حیدر آباد کا مسیحا ڈاکٹر اور مختار کار کا چھاپہ


پچھلے سال مارچ سے کورونا کی لہر کیا شروع ہوئی، منہ پر ماسک چڑھا لیا۔ سارا عرصہ ہاتھ ملانے سے دوری رکھی، ہر ممکن احتیاط کی، جو بس میں تھا، وہ کرنے میں کوتاہی نہ کی۔ اس سب کا یہ فائدہ ہوا کہ ہر سال سردی کی آمد کے ساتھ گلا جکڑا جاتا ہے، زکام ہو جاتا ہے، اس سب سے امن میں رہا۔ ماسک نے اس بیماری سے فائدہ دیا جس سے زندگی بھر چھٹکارا نہ پایا تھا۔

پچھلے ماہ یوں ہوا کہ احتیاط دھری کی دھری رہ گئی، وہ جیسے کہا جاتا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بھلا۔ تو کچھ دوستوں نےکورونا اٹھا کر میرے گلے میں ہار بنا کر پہنایا اور جان سولی پر اٹکا دی۔ بے وقوفی کی انتہا دیکھئے کہ خیال یہ تھا کہ پندرہ دن میں لوٹ پیٹ کر ٹھیک ہو جانا ہے اور پھر راوی چین لکھے گا۔ لیکن نہیں جناب۔ ایسی بری بیماری ہے کہ آپ کے حلق میں گھس کر آپ کی جان کھینچنا شروع کرتی ہے۔ پھیپھڑوں نے جواب دے دیا۔ حالت بگڑتی گئی۔ حیدرآباد کے ہاسپیٹل میں داخل ہونا پڑا جو کورونا کےمریضوں کو علاج فراہم کرنے والا واحد اسپتال تھا۔ حال وہاں یہ تھا کہ ستر کے ستر کمرے بھرے ہوئے اور کوئی جگہ خالی نہیں۔

تین دن آئی سی یو میں گذرے اور جانے کیسے گذرے؟ بس ایک سرنگ تھی جس میں سر جھکائے چلتے جانا تھا۔ اس دوران آئی سی یو میں اسٹاف کا مریضوں سے رویہ دیکھا، ان میں سے بعض ایسے ہمدرد کہ آپ کا ہاتھ اٹھتے ہی مدد کو دوڑے آئیں اور کچھ ایسے کہ آپ کے پاس آنے کے لئے سامنے ہونے کے باوجود دو گھنٹے لے جائیں۔ آئی سی یو کے اندر مریضوں کا برا حال، موت کی کشمکش اور ان کے تیماردار دیکھے جو اپنے ہاتھوں سے بسکٹ چائے میں ڈبوئے مریضوں کو کھلائے جائیں۔ آدھے آدھے گھنٹے میں آئی سی یو کے اندر لڑ کر گھس آئیں اور کرونا کے مریضوں سے گلے مل کر رخصت ہوں۔ بھائی میاں یہ کرنا ہے تو اسپتال کیوں لائے ہو؟ اپنے گھر رکھو اورسارے ارمان پورے کرو۔ لیکن جیسے ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ اگر لاٹری نکلنی ہے تو ایک ارب چانسز میں سے ہر کوئی سمجھے گا کہ میرا انعام نکلے گا اور کرونا، جس کے لگنے کے سو فیصد چانسز ہیں، اس بارے ہر ایک گمان کرتا ہے کہ یہ کسی اور کو لگے گا، مجھے نہیں۔

بس وقت گذار آئے، کورونا نیگیٹو ہوگیا لیکن اس دوران حیدرآباد کے معتبر اور معروف پلمونالاجسٹ ڈاکٹر تھے جو زندگی کی طرف واپس لے آئے۔ اسپتال کے وزٹ پر آتے تو انہیں دیکھ کر حوصلہ ہونے لگتا۔ یوں لگتا واقعتاً مسیحا آن پہنچا ہے۔ اسپتال، ذاتی کلینک پر ہر وقت مصروف، کبھی آئی سی یو میں رات کو گیارہ بجے نظر آتے، کبھی رات دو بجے تو کبھی صبح چھ بجے۔ ہر دم مریضوں کے ساتھ۔ ایسا لگتا جیسے اپنے عزیزوں کے علاج کی فکر میں ہوں۔ اسٹاف کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب چوبیس گھنٹے میں بمشکل چار گھنٹے نیند لینے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر انسانیت پر یقین بحال ہونے لگتا۔

آج انہیں پانچ دن بعد طبیعت دکھانے گیا تو ملول تھے۔ بتانے لگے کل کرونا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے نام پر مختیار کار نے انکے سینٹر پر چھاپہ مارا اور ان کا سینٹر سیل کردیا۔ کہنے لگے مجھے اسٹاف نے پچھلے دروازے سے نکالا ورنہ مختیار کار مجھے گرفتار کرنے پر تلے تھے۔ آج ان کے پاس تھا تو کورونا کے مریض بالخصوص جو زندگی موت کے درمیان تھے، ان کے علاج میں لگے تھے۔ مجھے کہنے لگے میرے پاس مریض آتے ہی کرونا اور پھیپھڑوں کے علاج کے لئے ہیں۔ میں لاک ڈاؤن کی پابندی کر کے سینٹر بند کر کے گھر بیٹھ جاؤں تو انہیں کون دیکھے؟

مجھے بتاؤ کیا ملا ڈاکٹر بن کر؟ اس سے اچھا تھا مختیار کار بن جاتا۔ زیادہ عزت ہوتی۔ کوئی گرفتار کرتا؟

دل کٹ کر رہ گیا۔ اتنے میں پریشان حال لوگ آئے جن کا مریض آکسیجن سلینڈر سے بندھا ایمبولینس میں پڑا تھا، ڈاکٹر صاحب جلدی جلدی اٹھ کر باہر ایمبولینس کو دوڑے۔ میں دل ہار کر واپس گھر کو چل دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments