹائر ہونے والے بندے کو اپنے دوست وزیراعظم عمران خان سے صرف اس لیے ملانے لے کر گئے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی پھر سے پی ٹی وی میں کنٹریکٹ وغیرہ پر جاب دے دی جائے اور مزے کی بات یہ ہے وزیراعظم نے ایم ڈی پی ٹی وی یا کسی متعلقہ افسر سے اس سفارشی بندے کی قابلیت اور اہلیت جانے بغیر ہی اپنے دوست گلوکار کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے ساتھ بیٹھے شہباز گل کو فوراً ہی ایم ڈی پی ٹی وی کو اس بندے کی سفارش کرتے ہوئے اقدامات کرنے کو کہا، کیا یہ میرٹ شکنی اور دوست نوازی کی بدترین مثال نہیں ہے؟

آخر وزیراعظم قومی اداروں کو دوستوں کی خواہشات کی نذر کیسے کر سکتے ہیں؟ اور پھر اسی کالم میں موصوف جو کہ اس وقت ایک سرکاری ادارے کے سربراہ بن چکے ہیں، پی ٹی وی پر اپنے لکھے ایک ڈرامے کو چلوانے کے لیے وزیراطلاعات فواد چودھری کو کچھ کرنے کو بھی کہتے ہیں، کیا ڈاکٹر تحسین فراقی کے حوالے سے ایسی کہانیاں کبھی سنیں کسی نے؟ موصوف اپنے کالم میں ملک کے وزیراعظم کو دوست نوازی کے لیے میرٹ سے ہٹ کر اقدامات کرتے بتاتے ہیں جو کہ ایک سنگین کام ہے اور قومی اداروں کے سربراہان کو سفارشی بنیادوں پر چلانے کا ایک کھلا اور واضح ثبوت بھی، اس کالم میں موصوف سفارشی کلچر کو برا کہنے کی بجائے اس کو پروموٹ کرتے نظر آتے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسا شخص علم و ادب کی خیرخواہی تو چھوڑیں کسی بھی قومی ادارے کی سربراہی کے قابل ہو سکتا ہے؟

اور پھر اگر آپ قابل اور دنیا بھر میں جانے مانے اساتذہ کے ساتھ ایسا برا سلوک کریں گے تو کیا ان کے ماننے والے اور ہزاروں لاکھوں شاگرد اس پر آپ کو خراج تحسین پیش کریں گے؟ اور جس طرح کی خبریں گرم ہیں کہ موصوف نے دفتر گھستے ہی تحسین فراقی کے ساتھ عجیب اور نامناسب رویہ اپنایا اور انہیں اپنا سامان لے جانے کی مہلت مانگنے پر فی الفور ہی سب کچھ سمیٹنے کا آمرانہ انداز میں جواب دیا، وہ بھی ایک متکبر شخص کی نشانی ہے لیکن جو لوگ سرکار دربار میں خوشامد اور تعلقات کا ہتھیار استعمال کر کے کسی عہدے کو پاتے ہیں وہ چھوٹی حرکتیں ہی کیا کرتے ہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ بڑے منصب پر بیٹھ کر کوئی بڑا نہیں بن جاتا اس کے لیے جان مارنی پڑتی ہے، لہو جلانا پڑتا ہے، لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے کسی جوگے نہ رہتے ہیں، یہ تاریخ کا سبق ہے جسے نادان ہمیشہ بھلا دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments