گرو تیغ بہادر کی 400 ویں سالگرہ: سکھوں کے نویں گرو تیغ بہادر کون تھے اور وہ سکھ گرو کیسے بنے؟

سوپندیپ سنگھ مینی تھامسن - وکیل


رواں سال دنیا بھر میں سکھ برادری اپنے نویں گرو، گرو تیغ بہادر کی 400 ویں سالگرہ منا رہی ہے۔ پنجابی زبان میں اس مقدس دن یعنی گروؤں کی سالگرہ کے دن کو ‘پرکاش پرب’ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

گرو تیغ بہادر نے سنہ 1665 اور 1675 کے درمیان سکھ پنت کی رہنمائی کی۔ سکھ روایت کے مطابق سکھ پنت کی ترقی میں ہر ایک گرو کا مَخصوص یادگار حصہ ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکار اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ گرو ہی ایسی شخصیت ہے جو لوگوں کو انسانیت اور خدا کے درمیان تعلقات استوار کرنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔

گرو تیغ بہادر کون تھے اور وہ سکھ گرو کیسے بنے؟

یکم اپریل سنہ 1621 میں امرتسر ہندوستان میں ایک بچے کا جنم ہوا جس کا نام تیاگ مل رکھا تھا۔ وہ چھٹے سکھ گرو ہرگووند کے دوسرے بیٹے تھے۔ ان کے بچپن کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ اپنی جوانی کے دوران، تیاگ مل نے مذہبی تعلیم حاصل کی جس میں روایتی ہندو صحیفوں کی تعلیم بھی شامل تھی۔

قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ گرو بننے سے پہلے تیاگ مل نے گرو ہرگووند کی سربراہی میں مغلوں اور سکھوں کے مابین جنگیں لڑیں۔ خاص طور پر انھوں نے اپریل سنہ 1635 میں کرتار پور کی مشہور جنگ میں پٹھان رہنما پانڈے خان کے خلاف اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ جب گرو ہرگووند نے دیکھا کہ ان کا بیٹا شمشیر بازی میں ماہر ہے تو انھوں نے اپنے بیٹے کو تیغ بہادر کہنے کا فیصلہ کیا۔

فائل تصویر

گروتیغ بہادر کی موت کے دن کو شہید دیوس کے طور پر منایا جاتا ہے

سکھ مذہبی روایت کے مطابق، جب آٹھویں گرو ہرکرشن بیماری میں مبتلا تھے تو انھوں نے سنہ 1665 میں تیغ بہادر کو سکھ برادری کی رہنُمائی کی ذمہ داری سونپی۔ جب گرو ہر کرشن بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ’بابا بکالا‘ کا نام لیا اور تیغ بہادر کو اپنا جانشین بنایا، جنھیں لوگ ‘بابا بکالا’ کے نام سے جانتے تھے۔

جب یہ الفاظ سنے گئے تھے تو مختلف لوگوں نے گرو کی گدی کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ قِصہ کے مطابق مکھن شاہ نامی ایک تاجر جو طوفان میں پھنس گیا تھا اس نے دُعا کی کہ اگر وہ زندہ بچ گیا تو وہ گرو کو پانچ سو ایک سونے سکے دے گا۔ وہ اس آفت سے بچ گیا۔ بعد میں اس تاجر نے پنجاب کا سَفر کیا تاکہ وہ گرو تیغ بہادرکی زیارت کر سکے۔ جب وہ تاجر باکالا پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ متعدد افراد جھوٹ اور فریب سے گرو کے تخت کے دعوے دار بننے کی کوشش کر رہے تھے۔

اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان تمام دغا بازوں کو دو دو سکے دے کر ان کی ایمانداری کو آزماۓ گا۔ بالآخر سچے گرو تیغ بہادر نے اس سے، اس کے وعدے کے مطابق پانچ سو ایک سکوں کا مطالبہ کیا۔

گرو کو درپیش سیاسی مشکلات؟

گرو کے دور میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مختلف حریفوں نے گرو کے اختیارات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مثال کے طور پر ایک حریف جس کا نام دھرمل تھا، جو ساتویں گرو ہر رائے کے بڑے بھائی تھے، انھوں نے گرو تیغ بہادر کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے گرو نے بکالا کو چھوڑ دیا اور امرتسر چلے گئے، لیکن وہاں بھی ان کے خاندانی حریفوں نے گرو کو سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا اور گرو کو ‘سری ہرمندر صاحب‘ (سکھ مذہب کی سب سے مقدس عبادت گاہ) کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔

اس کے بعد گرو نے نئی بستی قائم کی جس کا نام انھوں نے ‘آنندپور’ رکھا۔ بے اطمینانی کی وجہ سے گرو امن حاصل نہیں کر سکے کیونکہ سیاسی دشمنی جاری تھی۔

انھوں نے شمالی ہندوستان میں سکھ برادری سے میل جو اور ملاقات کے لیے مختلف دورے بھی کیے۔ سنہ 1842 میں غلام محی الدین بوٹے شاہ نے کتاب ’تاریخ پنجاب‘ لکھی اور اس میں گرو تیغ بہادر اور گرو ہرکرشن کے بڑے بھائی رام رائے کے درمیان دشمنی کا ذکر ہے۔

غلام محی الدین نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ گرو تیغ بہادر کے سفر کے دوران سنہ 1665 میں دہلی میں مغل حکومت نے گرو کو گرفتار کر لیا کیوںکہ رام رائے نے گرو پر الزام لگایا کہ وہ ایک جھوٹے اور مکار گرو ہیں۔ گرو کی رہائی کی وجہ بِالکل واضح نہیں تھی لیکن کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ گرو نے اپنی رہائی کے بعد سکھ مذہب کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے مشرقی بنگال سے ڈھاکہ تک کا سفر کیا۔

گرو تیغ بہادر کی مذہبی حکمتِ عملی؟

گرو تیغ بہادر کی مذہبی حِکمت عملی سکھ پنت یا مذہب کے بانی گرو نانک دیو کے عقائد پر مبنی تھی۔ ان کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔ ان کی نظموں کا سب سے اہم موضوع دنیاوی معاملات سے علیحدگی اور خدا کی طرف بلانے کی اخلاقی اہمیت تھا۔ گرو نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی کہ حقیقی اِطمینان و سکون اور رُوحانیت صرف خدا کو یاد کرنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے خدا اور انسانیت کے مابین رابطے پر خصوصی توجہ دی۔ نویں گرو نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کی روشن خیالی اس کے مادیت پرستی سے انکار پر منحصر ہے۔ خاص طور پر، پچھلے سکھوں کے گرووں کی طرح، انھوں نے بھی یہ سکھایا کہ دولت اور مادی خوشی کے جنون کی وجہ سے خدا کی طرف دھیان رکھنا ناممکن ہے۔ انھوں نے سمجھایا کہ زندگی کی حیثیت عارضی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سچی بندگی کے لیے مراقبہ اور نیک اعمال کی ضرورت ہے۔ روح کی آزادی حاصل کرنے کے لیے یہی سچا طریقہ ہے۔

متعدد مذہبی مفکرین نے وضاحت کی کہ گُرو تیغ بہادر کے کلام میں زندگی اور موت کی حقیقت کا یہ رُخ مغل حکمرانوں کے دَور میں اسیری کے دوران نظمیں لکھنے کے وجہ سے ہے۔ انھوں نے اسیری کے دوران سکھ برادری پر ظلم و جبر کے خلاف اپنے کلام کے ذریعے آواز اٹھائی۔

گرو تیغ بہادر کو سزائے موت کیوں ملی؟

گرو تیغ بہادر کی شہادت 11 نومبر 1675 میں ہوئی۔ سکھ برادری کی تاریخ میں اس واقعہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے قَتل کی مذہبی اور سیاسی وجوہات بھی تھیں۔ حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے، فارسی اور ہندوستانی تاریخی دستاویزات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ان میں گرو کی سزائےِ موت کے بارے میں مختلف وضاحتیں ہیں۔

فارسی کے تمام دستاویزات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سنہ 1660 کی دہائی کے آخر میں، گرو پنجاب میں ایک طاقتور اور بااثر رہنما بن گئے تھے۔ اس دور کا ابتدائی تاریخی بیان کتاب ’سیر المتاخرین‘ میں ملتا ہے، جسے غلام حسین طباطبائی نے 1782 میں لکھا تھا۔

اس میں مورخ نے اُن وجوہات کا ذکر کیا جو آگے جا کر گرو کی شہادت کا باعث بنیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ گرو تیغ بہادر نے ہزاروں پیروکار حاصل کیے تھے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ گرو نے ایک فقیر کے ساتھ شراکت قائم کی تھی، جن کا نام حافظ آدم تھا۔

مصنف کا کہنا ہے کہ حافظ آدم اور گرو تیغ بہادر اپنے گھومنے پھرنے کے دوران ہندو اور مسلمانوں سے زبردستی پیسہ چھین لیتے تھے۔ تاہم تاریخ دان ستیش چندرا کے مطابق یہ الزامات دو وجاہت کی بنا پرغلط ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ حافظ آدم کو شاہ جہاں نے سنہ 1642 میں جلاوطن کر دیا تھا اور ان کی موت سنہ 1643 میں مکہ میں ہوئی تھی۔

دوسرا چوری کا الزام بھی جھُوٹا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گرو تیغ بہادر کی وفات کے ایک سو چھ سال بعد سنہ 1781 میں، مغل وزیر اعظم نجف خان نے سکھوں کے سَیاسی رہنُماوں کو مختلف پنجابی علاقے سے ‘راکھی’ یعنی حفاظت کے محصول حاصل کرنے کی اجازت دی تھی۔

تاریخ دان ہری رام گپتا نے ایک دلیل پیش کی کہ ہو سکتا ہے کہ اس مختلف معاملہ کی وجہ سے غلام حسین طباطبائی کو غلط فہمی ہو گئی تھی۔

لیکن مورخ ستیش چندر کے مطابق یہ سرکاری وضاحت بالکل ناقابل اعتبار ہے کیونکہ سرکاری وضاحت حکومت کی صفائی پیش کرتی تھی۔ ممکنہ طور پر غلام حسین طباطبائی نے گرو کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے گرو پر لُوٹ مار کا جھوٹا الزام گھڑا تھا۔

حالانکہ ایک پہلو سے غلام حسین طباطبائی نے صحیح معلومات پیش کیں۔ کتاب ‘عمدہ التواریخ’ جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے درباری مورخ سوہن لال سوری نے سنہ 1885 میں لکھا تھا اس میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ گرو نے پنجاب میں سَیاسی جھگڑا پیدا کیا تھا۔

سوہن لال سوری کے مطابق گرو نے مغل حکومت کے خلاف ہزاروں فوجی اور گھڑ سوار اکٹھے کیے تھے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں نے گرو سے مغل زمینداروں اور امیروں کے خلاف تحفظ کی درخواست کی تھی۔ اس بغاوت کو روکنے کے لیے گرو پر قابو پانا ضروری تھا اوراسی بغاوت کی وجہ سے مغل سلطنت کے اقتدار کے لیے گرو ایک سیاسی خطرہ بن گئے تھے۔

تاہم ان لوگوں نے بادشاہ اورنگزیب کی مذہبی ظلم و ستم کے عمل کے خلاف گرو کی مدد کی التجا بھی کی تھی۔ مغل مُورخ خفی خان کی سنہ 1722 میں تحریر کردہ کتاب ‘منتخب الباب’ کے مطابق جب اورنگزیب کو پتہ چلا کہ سکھ گرودوارے سکھ برادری سے مالی امداد حاصل کر رہے ہیں تو بادشاہ نے گردوارے کو گرانے اور سکھ گروؤں کو وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا ۔ لہذا گرو نے عام ہندوؤں اور سکھوں کے مابین مزاحمت کی مہم شروع کی تھی۔ جب حکومت نے گرو کی حراست کا فرمان جاری کیا تو گرو آنندپور سے فرار ہو گئے، بالآخر جولائی سنہ 1675 میں انھیں آگرہ میں گرفتار کر لیا گیا اور انھیں دہلی لایا گیا۔

بہت ساری دیگر فارسی دستاویزات بھی ان واقعات کی گواہی دیتی ہیں کہ گرو تیغ بہادر ایک کرشماتی رہنُما تھے جن کی شہادت ہوئی کیوں کہ انھوں نے اورنگزیب کے راج میں ہار نہیں مانی۔

تیغ بہادر

گرو کے قتل کے بارے میں تاریخی دستاویزات کیا کہتے ہیں؟

سکھ اور ہندو تاریخی دستاویزات میں ایک اور وضاحت پیش کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ گرو نے ہندوؤں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ حقیقت تو یہ تھی کے سنہ 1671-1675 کے دوران کشمیر کے صوبیدار افتخار خان نے کشمیر میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی مہم چلائی تھی۔

سترہویں صدی میں ایک ہندو مورخ تھا جو پرگنہ جند، پنجاب سے آتا تھا۔ ان کا نام بھٹ وہی تلونڈا تھا۔ بھٹ موروثی شاعروں میں تھے جو عصری معلومات کے بارے میں لکھتے تھے۔ بھٹ وہی تلونڈا کے مطابق کشمیری پنڈتوں کا ایک وفد گرو کے پاس آنندپور آیا تھا۔ اورانھوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف گرو سے مدد کی درخواست کی۔

سکھ روایت کے مطابق وفد کے رہنما کرپا رام کے سامنے گرو تیغ بہادر نے فرمایا کہ اگر اورنگزیب ان کو اسلام قبول کرنے پر راضی کر سکا تو سارے کشمیری پنڈت بھی اسلام قبول کریں گے۔ گرو کا اعلان سن کر اورنگزیب نے گرو کو طلب کیا اور جب گرو نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تو اس وجہ سے گرو کو جسمانی تکلیف پہنچائی گئی۔

18ویں صدی کی تحریر کردہ سکھ مورخ بھائی سروپ سنگھ کی کتاب ‘گرو کیان سکھیاں‘ میں رقم ہے کہ اورنگزیب کے قاضی نے اصرار کیا کہ اگر گرو کچھ کرامات دکھائیں تو ہی وہ گرو کی جان بخش سکتا ہے۔ ‘دلیری سے، گرو نے جواب دیا کہ وہ اپنے گلے پر دھاگہ باندھ دے گا جس سے ایک کاغذ جُڑا ہو گا اور یہ دھاگہ جلاد کی تلوار سے اس کے سر کی حفاظت کرے گا۔

پھر پُرامن طور پر گرو جی نے اپنے مقدر کو منظور کر لیا اور انھوں نے ‘جپجی صاحب’ کا ورد شروع کیا جو گرو نانک کی تحریر کردہ پہلی مناجات ہے۔ جب گرو کا سر قلم کیا گیا تھا تو وہ کاغذ بھی کٹ کر گر گیا جس پر یہ لکھا گیا تھا: ‘آپ نے میرا سر تو لے لیا لیکن میرا راز نہیں۔’ گرو کا راز ان کا خدا پر اعتماد تھا۔‘

کتاب ‘وچتر ناٹک’ کے مطابق، جسے گرو تیغ بہادر کے بیٹے گرو گووند سنگھ نے سنہ 1680 کی دہائی میں لکھا تھا، اس واقعے کا علامتی معنی یہ ہے کہ گرو نے معصومین کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی قربانی دی۔

اس نیک عمل کی وجہ سے گرو گووند سنگھ کے درباری شاعر سیناپتی نے گرو کو ’انسانیت کی چادر‘ کا لقب دیا۔ اس بنیاد پر آج کے دور میں گرو کو ’ہند کی چادر‘ کا اعزاز بھی حاصل ہے کیونکہ انھوں نے ہندوستان میں مذہبی آزادی کا تحفظ کیا۔

سکھ تاریخی دستاویزات یہ باتیں بھی کہی گئی ہیں کہ گرو کے ساتھ اُن کے مريدوں بھائی دیال داس، بھائی متی داس اور بھائی ستی داس کی شہادت بھی ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے گرو پر اپنے اعتماد کو برقرار رکھا اور اپنی جان کی قربانی پیش کی۔

گرو کی موت کے بعد کیا ہوا؟

گرو کی موت کے بعد مغل حکومت نے ان کی لاش کو نذر آتش کیے جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ تاہم گرو کے تین نڈر پیروکاروں نے ان کے سر اور جسم کو وہاں سے نکال لیا اور اس طرح ان کے سر اور جسم کی رسومات آنندپور میں ادا کی گئیں اور رکاب گنج میں ان کی چتا جلائی گئی۔ خیال رہے کہ گوردوارہ سیس گنج صاحب دہلی میں گرو کی شہادت کے مقام پر بنایا گیا ہے۔

گرو تیغ بہادر کی میراث؟

بہت سے لوگوں کے لیے گرو تیغ بہادر کی زندگی سکھ مذہب کے لیے ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ ان کی پیدائش کے 400 سال بعد گرو کی سنجیدہ نظمیں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ دان پشورا سنگھ کے مطابق گرو تیغ بہادر کی قربانی کی وجہ سے انسانی حقوق کا تحفظ سکھ شناخت کا ایک کلیدی پہلو بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp