اعلان لاتعلقی


مخدوم جاوید ہاشمی کے متعلق ان کی جماعت کے ورکرز نعرے لگاتے پھرتے ہیں کہ وہ ایک بہادر آدمی ہیں۔ اسی بہادر آدمی نے ایک دن اپنے قائد کے بیان کے تسلسل میں کچھ زیادہ ہی سخت بیان داغ دیا۔ ایک بار تو اس بیان سے ان کی اپنی جماعت میں ہی تھرتھرلی مچ گئی۔ شاید ان کی جماعت گوجرانوالہ کے جلسہ میں اپنے قائد کی تقریر کی طرح اس بیان کی بھی توقع نہیں کر رہی تھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ نون لیگ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ ہوا جس میں اعلان لاتعلقی کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاوید ہاشمی کا قومی ادارے کے بارے میں بیان ان کی ذاتی رائے ہے وہ پارٹی پالیسی کی ترجمانی نہیں کرتے۔ اور یوں وہ انقلاب جس کی نوید سنائی جا رہی تھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ مگر جاوید ہاشمی نے اس کے بعد بھی ایک اور بیان دیا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک بہادر آدمی تو ہے مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہے

ابھی ان بیانات کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ نون لیگ کے رہنما و سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے ایک نیوز چینل کے پروگرام میں کہا کہ ہماری کوئی لڑائی نہیں تھی اور ہماری راولپنڈی سے صلح ہو گئی ہے۔ محمد زبیر نے بیان تو دے دیا مگر یہ نہیں سوچا کہ ان شاہین بچوں کا کیا بنے گا جن کو رات دن انقلاب کا سبق پڑھایا تھا۔ اس بیان سے فی الوقت پارٹی نے اعلان لاتعلقی نہیں کیا لہذا جب تک باقاعدہ تردید نہیں ہوتی اس وقت تک اس بیان کو ٹھیک سمجھا جائے۔ شاید محمد زبیر کے بیان کا ردعمل تھا کہ حکومت نے شہباز کو پرواز سے روک کر پیغام دیا کہ ہنوز دلی دوراست۔

بلکہ یہی نہیں حکومت نے کابینہ کی منظوری سے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال کر واضح پیغام دے دیا کہ کپتان اب شریف خاندان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے حق میں نہیں ہے۔ اور لگے ہاتھوں حدیبیہ پیپر ملز کا کیس بھی دوبارہ کھولنے کا اعلان کر دیا۔ شاید اسی لیے نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے عید نماز کے بعد لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عوام کو پیغام دیا کہ وہ اس حکومت سے جان چھڑانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

میاں نواز شریف کا ایک سخت موقف سامنے آیا تو سوال تو بنتا ہے کہ پھر جاوید ہاشمی کے بیان سے اعلان لاتعلقی کیوں کیا گیا ہے۔ کہیں نون لیگ پاکستان اور نون لیگ لندن الگ الگ سیاسی راستے پر تو نہیں چل رہیں۔ اس سب کے باوجود قائد کا پیغام سر آنکھوں پر مگر عوام اس مخمصے کا شکار ہے کہ قائد کے بغیر وہ انقلاب کیسے لائیں یہ بے چارے عوام تو لاہور شہر سے ائرپورٹ تک نہیں جا سکے تھے۔

رہی بات میاں شہباز شریف کی تو ماننا پڑے گا کہ ان کی رہائی سے حکومت فرسٹریشن کا شکار نظر آ رہی ہے صرف حکومت کیوں بلکہ نون لیگ کا وہ دھڑا بھی جو معاملات کو مریم نواز کے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس پر میاں شہباز شریف کی خاموشی ظلم ڈھا رہی ہے کہ پتہ نہیں کیا بولیں اور کب بولیں۔ ایسے میں انہوں نے ایک سرپرائز تو اپنے مخالفیں کو دیا جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو عید مبارک کا فون کیا۔ اس فون کال سے میاں شہباز شریف کے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل سے متعلق اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

خوش گمان تو اس کو پی ڈی ایم کے لیے اچھا شگون قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ پی ڈی ایم نے سندھ کے حلقہ بدین میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مخالف جی ڈی اے کے امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عید کے بعد پی ڈی ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ویسے پی ڈی ایم سے اب کوئی امید باقی نہیں رہی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ حالیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ پر پی ڈی ایم میں شامل مذہبی جماعتیں اسرائیل کے خلاف پاور شو کریں اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں۔ وگرنہ یہ بھی المیہ ہی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی اکثریت سوائے باہمی رابطوں کے کچھ نہیں کر سکی نا ہی او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا اور نا ہی مسلم دنیا کی طرف سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوسکا۔ بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ افریقہ اور ایشیا میں پھیلے درجنوں مسلمان ممالک نے اسرائیل کے ظلم کے باوجود اس سے اعلان لاتعلقی نہیں کیا۔ سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ موجودہ حکمرانوں نے امت کے تصور کو ہی ختم کر دیا ہے۔ ایک بار پھر رفع یدین کے حکم کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ حکمرانوں کی بغلوں سے ذاتی منفعت کے بت گریں اور وہ امہ کے اجتماعی مفاد پر سوچ سکیں۔

جہاں تک سوچنے کی بات ہے تو موجودہ حکومت بھی غریبوں سے متعلق بہت کچھ سوچ رہی ہے اور اسی لیے برادر اسلامی ملک سے چاول کی امداد لے آئی ہے مگر جس انداز میں اس کو پیش کیا گیا اس سے حکومت کو خفت اٹھانا پڑی ابھی یہ خفت کم نہیں ہوئی تھی کہ عیدالفطر کے حوالے سے رویت ہلال کمیٹی کے ایک چاند کو دیکھنے کے فیصلے نے حکومتی کارکردگی پر چار چاند لگا دیے۔ گویا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرنا اور جگ ہنسائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے مطابق چاند کی عمر 13 گھنٹے سے کچھ زائد تھی اور ایسے میں چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ تو وہ کون لوگ تھے جن کو چاند نظر آ گیا اور ان کی شہادتیں قبول کرلی گئیں۔ یا پھر جمعہ کے دو خطبوں کا بوجھ زیادہ تھا جو کھلاڑیوں کا کھلاڑی کپتان نہیں اٹھا سکا۔ کچھ تو ہے جو غلط ہوا ہے اور وہ کیا ہے اس کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہوگا۔ جو ہونا تھا ہو گیا اب حکومت فیصلہ کر لے کہ آئندہ رویت ہلال کا معاملہ کس طرح نمٹایا جائے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت ایک واضح پالیسی بنائے اور اس پر سختی سے کاربند ہو جائے تاکہ ہر سال عید پر چاند کی رویت کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات کا سدباب کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments