”اچانک“ اور ”فی البدیہ“ عید مبارک


مسلمانوں کی تاریخ ابتدا ہی سے ”چاند دیکھنے“ اور اس کے مطابق اپنے تہواروں کو منانے اور مذہبی فرائض کو انجام دینے کے حوالے سے تنازعات اور ابہام کا شکار نظر آتی ہے۔ تیرہویں صدی کے ایک عرب اسکالر محی الدین یحیی النوازی نے ایک مقالہ تحریر کیا جس میں، آٹھویں اور نویں صدی کے نامور اماموں، امام شفیع اور امام احمد بن حنبل، کے چاند دیکھنے کے معاملات پر مختلف زاویہ نگاہ اور اختلاف دکھایا گیا تھا۔ امام شفیع نے ریاضی اور فلکیاتی حساب کو چاند کے تعین کے لئے اہم سمجھا جبکہ امام احمد بن حنبل نے چاند کو دیکھنا لازمی سمجھا، اگرچہ وہ ہر علاقے میں چاند کو دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

سو اس نظریے کی رو سے ایک بار جب مسلم دنیا میں کہیں بھی چاند نظر آ جاتا ہے تو، عقیدے کے ہر پیروکار کو اسے قبول کرنا چاہیے۔ ابن تیمیہ، کے نزدیک ”قمری ماہ کے تعین میں فلکیاتی حساب کا استعمال بالکل غیر ضروری ہے۔“ ایک اور عربی سوانح نگار اور جغرافیہ کے ماہر یاقوت ابن عبد اللہ الحماوی کے خیال سے حکومت کو ایسے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے اور ایسا فیصلہ اختلافات مٹاتا ہے۔ موجودہ تاریخی حوالوں کو اگر دیکھیں تو 1920 کی دہائی میں، قاہرہ میں جامعہ الازہر کے عظیم مفتی، شیخ مصطفیٰ مراغی نے ایک مقالے میں لکھا کہ چاند دیکھنے کی ذاتی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی ہے اگر سائنسی حساب سے یہ ثابت ہو جائے کہ چاند دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ یہ تو اس موضوع پر محض چند حوالے ہیں، شاید تاریخ ایسے کئی اختلافی حوالوں اور آرا سے بھری پڑی ہوگی۔

اگر وطن عزیز میں پہلے رسمی ادارے کی بات کی جائے جس کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی تھی تو وہ ایک مرکزی کمیٹی کا قیام تھا۔ جس کو ایک آرڈینینس کے ذریعے 1948 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کمیٹی ملک کے مختلف اضلاع سے شہادتیں اکٹھی کرتی اور محکمہ موسمیات سے مشاورت کر کے چاند کے نظر آنے کا اعلان کر دیتی۔ 1958 میں، اس کمیٹی کو اس وقت شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جب پشاور میں ملک کے باقی حصوں سے ایک دن قبل عید الفطر منائی گئی۔ اور یوں پاکستان میں چاند دیکھنے پر ہونے والے اختلافات اور تنازعات کی ابتدا ہوئی۔ جو بعد میں سیاسی، مذہبی اور علاقائی اختلاف پر ہمیشہ کے لئے منتج ہو گئی۔ 1960 کی دہائی میں، کراچی (اس وقت کے دارالحکومت ) نے سات سال میں تین بار چاند دیکھنے کے بارے میں مرکزی حکومت کے فیصلوں سے اختلاف کیا۔

17 مارچ 1961 کو چاند دیکھنے کار رائج الوقت سرکاری طریقہ کار ایک شرمندگی سے دو چار ہوا جب، ایوب خان کی فوجی حکومت نے عید الفطر کے بارے میں ایک اعلان کیا اور پھر رات گئے، نہ جانے کس ضعیف الاعتقادی کے تحت، کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک معزز عالم دین اور مرکزی کمیٹی کے چیئرمین، احتشام الحق تھانوی سے مشورہ کیے بغیر، اپنا اعلان تبدیل کر دیا۔ حکومت کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے کی وجہ سے شہر کے رہائشیوں کو پہلے ہی نظر انداز ہونے کا شکوہ تھا۔

حکومت کے اتنی تیزی سے بدلتے اعلانات نے عوام کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا۔ اس گو مگوں کیفیت کے نتیجے میں، کراچی کے بیشتر حصوں نے 18 مارچ کو روزہ رکھا جبکہ ملک کے بیشتر حصوں میں، سوائے پشاور کے، نے اس دن عید منائی۔ جبکہ سعودی عرب کے اس وقت کے اعلان کے بعد ، پشاور نے 17 مارچ کو ایک دن پہلے ہی عید منائی تھی۔ یہ سال ملک عزیز میں تین مختلف تاریخوں پر عید منانے کے اعتبار سے اچھوتا سال تھا۔

کچھ سالوں بعد اسی دور حکومت میں دو بار پھر اسی طرح کے پریشان کن اعلانات ہوئے جس نے لوگوں کے دلوں سے ایک مرکزی ادارے کے اوپر اعتماد کرنے سے بالکل ہی مانع کیے رکھا۔ کچھ مذہبی جماعتوں کے قائدین کو احتجاج کی پاداش میں گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں مولانا مودودی، احتشام الحق تھانوی اور محمد حسین نعیمی شامل تھے۔ ان دنوں لوگوں کے درمیاں یہ بات عام تھی کہ حکمران جمعہ والے دن، عید منانے کو اپنے لئے بھاری یا سخت سمجھتے ہیں۔ اس ضعیف الاعتقادی کی اس کے سوا اور کیا وجہ ہو سکتی تھی کہ وہ اپنے ارادوں سے بنے ہوئے حکمران تھے اور عوام الناس کی ایک کثیر تعداد ان کی پشت پر نہ تھی۔

پھر 1974 میں ان اختلافات اور تنازعات کو قابو میں رکھنے کے لئے بھٹو صاحب نے باقاعدہ طور پر ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس کی بنیاد کے ٹانڈے قومی اسمبلی کے پاس کردہ قانون سے ملا دیے۔ تب سے لے کر آج تک ایسا تو نہیں ہوا کہ لوگ روزے سے ہوں اور عید کا اعلان کر کے روزہ کشائی کا کہا جائے یا پھر عید کا اعلان ہو اور بعد میں روزے کا اعلان ہو جائے۔ مگر پھر بھی وطن عزیز جو ایک اکثریتی مسلم ملک ہے، میں کم سے کم دو عیدیں تو منائی ہی جاتی ہیں۔ کبھی وزیرستان، کبھی پشاور اور کبھی کہیں اور۔ اور تو اور ان کے پاس تو گواہان بھی موجود ہو جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیوں ملک کے کچھ علاقوں جیسے پشاور، وزیرستان، پسنی، گوادر وغیرہ میں لوگ واقعی ہی محض انسانی آنکھ سے چاند دیکھ لیتے ہیں اور وہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے راہنماؤں کو اسلام آباد، کراچی، لاہور جیسے شہروں میں دور بین سے بھی نظر نہیں آتا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماضی میں سرزد ہونے والی حکومتی غلطیاں لوگوں کے ذہنوں میں اس سوچ کو پیوست کر چکی ہیں کہ حکومت وقت تو اپنے مطلب اور اقتدار کی خاطر مذہبی تہواروں کے خاص اور متبرک دنوں کو بھی بدل دیتی ہیں۔ سو ان سے بہتر وہ علما ہیں، جو، بظاہر، رضاکارانہ طور پر اس کار خیر کے لئے لوگوں کی گواہیاں اکٹھی کر کے، فی سبیل اللہ اعلان عید کرتے ہیں۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جب عید الاضحی کے موقع پر پورا ملک کم و بیش ایک ہی دن عید کرتا ہے تو عید الفطر کے موقع پر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ تو شاید اس کا جواب تو یہ ہو کہ اس دوران چونکہ حج کے مناسک ہوتے ہیں اور سعودی عرب کے ذی الحج کے چاند کے اعلانات سے اختلاف لوگوں کے حج میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے تو اس سے انحراف ممکن نہیں۔ جبکہ عید الفطر کے موقع پر ایسی کوئی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوتا۔ تو پھر یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کے اعلان رمضان کے ساتھ روزے بھی رکھ لیں، کم از کم پوری امت مسلمہ اور پاکستان بالخصوص اس طرح ایک ہی دن عید تو کر سکیں گے۔ ورنہ تو جناب ایک روزہ کم رکھنے یا ایک زیادہ رکھنے کی صدائیں ہمیشہ آتی رہیں گی۔

رہی بات سائنس کے استعمال کی تو اس ضمن میں تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر پورے سال کی نمازوں کے اوقات، سورج کی گردش کے حساب لگا کر مرتب کیے جا سکتے ہیں تو سائنس یہ بظاہر مشکل ترین کام کیوں نہیں کر سکتی؟ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ پہلے لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی تو کروا دی جائے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے حکومت کا اس ضمن میں رویت ہلال کمیٹی کے ذریعے، سائنسی اداروں کے اشتراک اور تعاون سے ہونے والا ہر فیصلہ آخری اور حتمی ہوگا اور کسی قسم کی مصلحت سے مبرا ہوگا۔ مزید یہ کہ ریاست کے اندر اگر کوئی اور اس کار خیر کو کرنا چاہ رہا ہے تو اسے اس دھارے میں لا کر ذمہ دار بنا دیا جائے۔ اور ہاں اگر وہ گروہ محض ملک کے خلاف چلنا چاہتا ہے تو یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر حکومت وہی کرے چہ جائیکہ انھیں سبق دے۔

آپ سب کو ”اچانک“ اور ”فی البدیہ“ عید مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments