سیاسی مقاصد کی تکمیل اور ’مذہب کا استعمال‘


سعودی عرب میں مختلف اسلامی ممالک کے سربراہان جب سرکاری دورے پر آتے ہیں تو ان کے لیے خانہ کعبہ کے دروازے کو خصوصی طور کھولا جاتا ہے ان سربراہان مملکت کو خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دروازہ عوام کے لیے بھی کھولا جاتا ہے اور کہ نہیں؟ اس حوالے سے جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں طویل عرصے تک کسی منظم ترتیب کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ تاہم شدید بھیڑ کے باعث اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہوا۔

لہذا یہ امر اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس دروازے کو سال میں صرف دو مرتبہ کھولے جانے تک محدود کر دیا جائے۔ پہلی مرتبہ شعبان میں غسل کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ اس کے غسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر ذوالحج کے مہینے میں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ خدا کے گھر میں سربراہ مملکت اور ایک عام آدمی میں فرق کیوں روا کیا جاتا ہے؟ مذہب بندے اور خدا کا معاملہ ہے۔ ہر شخص اپنے اعمال اور عقائد کے لئے خدا کو جوابدہ ہے۔

جبکہ خدا کے گھر میں سب برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک اگر کوئی افضل ہے تو صرف اپنے عمال کی وجہ سے ہے۔ وہاں پر کوئی عام یا خاص نہیں ہوتا۔ تو پھر یہ فرق کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ ہمارے اکثر حکمران یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے لیے خانہ کعبہ کے دروازے کو دو یا تین دفعہ خصوصی طور پر کھولے گئے ہیں۔ حالانکہ ہمارے یہ حکمران گئے بھی سرکاری دورے پر ہوتے ہیں۔ سرکاری وسائل کے استعمال سے مقدس مقامات پر عبادات کیا معنی رکھتے ہیں؟

سرکاری دورے پر جانے والے سربراہان مملکت کے لیے خانہ کعبہ کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جبکہ وہ عام آدمی جو زندگی بھر کی پونجی جمع کر کے عمرہ اور حج کے لیے جاتے ہیں ان کے لیے یہ دروازے بند ہوتے ہیں۔ خدا کے گھر میں سربراہ مملکت اور ایک عام آدمی میں فرق نہیں ہوتا تو یہ فرق روا کیوں رکھا جاتا ہے؟ سعودی عرب میں اسلامی حکومت نہیں بلکہ بادشاہت کا نظام ہے۔ اور جب غیر ملکی سربراہان سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرتے ہیں تو ان کے لیے خصوصی طور پر خانہ کعبہ کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

اس کا مقصد سفارت کاری اور سیاسی ہوتا ہے۔ مطلب مذہب کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس عمل کو اپنے سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلم امہ کے مقدس ترین مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جس کا فائدہ سعودی حکومت سیاسی طور پر اٹھاتی ہے۔ ماضی میں بھی سعودی عرب کی طرف سے کئی ممالک کے حاجیوں پر پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔ جس کے مقاصد سیاسی تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہم لوگ مذہب پر بحث نہیں کر سکتے۔

اور جب لفظ مذہب آ جائے تو یہ کہا جاتا ہے آنکھوں کو بند کر کے یقین کر لیا جائے۔ شدت پسندی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے سماج میں سچائی تک پہنچنے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ سوال ہی تو زندگی ہے، سوال ہی بقا ہے، بار بار سوال کرنے سے ہی جہالت کی دھندلاہٹ کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے ”، ہمارے سرکار ﷺ نے سوال کو آدھا علم اسی لئے کہا ہے۔ عقل و شعور میں ترقی کا پہلا قدم سوال کرنا اور پوچھنا ہے، اسی ترتیب سے تحقیق و جستجو کی راہیں کھلتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments