قفس میں عید


ہم نے پچھلی عید پہ اپنے لان میں سارا دن اکیلے بیٹھے یہ سوچتے ہوئے گزارا تھا کہ یہ آسیب جو شہر بھر کو گھیرے ہے، سڑکوں اور گلیوں پہ جو پہرہ ہے، دور دور تک کسی متنفس کا وجود نہیں، یہ تنہائی اور زندگی کا انوکھا پن ہمیں دو ہزار بیس کی یاد دلائے گا۔ شقی القلب اور ظالم دو ہزار بیس جو ہماری زندگیوں کے قیمتی لمحات ہڑپ کر گیا!

پردیس میں رہنے والوں کے لئے عید کا دن ویسے ہی ایک عذاب بن کر گزرتا ہے۔ اپنوں سے دوری، پردیس کی تنہائی، بچھڑ جانے والوں کا غم، اکیلے پن کا درد! ایک ایسا درد جس کا درماں کوئی نہیں، کچھ نہیں!

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب گزری ہوئی عیدیں، عمر عزیز کا وہ حصہ، وہ محبتیں، وہ قہقہے، وہ سرخوشی کا احساس، وہ قربتیں، وہ ہیجان، وہ محفلیں دل میں روگ سی بن گئی ہیں، ایک ایسا گھاؤ جو کبھی نہیں بھرتا۔
اور جب پردیس کی ان سب کلفتوں کے ساتھ کورونا کی آزمائش بھی شامل ہو جائے تو!

ایک ایسی آزمائش جس نے دو ہزار بیس میں ہم سے زندگی کا خراج لینا شروع کیا اور کائنات کو تہہ و بالا کرنے والے ننھے سے وائرس نے انسان کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔ انسان دیواروں کے بیچ یوں مقید ہوا اور ہر سانس ایسی بھاری پڑی کہ فلک کی رفعتوں پہ کمندیں ڈالتا انسان منہ کے بل آن پڑا۔

لیکن دو ہزار بیس نے رخصت ہوتے سمے دو ہزار اکیس کو بھی اپنے نقش پا پہ چلنا سکھا دیا کہ ابھی وقت کا پیمانہ انسان کی بے بسی دیکھ دیکھ کے بھرا نہیں تھا۔ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وقت کے پہیے کے ساتھ اور شب و روز کے پھیر میں عید آئے گی تو ضرور مگر زمانے پہ چھایا آسیب ابھی چھٹا نہیں ہو گا۔ نہ محفلیں آباد ہوئی ہوں گی، نہ قربتیں بانٹنے کے لئے کوئی ہو گا، سڑکوں اور بازاروں پہ پھر سے ہو کا عالم ہو گا۔ انسان اس عید پہ بھی محصور ہی ہو گا اور اپنوں کے بیچ وہی دوریاں سب کو رلائیں گی!

کبھی کبھی یونہی خیال آتا ہے کہ سب کچھ ہی تو ہے ابھی زندگی میں۔ گھر، آسمان، دھوپ لٹاتا سورج، فرحت بخش ہوا، پودے، برگد اور اس کی لمبی جٹائیں اور ان میں چھپے پرندے۔ لیکن بہت کچھ اور بھی تو ہے جو آنکھ سے تو اوجھل ہے لیکن سائے کی طرح دانت نکوسے انسان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ نظر چوکی نہیں اور شب خون پڑا نہیں۔

بے بسی، بے اختیاری، پابندیاں، دیس دیس کے بیچ میں کھنچی دیواریں، کرونا کے جلو میں چلتی موت، شکست، آہ و زاری، آنسو اور تعزیتی پیغامات!

ہم ڈاکٹرز کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔ تہوار ہو یا مرگ، قومی دن ہو یا خوشی کا موقع، زندگی ہسپتالوں میں گزر جاتی ہے۔ زندگی اور موت کے کھیل میں ایک ایسے ریفری کا کر دار ادا کرتے ہوئے جو ہمیشہ موت کو شکست دینا چاہتا ہے لیکن کبھی کبھی زندگی بے اختیار روٹھ کر ہاتھ سے دیکھتے ہی دیکھتے پھسل جاتی ہے۔ زندگی اور موت کا یہ کھیل کھیلنے والے نہ کبھی جی بھر کے رو سکتے ہیں اور نہ ہی دل کھول کے ہنس ہنس سکتے ہیں۔

بچے کو جنم دیتی عورت جب آخری سانس لیتی ہے تو آنکھ کی پتلیوں میں رخصت ہونے کا منظر ٹھہر جاتا ہے۔ جس میں اس جیسی ایک اور عورت موت سے جنگ کرتے شکست کھاتی ہے اور کہانی رقم ہو جاتی ہے۔

شاید ہماری موت سے ہاتھا پائی کی کہانی آپ لوگوں تک کبھی بھی یوں نہ پہنچ پاتی اگر عالمی وبا میں ڈاکٹر صف اول کے سپاہی نہ بن جاتے۔ چلیے یہ تو ہوا کہ اس سے یہ تو سب جان گئے کہ ہر جنگ کا محاذ اور سپاہی اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ یقین کیجیے کورونا سے دوبدو جنگ میں کوئی ڈاکٹر یا نرس پیچھے نہیں ہٹی، جانتے ہوئے بھی کہ موت تاک میں بیٹھی ہے۔

چلیے چھوڑیے ہم نے آپ کو بھی اداس کر دیا۔ لیکن کیا کیجیے کہ امید نہیں تھی کہ پچھلے برس کی طرح یہ عید بھی اسی اضطراب، اسی مایوسی اور اسی تنہائی میں کٹ جائے گی۔ بلکہ اس برس ان بے شمار بچھڑ جانے والوں کی یادیں ہوں گی جو وائرس کی بھینٹ چڑھ گئے۔

ہم ایک ایسی عالمی وبا کا حصہ بنے ہیں جو شاید صدیوں بعد کائنات کو زیر و زبر کرنے آتی ہے اور بے شمار کہانیاں چھوڑ جاتی ہے۔ یہ کہانیاں اب تاریخ کا حصہ بنیں گی اور آنے والی نسلیں ان کہانیوں کے کرداروں کی کھوج میں شاید کبھی ہم تک یا آپ تک پہنچ جائیں اگر ہم بچ نکلے تو!
قفس میں منائی جانے والی عید مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments