آخر مفتی پوپلزئی ہی درست نکلے
جو اعلان پشاور کی مسجد قاسم خان کے مفتی پوپلزئی 23 شہادتوں کے حوالے سے اندھیرا پھیلتے ہی کر چکے تھے، اسی نتیجہ تک پہنچنے کے لئے مولانا عبدالخبیر آزاد کی سربراہی میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو چھ گھنٹے کی طویل مشقت سے گزرنا پڑا۔ تب جاکر یہ دریافت ہوسکا کہ عید کا جمعرات کومناناہی صائب ہوگا۔
یہ بحث پاکستان تو کیا عالم اسلام میں بھی کبھی ختم نہیں ہوسکے گی کہ چاند دیکھنے اور اس کے مطابق اسلامی مہینے کے آغاز کا سب سے مناسب طریقہ کیا ہے۔ ماہرین موسمیات سال ہا سال سے مسلمان علما کو یقین دلارہے ہیں کہ ان کے پاس چاند کی ’پیدائش‘ سے لے کر اس کے ’ظہور‘ تک کی تمام تفصیلات سیکنڈوں کے حساب سے موجود ہوتی ہیں اور یہ حساب کسی خاص ماہ کا چاند کے رونما ہونے سے بہت پہلے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے بیشتر مسلمان ملکوں میں رویت ہلال کمیٹی نہیں ہوتی بلکہ سرکاری طور سے اسلامی سال کا کیلنڈر شائع ہوجاتا ہے جس کے مطابق روزے بھی رکھے جاتے ہیں اور عید بھی منائی جاتی ہے۔ ترکی جیسے سیکولر اقدار والے ممالک میں چاند دیکھنے کی رسمی کارروائی بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ اس کے برعکس سعودی عرب میں گو کہ فیصلہ تو سائینس کے مطابق ہی کیا جاتا ہے تاہم قدامت پسند سماجی روایت کا احترام کرتے ہوئے خاص مواقع پر جیسا کہ رمضان یا شوال کا چاند دیکھنے کے حوالے سے خاص طور سے سرکاری اعلان بھی سامنے آجاتا ہے۔
عید کا چاند دیکھنے کا جو جتن البتہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان میں کرتی ہے، اس کی مثال شاید دنیا کے کسی کونے میں اور مسلمانوں کے کسی گروہ میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔ اس کی ساری مثالیں پاکستان میں ہی ملتی ہیں اور چاند دیکھنے اور کسی خاص روز عید کرنے کے حوالے سے سارے تنازعات پاکستانی لوگوں سے ہی وابستہ ہیں۔ بیرون ملک مقیم مسلمانوں میں بھی پاکستانی اس حوالے سے ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کے مختلف گروہ اپنے عقیدہ اور گروہی تعلق کی بنیاد پر ہی عید منانے یا نہ منانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کچھ گروہ سعودی عرب کی پیروی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور بعض گروہ چاند دیکھنا مستحب خیال کرتے ہیں اور اس کے لئے ان ’ذرائع یا شہادتوں‘ پر یقین کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جن کا تعین ان اسلامی مراکز کے امام یا عالم کرتے ہیں۔ متعدد ممالک میں موسمی حالات کی وجہ سے بھی چاند دیکھنا ممکن نہیں ہوتا لیکن پاکستانی علمائے دین محض اس ایک وجہ سے سائینس کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
اس رویہ کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین اور بریلوی مسلک کے ممتاز عالم مفتی منیب الرحمان نے پاکستان میں راسخ کرنے کی پوری کوشش کی ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کوئی سائینس دینی احکامات پر حاوی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے اس سادہ سے اصول کو ماننے سے انکار کیا کہ کہ سائینس دین میں مداخلت کی دعوے دار نہیں اور نہ ہی اس میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اپنی ایجادات اور مہارت کے ذریعے وہ دین دار لوگوں کی سہولت کار ضرور ہوسکتی ہے۔ لیکن مفتی منیب الرحمان کا دعویٰ رہا کہ شرعی حکم کے مطابق جب تک انسانی آنکھ ہلال نہ دیکھے اس وقت تک کسی اسلامی ماہ کے آغاز کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی سخت گیر رویہ کی وجہ سے اس وقت کے وزیر سائینس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے ساتھ ان کا تنازعہ اور بیانات کا تبادلہ بھی بہت مشہور ہؤاتھا۔ فواد چوہدری کا دعویٰ تھا کہ ان کی وزارت کے ماہرین پہلے سے چاند کی عمر اور دیکھے جانے کا وقت بتا سکتے ہیں۔ مولوی حضرات چاند دیکھنے کی مشقت نہ کیا کریں ۔ لیکن مفتی منیب انسانی آنکھ سے چاند دیکھنے کا شرعی حکم سناکر سائینس کو مسترد کرنے کے بعد توپ نما دوربینوں کے ساتھ رویت ہلال کمیٹی کے دیگر ارکان و معاونین کے ساتھ شہر کی کسی بلند عمارت پر چاند تلاش کرنے کی جد و جہد کرتے پائے جاتے۔
فواد چوہدری اب وزیر اطلاعات ہیں اور مفتی منیب الرحمان کو رویت ہلال کمیٹی کے عہدہ سے فارغ کرکے مولانا عبدالخبیر آزاد کو رویت ہلال کمیٹی کا چئیرمین بنایا جاچکا ہے۔ غیر متوقع طور پر پاکستان میں جمعرات کو عید الفطر منانے کا اعلان انہیں کی بابرکت قیادت میں کئی گھنٹے کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس اجلاس کے بارے میں کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی کہے گا کہ ملک بھر سے شہادتیں اکٹھی کرنے اور ان کی تصدیق کرنے میں وقت صرف ہوتا ہے اور کسی کا یہ دعویٰ ہوگا کہ اس اجلاس میں کسی ایسے نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش گئی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی حکومت بھی راضی رہے اور عید کا اہتمام بھی ’شریعت کے عین‘ مطابق ہوجائے۔
بات اگر شرعی احکامات اور ہر علاقے میں چاند دیکھنے تک محدود ہوتی تو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو پشاور کے مفتی پوپلزئی سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ وہ روائیتی طور سے سعودی عرب کے ساتھ عید کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ اس مقصد سے وہ چاند دیکھنے کی شہادتیں بھی فراہم کرتے ہیں اور اپنی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد کرتے ہیں۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اس طریقہ کو قومی یک جہتی کے منافی سمجھتے ہوئے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ انہیں بھی ’مین اسٹریم‘ میں شامل کرلیا جائے اور عید کے حوالے سے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے سے روکا جائے۔ حالانکہ اگر عقیدے کے نام پر دیگر سب شعبوں میں اختلافات کے ساتھ جیا اور آگے بڑھا جاسکتا ہے تو مختلف اوقات میں عید منانے سے قومی یک جہتی کا اصول کیسے متاثر ہوسکتا ہے؟
اس سال بھی مفتی پوپلزئی کو راضی کرنے اور ملک بھر میں ایک ہی روز عید کا اہتمام کرنے کے لئے قبل از وقت کوششوں کا آغاز ہوگیا تھا تاہم بظاہر یہ کاوش بھی بارآور نہیں ہوئی کیوں کہ مفتی پوپلزئی نے سر شام ہی اپنی شہادتیں اکٹھی کرکے جمعرات کو عید کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو اسی نتیجے پہنچنے کے لئے نصف شب تک انتظار کرنا پڑا جب ملک کے بیشتر لوگ تراویح کی نماز ادا کرکے سحری پر بیدار ہونے کے لئے سو چکے تھے۔ اگر شرعی احکامات کے مطابق کسی علاقے میں کوئی اسلامی مہینہ چاند دیکھے بغیر شروع نہیں ہوسکتا تو کسی ملک کی جغرافیائی حدود پر ان کا اطلاق نہیں ہونا چاہئے۔ نزول اسلام کے وقت ممالک کی موجودہ جغرافیائی تقسیم موجود نہیں تھی۔ اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر ہر علاقے میں خود مختاری سے چاند دیکھنے اور عید منانے یا نہ منانے کا اہتمام کرنے کا طریقہ مروج ہو یا پھر سائینس کی رہنمائی میں یہ اختلاف اور مذہبی ڈھکوسلہ ختم کیا جائے تاکہ ہر سال عید کے موقع پر اغیار کو مسلمانوں کی حالت زار پر ہنسنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔
فواد چوہدری جو اس وقت وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز ہیں رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ سے پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ چاند بدھ کو نظر نہیں آسکتا اس لئے عید جمعہ کو ہی ہوگی۔ ایک ٹوئٹ پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’ اس وقت چاند کی عمر پاکستان میں 13 گھنٹے 42 منٹ ہے لہذا چاند کا آج (بدھ) نظر آنا ممکن ہی نہیں۔ فواد چوہدری نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ ’جن حضرات نے عید سعودیہ کے ساتھ منانی ہے، یہ ان کا آپشن ہے لیکن جھوٹ بول کر ماہ مقدس کا اختتام کرنا کہاں کی عقلمندی ہو گی۔ سیدھا کہیں کہ ہمیں عید افغانستان یا سعودیہ کے مطابق منانی ہے‘۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے وزیر اطلاعات کی پیش گوئی کو غلط ثابت کردیا۔ اور جمعرات کو عید منانے کا اعلان کرکے بتا دیا کہ فواد چوہدری کی سائینس غلط ہے۔ آخر مولانا عبدالخبیر آزاد کو یہ بھی تو ثابت کرنا تھا کہ مفتی منیب کی جگہ انہیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا چئیرمین بنا کر وزیرا عظم نے دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا۔
وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے شاید اسی لئے فواد چوہدری کے ٹوئٹ پر بیان دیا تھا کہ ’عید یا رمضان کا فیصلہ کرنا کسی وزیر یا حکومتی شخصیت کے لیے مناسب نہیں ہے۔رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے اہم دینی و شرعی حکم کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں قبل از وقت فیصلہ دینا دینی شعائر کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ حکومت کا متعین کردہ ادارہ اور جید علما ہلال کی رویت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ کسی حکومتی شخصیت یا وزیر کا کام نہیں ہے‘۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اعلان دیر سے ضرور آیا لیکن اس میں پیر نور الحق قادری کے فرمودات کی تائید بھی ہوگئی اور سائینس پر شریعت کی بالادستی قائم کرنے کا اعلان بھی ہوگیا۔ یقیناً ملک کے دین دار وزیر اعظم اس فیصلہ پر بے حد خوش ہوں گے۔
جمعہ کو عید کا تنازعہ پہلی بار سابق فوجی حکمران اور عمران خان کے ممدوح ایوب خان کے دور میں سامنے آیا تھا۔ ساٹھ کے عشرے میں جمعہ کو پڑنے والی ایک عید کو ایوب خان کی حکومت نے ہفتہ پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے صرف سرکاری طور سے منایا جا سکا تھا۔ پاکستانیوں کی اکثریت نے جمعہ کو ہی عید منا کر یہ واضح کیا تھا کہ وہ تو عید مرضی سے منائیں گے خواہ دو خطبے حکمران کے لئے بھاری ہی کیوں نہ پڑیں۔ اب جمعہ کی بجائے جمعرات کو عید الفطر کا اہتمام کرکے ایک بار پھر ملک کے حکمران کو ایک ہی روز میں دو خطبوں سے پیدا ہونے ولی ’مشکل‘ سے بچانے کا اہتمام ہوگیا ہے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اس حد تک ضرور اپنا فریضہ بخوبی ادا کیا ہے لیکن اس اعلان سے ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا ہے کہ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی میں ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں دہائیوں پہلے تھے۔
کوئی نہیں جانتا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو سائینس کے برعکس ہلال عید کی شہادتیں تلاش کرنے کی تگ و دو کیوں کرنا پڑی۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ کوئی بھی حکومت دور اندیشی اور بہتر کارکردگی سے ہی عوام کا اعتماد حاصل کرسکتی ہے۔ پھر ایک روز میں دو خطبوں والے دن بھی مشکل پیدا نہیں کرتے۔ حکومت عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کررہی ہو تو رویت ہلال کمیٹی کے ہتھکنڈے بھی اسے نوشتہ دیوار سے نہیں بچا سکتے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).