دو دوستوں کی کہانی میری زبانی


میرا ایک دوست پچھلے 11 سال سے بڑا سرکاری افسر ہے، اس کے محکمے کے پاس بے شمار گاڑیاں ہیں لیکن وہ ”بے کار“ ہے، نقد گاڑی خریدنے کے پیسے نہیں سو ہم دن رات اس کے لئے بینک سے گاڑی حاصل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔

میرا ایک اور سرکاری افسر دوست ہے جو دو سال پہلے ہی ٹریننگ مکمل کر کے فیلڈ میں آیا ہے اس کے پاس چمچماتی سرکاری کرولا گاڑی ہے

میرا پہلا دوست دفتر سے ملی ہوئی گاڑی ایک مخصوص علاقے سے باہر نہیں نکال سکتا، جبکہ میرا دوسرا دوست ہر جگہ سرکاری گڈی پر پہنچتا ہے۔

میرے پہلے دوست کے لئے لازم ہے کہ وہ ماتحتوں سے پہلے دفتر پہنچے جبکہ دوسرے دوست کے ماتحت انتظار کرتے ہیں کب لاٹ صاب درشن کروا دیں۔

میرے پہلے دوست کو ہمہ وقت ترقی کی فکر رہتی ہے کیونکہ امیدوار زیادہ ہیں اور اوپر سیٹیں کم ہیں جبکہ دوسرا دوست جانتا ہے کہ ترقی تو ہو ہی جانی ہے۔

میرے پہلے دوست کو دفتر میں پی جانے والی چائے کے پیسے بھی جیب سے دینے پڑتے ہیں، جبکہ دوسرے دوست کو چائے پلانے والے بہت۔

میرے پہلے دوست کو پیسوں کی ضرورت ہو تو کمیٹی ڈال لیتا ہے اور دوسرے دوست کو پیسوں کی ضرورت ہو تو ”کمیٹی“ کو بتا دیتا ہے۔

میرا پہلا دوست 11 سال سروس کے بعد بھی 10 مرلہ فلیٹ میں رہائش پذیر ہے جبکہ دوسرا دوست 20 کنال کے بنگلے میں بھی نا خوش ہے۔

میرے پہلے دوست کو اتوار کو بھی شہر چھوڑنے سے پہلے اعلی افسران سے پیشگی اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے جبکہ دوسرا دوست اکثر ہی دوسرے شہر میں پایا جاتا ہے۔

میرا پہلا دوست پوسٹنگ کے نام پر آدھے پاکستان میں خواری کاٹ چکا ہے، جبکہ دوسرے کو امید ہے کہ اگر اچھا ریفرنس مل جائے تو آدھی سروس لاہور میں ہی کٹ جائے گی

میرے پہلے دوست کو احتساب کا سب سے زیادہ خطرہ ہے اس کے اپنے محکمہ سے ہے جبکہ دوسرا دوست جانتا ہے کچھ بھی کر لیں سب اپنے بھائی ہیں

میرا پہلا دوست کبھی کوئی ہڑتال نہیں کر سکتا نہ میڈیا پر اپنا رونا رو سکتا ہے جبکہ دوسرا دوست جب چاہے ساتھیوں کے ساتھ قلم چھوڑ تحریک چلا سکتا ہے۔

میرا پہلا دوست کوئی بھی سوشل میڈیا استعمال نہیں کر سکتا جبکہ دوسرا دوست انسٹا گرام پر عہدے کا فائدہ اٹھا کر 2 لاکھ فالورز بنا چکا ہے جہاں وہ دن رات اپنی سلفیاں لگا کر داد وصول کرتا ہے

قارئین میرا پہلا دوست فوج میں میجر ہے جبکہ دوسرا دوست حال ہی میں سول سروس میں آیا ہے، اگر سچ پوچھیں تو قاعدے قانون اور ایم پی کی ننگی تلوار کے ساتھ جکڑے فوجی افسران بیچارے بد کم اور بدنام زیادہ ہیں جبکہ دوسری طرف سول سروس کے نام پر سہولیات اور مراعات لینے والی بیوروکریسی وہ دیمک ہے جو 70 سال سے ملک کو چاٹ رہی ہے لیکن کبھی فوج کا قصور نکلتا ہے اور کبھی سیاستدان مورد الزام ٹھہرائے جاتے ہیں۔

آپ میرے سمیت سی ایس ایس کی دوڑ میں شامل کسی بھی امیدوار سے پوچھ لیں اس کا مطمح نظر محفوظ نوکری، اچھی گاڑی نوکر چاکر سرکاری گھر اور ساٹھ سال تک سکون سے تنخواہ اور بعد میں پنشن ہے۔ فوج بھی یہ سب کچھ دیتی ہے لیکن فوج پورے کورس کو بائیسویں گریڈ تک ترقی کی ضمانت نہیں دیتی۔ فوج میں میجر سے کرنل ترقی کی شرح 60 فیصد، کرنل سے بریگیڈیئر یعنی گریڈ 19 سے 20 میں ترقی کی شرح صرف 20 فیصد، اور بریگیڈیئر سے میجر جنرل ترقی کی شرح شاید 5 فیصد بھی نہیں اور پورے کورس کے صرف ایک یا دو افسروں کو لیفٹننٹ جنرل کا عہدہ نصیب ہوتا ہے۔ اور سول سروس میں ہر گریڈ میں ترقی کی یہی شرح 90 فیصد سے زائد ہے کیونکہ سول سروس میں محکمانہ احتساب کا تصور نا ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان فوج میں اعلی ترین عہدہ لیفٹننٹ جنرل ہے جس کی کل سیٹیں 28 ہیں اور فوج ہر سال 800 افسر بھرتی کرتی ہے جبکہ سول سروس میں مختلف وزارتوں اداروں اور انڈیپنڈنٹ اداروں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی ہر سال صرف 200 یا اس کے لگ بھگ امید وار سول سروس میں شامل ہوتے ہیں اور یوں سب کو ترقی کی گنگا میں نہانے کا موقع ملتا ہے۔

وقت ہے کہ اس گلے سڑے سسٹم کی مکمل اوور ہالنگ کی جائے اور اگر ایسا نا کیا گیا تو آج سے سو سال بعد بھی لوگوں کی بیوروکریسی تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہوگی اور گالیاں سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کے حصے میں آئیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments