افغانستان اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں: خلیل زاد


افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد۔ فوٹو رائٹرز
اسلام آباد — امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ مل کر پاکستان اور افغانستان کے مابین سیکیورٹی تعاون کو بہتر کرنے کے لیے کام کررہے ہیں، جو امریکہ کی امن کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ ان کےبقول اس کے نتیجے میں، اسلام آباد اور کابل کے دوران سیکیورٹی معاہدے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

امریکہ کے نمانئدہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے یہ بات حال ہی میں جرمن جریدے ’مرر‘ یا ‘ڈئر اشپیگل’ سے ایک انٹرویو کے دوران ایک ایسے وقت کی ہے جب حال ہی میں پاکستان فوج کےسربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے برطانیہ کے فوجی سربراہ جنرل نکولس پیٹرک کارٹر کے ہمراہ کابل میں افغان قیادت سے ملاقات کی تھیں۔ یہ دورہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی برطانوی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

خلیل زاد نے کہا کہ اگر افغان امن کوششیں کامیاب نہ ہوئیں اور پاکستا ن اور افغانستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوا تو اس سے پاکستان نقصان میں رہے گا خلیل زاد کے مطابق، اس کا الزام پاکستان پر آئے گا، کیونکہ طالبان کی زیادہ تر قیادت ان کے بقول مبینہ طور پر پاکستان میں مقیم ہے۔

پاکستان کا موقف رہا ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا آرہا ہے، لیکن امن عمل کے سیاسی تصفیے کی ذمہ داری خود افغان فریقوں پر عائد ہوتی ہے۔

امریکی سفارت کار نے کہا کہ امن کے ساتھ پاکستان اور افغانستان، دونوں کا مفاد وابستہ ہے، جو اقتصادی رابطوں اور تجارت و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ان کےبقول، امن عمل کامیاب نہ ہوا، تو اہم مواقع ضائع ہوسکتے ہیں ۔

امریکی سفارت کار خلیل زاد نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان سے جائز مفاد وابستہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جا سکے۔ ان کے بقول افغانوں کو پاکستان کے مفاد کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طر ح ان کےبقول، افغانستان کے پاکستان کے ساتھ مفادات وابستہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔

دوسری جانب، عیدالفطر کے موقع پر طالبان او ر افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان تین روزہ عارضی جنگ بندی پر عمل جاری ہے، لیکن اس سے قبل، طالبان نے اطلاعات کے مطابق بغلان، ارزگان، ہلمند اور قندھار صوبے میں 140 سے زائد حملے کئے ہیں، جبکہ افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا ہے کہ چھ صوبوں میں طالبان کے خلاف لڑائی میں افغان سکیورٹی فورسز نے چونسٹھ طالبان جنگجووں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اگرچہ بعض مبصرین عارضی جنگ بندی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ افغان فریقوں کےدرمیان مستقل جنگ بندی ضروری ہے تاکہ تشدد کا خاتمہ ہو سکے۔

‘امن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے’

امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کا جرمن جریدے سے اپنے انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں تشدد کی سطح بہت بلند ہے اور لڑائی بھی جاری ہے۔ اسی لیے ان کے بقول، امن مذاکرات کا جلد از جلد شروع ہونا ضروری ہے۔

اگرچہ خلیل زاد کےبقول، طالبان یہ کہتے ہیں کہ افغان تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، اور واحد آپشن ایک سیاسی حل ہی ہے، لیکن خلیل زاد کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو حقیقت پسندی سے ایک مشترکہ حل تلاش کرنا ہوگا۔ لیکن اگر امن قائم نہ ہوا تو طالبان کو فتح تو حاصل نہیں ہوگی، لیکن جنگ طویل ہو سکتی ہے۔

خلیل زاد نے کہا کہ افغان عوام امن کے خواہاں ہیں، ان کےبقول امن کا کوئی متبادل نہیں ہے، متبادل صرف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے، جو کوئی بھی نہیں چاہتا، نہ افغان عوام ،نہ امریکہ اور نہ ہی اس کے نیٹو اور یورپی شراکت دار۔

یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کےدرمیان گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات تعطل کا شکار ہے، دوسری جانب، عیدالفطر کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان ترکی میں مجوزہ کانفرنس کی تجویز بھی موجود ہے۔ خلیل زاد کے مطابق، یہ کانفرنس اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا طالبان افغان تنازع کا حل مذکرات کے ذریعے چاہتے ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب خلیل زاد کا کہنا ہے، افغان حکومت طالبان کے دیگر قیدیوں کی رہائی معاملے پر بات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن ان کے بقول، کابل کو بڑھتے ہوئے تشدد پر بھی تشویش ہے۔

اگرچہ طالبان نے ابھی تک ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے اور خلیل زاد کے مطابق طالبان اپنے مزید قیدی کی رہائی اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے اپنے بعض رہنماؤں کے نام کا اخراج چاہتے ہیں۔

‘امریکہ افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا’

افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 سالوں کے دوران افغانستان کی معیشت، انفرا سٹرکچر اور افغانستان کے دنیا سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ ان کے بقول، اب افغانستان میں سیکیورٹی اداروں سمیت کئی ادارے بن چکے ہیں، جو پہلے موجود نہیں تھے۔ خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کو اس افغانستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یادر ہے کہ امریکہ نے 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کا اعلان کر رکھا ہے لیکن دوسری جانب افغان تنازع کا سیاسی تصفیہ نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

لیکن امریکی سفارت کار خلیل زاد کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ خلیل زاد کے مطابق، انخلا کا عمل مکمل ہونے کےبعد، امریکہ اور افغانستان کی شراکت داری کا نیا باب شروع ہوگا۔

امریکہ کی امداد حاصل کرنے والے ملکوں میں افغانستان اولین ہوگا، جس میں افغان سیکورٹی فورسز کی مدد کے ساتھ ترقیاتی اور انسانی بہبود کے لیے امداد بھی شامل ہوگی۔ خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ کے اتحادی بھی یہی بات کررہے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments