ایک مصور اور ایک مجسمہ ساز
جس طرح تھیٹر ناروے میں مقبول تھا اسی طرح آرٹ گیلریز بھی عام اور مقبول تھیں۔ ناروے میں فنکار بھی کئی گزرے ہیں اچھی بات یہ ہے کہ آرٹسٹ کو اس کی زندگی میں ہی مقبولیت اور شہرت ملی۔
مصوروں میں ایک نمایاں نام ایڈورڈ مونک (Edvard Munch 1863۔ 1944) کا ہے۔ مونک نے ساری زندگی تصویریں بناتے اور ان میں رنگ بھرتے گزاری۔ زندگی میں ہی انہیں شہرت بھی مل گئی اور مقام بھی۔ آرٹ کی ابتدائی تعلیم ناروے سے ہی حاصل کی پھر فرانس کے مشہور آرٹ اسکول گئے۔ وہ حقیقت پسند مصور تھے۔ ان کی مصوری میں سوگواری، نفسیاتی گتھیاں، اداسی اور افسردگی نطر آتی ہے۔ یہ تصاویر کچھ کہتی دکھائی دیتی ہیں۔ مونک نے اپنی تمام تصاویر اوسلو کی شہری حکومت کو دان دے دیں۔ ان میں 28 ہزار سے زیادہ پینٹنگز تھیں۔ اوسلو نے ان کی یاد میں ایک میوزیم بنا ڈالا جسے مونک میوزیم کہتے ہیں۔ اس میں مونک کی شہرہ آفاق پینٹنگ ”چیخ“ (1893 Scream) بھی شامل ہے۔
” چیخ“ دنیا کی مشہور ترین پینٹنگز میں سے ہے۔ دنیا بھر میں یہ بے چینی اور اضطراب کا سمبل بن چکی ہے۔ یہ عکس سیاسی احتجاج کے پوسٹرز سے لے کر دہشتناک فلموں تک میں استعمال ہوا۔ اور اب تو اس کی اپنی ”ایموجی“ بھی ہے۔
مونک نے اس پینٹنگ کے چار یا پانچ ورژن بنائے۔ تصویر ایک ہی تھی لیکن رنگوں کا انتخاب جدا تھا۔ مصور کے اپنے مطابق یہ اس کی اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا پرتو ہے۔ وہ ایک سڑک پر دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا۔ غروب آفتاب کا وقت تھا۔ جب اسے ایک شدید قسم کا احساس ہوا۔ اس نے اسی وقت اپنی اس کیفیت کو ایک کاغذ پر اتار لیا۔
بنیادی طور پر مونک نے اس پینٹنگ کا نام رکھا تھا ”فطرت کی چیخ“ لیکن اسے ایک بے بس انسان کی چیخ سمجھ لیا گیا۔ پینٹنگ میں ایک شخص اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں گویا وہ کسی شور سے پریشان ہو رہا ہے۔ مونک کے اپنے مطابق یہ شور فطرت کا تھا اور وہ اس کی شدت سے متاثر ہوا اور وہ پینٹنگ میں اپنی روح کے تاثرات بیان کر رہا ہے۔ مونک کی ”چیخ“ پینٹنگز کے ساتھ کچھ عجیب سا ہوتا رہا۔ یہ دو بار چوری ہوئی۔ پہلی بار 12 فروری 1994 میں۔ چور میوزیم کی ایک کھڑکی سے اندر داخل ہوئے۔ ان دنوں پورا ملک موسم سرما کے اولمپیک کھیلوں کی میں مشغول تھا جو ناروے میں منعقد ہو رہے تھے۔ نڈر چور اطمینان سے اندر داخل ہوئے اور مونک کی پینٹنگ ”چیخ“ کا ایک ورژن لے گئے۔ چور ایک نوٹ بھی چھوڑ گئے۔ ”گھٹیا سیکیورٹی کا شکریہ“ ۔ پینٹنگ تین ماہ بعد ڈھونڈ لی گئی۔ چار لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ مقدمہ بھی چلا لیکن ناکافی ثبوت کی بنا پر وہ رہا ہو گئے۔ یہ پینٹنگ ایک برٹش انڈر کوور جاسوس نے تلاش کی جو آرٹ ڈیلر کا بھیس بنا کر پینٹنگ بیچنے والوں سے ملا اور پینٹنگ برآمد کر نے میں کامیاب ہو گیا۔
پھر 2004 میں ایک بار پھر یہ پینٹنگ چوری ہو گئی۔ اس بار ماسک لگائے اسلحہ بردار چور میوزیم میں داخل ہوئے اور پینٹنگ کا ایک دوسرا ورژن لے اڑے۔ یہ بھی دو سال بعد مل گئی۔ 2006 میں چھے افراد پر مقدمہ چلا۔ ان میں سے تین پر جرم ثابت ہوا اور سزا ہوئی۔
2012 میں مونک میوزیم نے ”چیخ“ کا ایک ورژن نیلام میں رکھا۔ نیویارک میں یہ پینٹنگ 120 ملین ڈالر میں بکی جو ایک ریکارڈ ہے۔
اس کے علاوہ بھی مونک کی کئی مشہور پینٹنگز ہیں جن میں پل پر کھڑی لڑکیاں، میڈونا، بیمار بچہ اور ڈانس وغیرہ۔
مونک کہتا تھا کہ چیخ نامی پینٹنگ میں وہ خود ہے۔ وہ چہرہ اس کا ہے۔ تو اسے ایک سیلفی بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک طرح سے ایڈورڈ مونک سیلفی کا موجد ہے۔ ایک حیران کن بات جو اس نے اپنے ایک دوست ڈینیش پینٹر ویلمسین کو خط میں لکھی ”اگر میرے پاس ایک ایسا ٹیلیفون ہوتا جو بغیر تاروں والا ہوتا اور جو میں جیب میں رکھ سکتا تو تم تک میرا پیغام بہت پہلے پہنچ جاتا۔“ اس لحاظ سے مونک نے موبائل فون کا آئیڈیا بھی پیش کیا۔
مونک کو اپنی زندگی میں ہی شہرت اور مقبولیت مل گئی تھی۔ لیکن کچھ فنکاروں سے وہ حسد بھی کرتا تھا۔ اس میں مجسمہ ساز گستاف ویگلاند سر فہرست ہے۔ 1920 میں جب ایک پارک میں ویگلاند کے مجسمے سجائے جانے لگے تو مونک نے کھل کر اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار یہ کہہ کر کیا ”اس پر بے تحاشا رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ میرا کام بھی اتنا ہی اہم ہے۔ میرے لیے بھی ایسا کرنا چاہیے۔“ مونک غصے کا تیز تھا۔ جن لوگوں سے ناراض ہوتا ان کے کیریکیچر بناتا اور انہیں کسی حیوان کی شکل دیتا۔ ہمسایوں سے جھگڑا رہتا اور ٹیکس آفس والوں سے اس کی ناراضی چلتی رہتی۔ اسلحے کا شوق رکھتا تھا اور اچھا نشانہ باز تھا۔ بقول خود اس کے ایک دفعہ اس نے اپنے ساتھ پینٹر لودویگ کارسٹین کے منہ میں دبے سگریٹ پر فائر کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کارسٹین کی بہادری تھی اور میرا پاگل پن۔
اور اب کچھ ذکر مجسمہ ساز گستاف ویگلاند (Gustav Vigeland 11 April 1869 ۔ 12 March 1943) کا ہو جائے۔
اگر آپ ناروے آئیں اور اوسلو میں کچھ دن گزاریں تو یہاں کے ویگلاند پارک جائے بنا آپ کی یاترا ادھوری ہے۔
ہر سال ایک ملین سے زائد لوگ اس پارک میں آتے ہیں۔ اس کی کوئی انٹری فیس نہیں اور چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ یہ ناروے کے سیاحوں کی لسٹ میں سب سے اوپر ہے۔ اس پارک میں 200 سے زیادہ مجسمے سجے ہیں جو ایک ہی فنکار کے بنائے ہوئے ہیں۔
یہ مجسمے تانبے، پتھر اور لوہے سے بنے ہوئے ہیں۔ اور ان کے خالق کا نام ہے گستاو ویگلاند۔ جو حقیقت سے قریب ترین فن تراشتا تھا۔ ان مجسموں میں زندگی کا ارتقا، انسانی ترقی، احساسات، جذبات سب ہی کچھ ہے اور آپ کا تجسس جگانے کا سامان بھی۔ یہ پارک ایک حیرت کدہ ہے۔
ویگلاند پارک فروگنر پارک کا حصہ ہے۔ ہر موسم میں سال کے سارے دنوں میں یہ تفریح کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس میں ایک اوپن ایر سوئمنگ پول بھی ہے، ایک کیفے اور ایک رسٹورنٹ بھی۔ اس کے ساتھ ہی ناروے کا سب سے بڑا کھیل کا میدان بھی۔ یہاں گلابوں کا سب سے بڑا کلیکشن ہے ڈیڑھ سو مختلف نوعیت کے چودہ ہزار پودے۔ اور ایک میوزیم بھی جو تصاویر، پینٹنگز۔ فوٹوز اور ماڈلز سے شہر کی آرٹ کی تاریخ بتاتا ہے۔ پارک سارا سال چوبیس گھنٹے عوام کے لیے کھلا رہتا ہے۔ مجسمہ ساز گستاو اس پارک کی نقشے سازی اور سجاوٹ کا خالق تھا۔
جادوئی انگلیوں والا یہ شخص ناروے کا سب سے مشہور اور ہر دلعزیز مجسمہ ساز تھا۔ 1869 میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ترکھان کا بیٹا تھا۔ اسے کم عمری میں ہی اوسلو کے ایک آرٹ کرافٹ اسکول میں بھیج دیا گیا جہاں اس نے اس فن کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی گستاو ویگلاند ہیں جن سے ایڈورڈ مونک حسد کرتا تھا۔
اسے کوپن ہیگن کے اسکول سے وظیفہ ملا اور اس کی صلاحیتیں اور بھی نکھر گیں۔ کئی مقابلوں میں حصہ لیا۔ انعام جیتے۔ اور خود کو منوا لیا۔
1914 میں اس نے پارک کا آئیڈیا تخلیق کیا اور اس کے فن اور تخلیق کی قوت دیکھتے ہوئے یہ بات مان لی گئی۔ گو اسے اپنی بات منوانے میں کئی برس لگے۔ 1931 میں پلان کی منظوری ہوئی۔ ویگلاند نے اوسلو کی انتظامیہ کو اس بات پر بھی راضی کر لیا کہ وہ اس کے لیے ایک گھر اور کام کرنے کے لیے ایک اسٹوڈیو بھی بنا دے اور اس کے عوض وہ اپنا سارا کام شہری حکومت کو دے دے گا۔ اور یہی ہوا۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس پارک میں ایسا کیا ہے۔ اس میں دو سو سے زیادہ مجسمے ہیں جن میں تانبے، آہن اور گارنیٹ پتھر کا استعمال ہوا ہے۔ ہر مجسمہ ایک کہانی بیان کرتا ہے۔ پارک کو پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ داخلی دروازے کے پاس بچوں کا پلے گراؤنڈ ایریا ہے۔ ایک فوارہ ہے اور اس کے ساتھ مونولیتھ پلاٹو مجسمہ ہے جو انسانی ارتقا کو ظاہر کرتا ہے۔ تقریباً اٹھارہ میٹر اونچا ہے۔ یہ ایک واحد گارنیٹ پتھر کو تراش کر تخلیق کیا گیا ہے۔ اس میں 121 لوگ دکھائے گئے ہیں جو کسی روحانی سچائی کی تلاش میں اونچائی چڑھتے آسمان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسے تراشنے میں چودہ سال لگے۔
فوارے کے پاس بیس درختوں کے پتھریلے مجسمے ہیں۔ یہ انسانی زندگی کے مختلف ادوار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا کے مختلف ادوار۔ اخری درخت ایک ڈھانچا ہے جو مرگ کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ بہتر الفاظ میں کہ انسان مرنے کے بعد فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔
اس کے ساتھ تانبے کا بنا مجسمہ ”غصیلا لڑکا“ ہے۔ یہ ایک کمسن بچہ ہے جو دونوں مٹھیاں بھینچ کر ایک ٹانگ پر کھڑا منہ بنا کر اپنے شدید غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ حال ہی میں کسی اور غصے والے نے اس مجسمے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور مجسمے کی ایک ٹانگ کو آری سے کاٹنا چاہا جو ظاہر ہے کہ ممکن نہیں۔ مجسمے کی مرہم پٹی کر کے اسے دوبارہ اپنی جگہ پہنچا دیا گیا۔ ایک بار پہلے بھی کسی نے اس مجسمے پر گرافیتی کی اور ایک بار تو اسے چوری کرنے کی کوشش بھی کی۔
پارک میں ایک چھوٹی سی پلیا ہے اس پر پچاس تانبے کے مجسمے ہیں جس میں فنکار نے جوان مرد اور عورتوں کو مختلف جذبات اور کیفیت میں دکھایا ہے۔
ایک بات جو ان مجسموں میں بہت ہی خاص ہے وہ یہ کہ تمام مجسمے بے لباس ہیں۔ بنیادی تھیم زندگی ہے۔ فنکار چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات وقت کی قید سے آزاد رہیں۔ اور ہر عصر کے لوگ اس سے تعلق پیدا کر سکیں۔ لباس پہنانے سے مجسمے کسی خاص دور سے متعلق ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے ملبوسات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس دور میں تخلیق ہوئے۔ ویگلاند انہیں ٹائم لیس (ماورائے زماں) رکھنا چاہتا تھا۔ آج جب لوگ انہیں دیکھتے ہیں تو پچھتر سال پہلے کی نہیں بلکہ آج ہی کی تخلیق مانتے ہیں۔ جب دیسی لوگ پہلی بار اس پارک کی سیر کو آتے ہیں اور اگر فیملی ساتھ ہو تو جھینپ جاتے ہیں۔ ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے یہ عریاں بت دیکھ کر۔ لیکن فنکار کی مہارت کی داد دیے بنا نہیں رہتے۔
ایڈورڈ مونک اور گستاو ویگلاند ایک ہی دور کی فنکار تھے اور اپنے فن کے ماہر تھے۔ ان میں بہت سی باتیں مشترک تھیں۔ لیکن آپس میں رقابت بہت تھی۔ مونک خود بھی کچھ ایسا ہی کرنا چاہتا تھا کہ ایک بڑی جگہ اس کے نام پر قائم ہو۔ لیکن یہ اعزاز ویگلاند کے حصے میں آیا۔ ایک اور اعزاز جو ویگلاند کا ہے وہ یہ کہ اس نے امن کے نوبل انعام کا تمغہ بھی ڈیزائن کیا۔ ایک مقابلہ کیا گیا جس میں ویگلاند نے بھی حصہ لیا وہ یہ مقابلہ جیت گیا اور اس کا ڈیزائن چن لیا گیا۔
ساری زندگی مجسمہ سازی میں گزار کر 1943 میں اپنے اسٹودیو میں ہی وفات پا گیا۔ اس کی راکھ اب بھی محفوظ رکھی ہوئی ہیں۔
- فیس بک نگری - 28/01/2024
- کچھ جناح کے بارے میں - 25/12/2023
- کی بورڈ جنگجو - 26/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).