سائنسدان، کورونا اور ہم


جب اکثر سائنسدان ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو اس بات کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ جیسے سابق امریکی صدر ٹرمپ کلائمیٹ چینج کا مذاق اڑاتے تھے۔ یا جیسے بہت عرصے سے سائنسدان کہہ رہے تھے کہ ہماری اینٹی بائیوٹک ایک دن فیل ہو جائیں گی۔ ہمیں اس کے اوپر زیادہ ریسرچ کی ضرورت ہے تاکہ اس ممکنہ برے وقت کو ٹالا جاسکے یا اس سے بچا جا سکے۔ ہمیں تحقیق کے لیے سپورٹ کرو۔ مگر ہر ملک کو بم بنانے کی سوجھی تھی۔ جب سائنسدان یا سائنس کو سمجھنے والے لوگ مثلاً بل گیٹس کورونا جیسی وبا کی پیش گوئی کرتے تھے تو لوگ مذاق اڑاتے تھے۔

افسوس کی بات ہے کہ انہی باشعور لوگوں کی پرانی ویڈیوز کو دیکھ کر آج لوگ سوال کرتے ہیں کہ فلاں کو پہلے سے کیسے پتا تھا کہ ایسے ایسے ایک وبا پھیلے گی؟ محترم، ہر باشعور سائنسدان کو یہ پتا تھا کہ یہ وقت آ سکتا ہے۔ اگرچہ بل گیٹس خود کوئی بڑا سائنسدان نہیں تھا مگر بہت سارے نامی سائنسدانوں کا دوست تھا، بہت سی یونیورسٹیز میں بل گیٹس کے پیسوں سے سائنسدان تحقیق کرتے تھے، اس لیے بل گیٹس سائنٹیفک کیمونٹی میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔

اس نے یہ باور کر لیا تھا کہ یہ اینٹی بائیوٹک رزیزسٹنس دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ وہ ایک مشہور آدمی تھا اور اس کا انداز بیان بھی سائنسدانوں سے بہتر اور عوامی تھا اس لیے لوگوں نے اس کی ویڈیو کو زیادہ دیکھا سمجھا اور پھر سوال کیا کہ اس کو پہلے سے اتنی تفصیلات کیسے معلوم تھیں کہ ایسا ہو سکتا ہے؟ لیکن سائنسدان تو اکثر کانفرنسز میں اس موضوع پر سر پٹختے ہی رہتے تھے۔ مگر ان کی بات ذرا اوپر لیول کی، سائنس کی زبان میں ہوتی تھی۔ یقین نہیں آتا تو مختلف رنگ و نسل و مذاہب سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کے لکھے گئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تحقیقی مقالے دیکھ لیجیے جس میں انہوں نے اسی موضوع پر تحقیق کی ہے۔

ایک پاکستانی سائنسدان کی مثال لیجیے۔ میں 2015 میں ڈاکٹر اسد مصطفی سے ملنے ان کی کورین یونیورسٹی پہنچا، ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ان کی تجربہ گاہ دیکھی تو اندازہ ہوا کہ کورونا جیسے جراثیم کی مدافعت پر تحقیق کرنا کتنا مشکل اور کس قدر اہم کام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جراثیم ہر وقت اپنی ساخت بدلتے رہتے ہیں۔ اور ان بدلتی ساخت والے جرثوموں پر پرانے طریقہ کام نہیں کرتے بلکہ نئی ادویات بنانی پڑتی ہے۔ اس لیے وہ جو یونیورسٹی کے ہسپتال جاتے ہیں اور وہاں سے جراثیموں کے سیمپل لے کر آتے ہیں۔

کیونکہ ہسپتال میں نئے سے نئے جراثیم ہوتے ہیں۔ اور پھر ڈاکٹر اسد ان جراثیم کو مارنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ نئی دوا بننے میں کتنا وقت لگے گا اس بابت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انسانیت ہزاروں سال اس زمین پر رینگتی رہی مگر کسی کو کشش ثقل کا اندازہ تک نہ ہو سکا، جب تک کہ سولہویں صدی میں انگلینڈ میں پیدا ہونے والے آئزک نیوٹن نے اس کا کلیہ بیان کیا۔ اسی طرح 1928 میں پنسلین نامی پہلی اینٹی بایوٹک بننے سے پہلے صدیوں تک انسانیت کورونا جیسی وباؤں کے ہاتھوں شکست کھاتی رہی تھی۔

کبھی انٹرنیٹ پر پڑھیے گا کہ بلیک ڈیتھ کیا چیز تھی اور اس نے یورپ میں کس قدر تباہی مچا رکھی تھی۔ اینٹی بائیوٹک کی ایجاد سے قبل انسانوں کی اوسط عمر پندرہ بیس تیس سال ہوا کرتی تھی۔ کیا ہم اسی سمت لوٹ رہے ہیں؟ تو اس مایوسی کی گھڑی میں امید کس سے کی جائے، حکومتوں سے؟ یا ڈاکٹروں سے؟ جواب ہے سائنس سے، جس نے پہلے بھی ہمیں بہت سی مشکلات سے نکالا ہے۔

اس مشکل کی گھڑی میں جب ہم بحیثیت انسان ایک مصیبت کا شکار ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ کورونا کے سازش ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ ہر ملک کے لوگ اس وبا کا الزام دوسرے ملک پر ڈال رہے ہیں۔ حتی کہ بعض بھارتی پاکستان پر ڈال رہے تھے۔ بہت سے عرب دوستوں سے میں نے یہ سنا کہ یہ آفت اللہ نے کافروں پر ڈالی ہے ہمارے اوپر یہ آفت نہیں آئی، اللہ نے ہم مسلمانوں کو محفوظ رکھا ہے۔ مگر آج ان کے اپنے عرب ممالک کورونا کے حملہ سے سسک رہے ہیں تو گویا کورونا اب خدا کا عذاب نہیں رہا۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے جو مذہب اور قوم سے ماورا ہے۔ پہلے بھی ہمارے باپ دادا پر یہ آفت بہت دفعہ آ چکی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا کوئی دادا پڑدادا اسی موذی مرض کے ہاتھوں جان دے چکا ہو۔ اور اگر سائنسدانوں کو پہلے سے خطرہ تھا کہ یہ آفت دوبارہ سے آ سکتی ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں بحیثیت انسان اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو بغیر کسی ثبوت کے شک کی نگاہ سے دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments