مجھے خود کی تلاش میں دلچسپی نہیں، روزگار چاہیے



عنوان میں نے ایسا رکھا ہے کہ جس نے تحریر پڑھنی ہو وہ بھی نہ پڑھے، ایسے حوصلہ افزا جملے سن سن لوگ تنگ آ چکے ہیں، ایسے جملے اکثر حوصلہ دینے پر معمور اسپیکرز اپنے منہ سے ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، اپنی تلاش کیا ہے؟ یہ ایک عجیب اور پراسرار سا سوال ہے، انسان سوچ کر کیا کرے؟ جس ملک میں آپ کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہ ہو تو آپ خود کی تلاش پر کی جانے والی مشقت کو لات مار کر اس سے رزق کمانے میں دوڑ لگائیں گے۔

ایک طویل مدت میں چند جھلکیاں ان انسان نما مسیحاؤں کی گفتگو دیکھی اور سنی ہیں جو انسان کو ایک چٹکی بھر لمحے میں دکھوں کے سمندر سے نکال کر باہر لا کھڑا کرتے ہیں، میٹھی میٹھی زبان سے شہد اگلتے ہیں، ہمارے جیسا بیچارہ بے روزگار انسان اور معاشرے کی تقسیم میں پھنسا ہوا انسان بھی انہیں سنتا ہے کہ چلو روٹی نہ سہی امید تو کھانے کو مل رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اپنے اندر جھانکو اور گریباں کے بٹن کھول کر خود کی پہچان پر وقت صرف کرو جس طرح کے گوتم بدھ نے کیا تھا، دنیا کی بلند و بالا پریشانیوں کو ایسے مضمون کی شکل میں پیش کر جاتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ دکھ اور تکلیف تو زمانے کی کہانیاں ہیں، ہم تو پیدا ہی سکندر اعظم بننے کے لئے ہوئے ہیں، میرے ایک جاننے والے مجھے کہنے لگے کہ فلسفہ پڑھو۔ میں نے ادب سے بکواس کی کہ اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ کیا مجھے نوکری مل جائے گی؟ کیا میرا آنے والا وقت دو وقت کی روٹی دیکھ سکے گا؟ کیا غریب کی دال پانی میں دال کے بغیر گل جائے گی؟

کہنے لگا تمہیں علم کا سمندر ملے گا، تم دنیا کے مختلف علوم سے واقف ہو جاؤ گے، بہت سارے سوالات کے جواب مل جائیں گے، میں نے کہا تم یہ کیوں نہیں کہ دیتے کہ سیدھا سمندر میں غوطہ لگا دوں، حد تو یہ کہ سوال دس، پندرہ ہزار کی نوکری کا ہے، سوال دو بھی نہیں ایک وقت کی روٹی تک محدود ہو گیا ہے، اور پھر شادیاں، اولاد، بیوی، بہنوں، بیٹیوں کے جہیز؟ سوالات سادہ عام سے سلیس اردو زبان میں ہیں، اور جواب میں فلسفے کا علم پڑھایا جاتا ہے، کہتے ہیں خواب دیکھو کہ آپ ایک ایسی سلطنت کے شہزادے ہیں جس پر سورج بھی غروب نہیں ہوتا، اور یہ خواب بھی آپ ایک بارش میں ٹپکتی ہوئی چھت کے نیچے آنکھیں کھول کر دیکھیں، کنفیوژن کا شکار معاشرہ اور ان کے مسیحا، دونوں عجیب کش مکش میں ہیں، سننے والے کو کچھ نہیں مل رہا اور بولنے والے کو اپنا چیک سود سمیت مل جاتا ہے، کتنا فرق ہے؟ اشرافیہ اور عام فہم، سادہ لیکن قدرے بیوقوف قوم میں اور ایسی میٹھی تسلی نما نشو و نما ہی تو ہمیں لے کر بیٹھ گئی ہے۔

اور جب یہ مضمون میں لکھ رہا ہوں تو ایک مسجد سے مولوی صاحب کا اعلان سنائی دے رہا ہے کہ ”روزے کا وقت ختم ہونے والا ہے اور چائے ابھی باقی ہے“ ، یہ حال ہے امت کے معماروں کا، اور ہم کہتے ہیں کہ آسمان سے راج کرنے تو صرف ہم پاکستانی مسلمان ہی آئے ہیں، ہم پر راج کرنے والے بنا خواب دیکھے بنا محنت کیے عربوں کے اثاثوں کے مالک بن جاتے ہیں، بیرون ملک جا کر اپارٹمنٹس خریدتے ہیں اور پھر حرام خوری کرتے ہیں، دنیا تو ان لوگوں کی ہے، ہمارے لئے تو یہ ایک آزمائش ہے جو ٹل ہی نہیں رہی، حالات یہ ہیں کہ چند دن پہلے ایک بزرگ کو دیکھا جو کمپنی باغ کی دیوار کے ساتھ بیٹھے نیم ڈینٹسٹ سے دانت لگوا رہا تھا اور مجھے تو افسوس اس بات پر ہو رہا تھا کہ اس ملک کا صدر ایک ڈینٹسٹ ہے، حالات یہ ہیں کہ ہم قوم کو ماسک پہنانے کے لئے فوج طلب کر رہے ہیں، یہ قوم تو عطائی ڈاکٹروں سے علاج کرانا چاہتی ہے، نیم حکیموں سے مشورے کرنا چاہتی ہے، وہ قوم ماسک پہن کر کیا کرے گی؟ یہاں تو تین گھنٹے کی ایکسپائری والا ماسک ہم دس، پندرہ دن تک چلا لیتے ہیں، یہ قوم کیا فلسفہ پڑھے اور کیا تعلیم حاصل کرے؟

ان حالات میں کون ”خود کی تلاش“ شروع کرے؟ ، جیب میں روزگار تلاش کرنے کی رقم نہ ہو اور ہم چلیں قدرت کی گہرائیوں میں علم تلاش کرنے، کیا یہاں انسانوں کی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو خیال نہیں آتا کہ غریب بھی اس ملک کا ایک شہری ہے، ہر جگہ ہم تقیسم ہیں، انتہا تک خود چلے جاتے ہیں اور دوسرا کوئی کہے تو ہمیں یہ یاد آ جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، کہنے کو کوئی مسلمان ہے، ہونے کو وہ انسان بھی نہیں کہلا سکتا۔

ہمارا مقصد روٹی ہے، روایات کیا ہیں؟ ہمیں کوئی لینا دینا نہیں، تہذیب کیا ہوتی ہے ہمیں کچھ معلوم نہیں، تمدن، عقل اور شعور اس وقت سمجھ میں آتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہو، ہانڈی میں فلسفہ پکا کر بچوں کو نہیں کھلایا جا سکتا، روٹی کی جگہ کتابوں کے اوراق نہیں کھائے جا سکتے، صاف پانی کی جگہ علم کے سمندر کا پانی نہیں پیا جا سکتا، کیونکہ پیاس نہیں بجھتی، قوم تو ہم کبھی بھی نہیں تھے، جنہوں نے بنایا ان سے عالم آخرت میں پوچھنا پڑے گا کہ آپ عوام کو کس مشکل میں ڈال کر آئے تھے؟

بجائے ہمارے اوپر وقت ضائع کرنے کے ہمارے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں، ہم سخت جان لوگ ہیں، نہ خواب دیکھ سکتے اور نا ہی دفتر میں بیٹھ کر دماغ استعمال کر سکتے ہیں۔ خدارا قوم کو ہارنے والوں کے قصے سنائیں، ہو سکتا کہ کوئی لیڈر آپ بھی پیدا کر لیں، کامیاب لوگوں کے قصے زہر لگتے ہیں، بھیڑوں کے ریوڑ کو شیر کی زندگی اور کامیابیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ کبھی بھی چرواہوں کے خلاف بغاوت نہیں کریں گی۔

آپ ”فلسفہ“ اور کتابیں امیروں کو دیں غریب کو بس دو وقت کی روٹی دے سکتے ہیں تو دیں ورنہ مفت مشورے اور سپانسر شدہ کتابیں دینے سے گریز کریں، ہمارا کچھ نہیں ہونے والا آپ کے پیسے ضائع ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments