اسرائیل اور حماس کے ٹکراؤ میں انسانیت دم توڑتی ہے


اسرائیلی جارحیت کا سامنا غزہ کے بے گناہ فلسطینی شہری کررہے ہیں لیکن اس کی تپش پوری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کسی نہ کسی حوالے سے اس وقت پوری دنیا میں موضوع بحث بنا ہؤا ہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی حلیف ممالک اس تنازعہ کو ختم کروانا چاہتے ہیں لیکن وہ اسرائیل کو جارح اور قانون شکن کہنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حماس بے گناہ اسرائیلی شہریوں پر راکٹ پھینک کر اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ بنا ہؤا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں سرکاری سطح پر تو اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ یہ ایک جنگ ہے جسے ختم ہونا چاہئے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو اس جنگ کا ذمہ دار سمجھ کر اسے جارحیت اور معصوم شہریوں پر بمباری روکنے کا پیغام دینے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہودی لابی کے ذریعے اسرائیل کو حاصل اثر و رسوخ ہے یا یورپ کا یہودیوں کے بارے میں احسا س گناہ بڑی حد تک اس کی وجہ بنا ہؤا ہے۔ دوسری جنگ میں ہٹلر نے جس طرح جرمنی میں یہودیوں کو تختہ ستم بنایا اور لاکھوں انسانوں کو گیس چیمبرز میں ہلاک کیا گیا، اس کا بوجھ اب تک یورپ کے ضمیر پر موجود ہے ۔ اس دباؤ میں ایک طرف یورپ کے بیشتر ممالک میں ہولوکوسٹ سے انکار یا اس کے بارے میں تنقیدی بات کرنا قابل تعزیر جرم ہے بلکہ یہ ’احساس جرم‘ اس حد تک گہرا ہے کہ اسرائیل کی دہائیوں پر محیط جارحیت اور فلسطینی شہریوں کے ساتھ متعصبانہ، ظالمانہ و سفاکانہ سلوک بھی اسے کم نہیں کرپایا۔
یہ حقیقت ہے کہ نازی جرمنی میں یہودیوں کو تختہ ستم بنایا گیا، انہیں دربدر کیا گیا یا موت کے گھاٹ اتارا گیا اور یہ ایسا ظلم اور جرم تھا جس کی مثال جدید تاریخ میں تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سچائی کو تسلیم کرنے کے بعد کیا صرف اس لئے اسرائیلی حکومت اور فوج کے غیر انسانی رویوں اور اقدامات کو قبول کرلیا جائے کہ کل وہ مظلوم تھے؟ یہودیوں نے بلاشبہ نازیوں کے ہاتھوں بے شمار مظالم برداشت کئےہیں لیکن اگر وہ لوگ اس وقت زندہ ہوتے تو اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کو دیکھتے ہوئے ضرور کہتے کہ یہ بھی ویسی ہی جارحیت اور انسانیت سوز سلو ک ہے جو دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔
کبھی یہ بحث بھی خالص میرٹ کی بنیاد پر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پائے گی کہ دوسری جنگ کے بعد برطانیہ نے دیگر حلیف طاقتوں کے ساتھ مل کر فلسطینی علاقے میں یہودیوں کو آبادکرنا شروع کیا ۔ انہیں مسلح کیا گیا تاکہ وہ آہستہ آہستہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی ہی سرزمین پر غلام اور مجبور بنا کر اپنی ریاست قائم کرلیں۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جنہیں واقعاتی تفصیلات کی بجائے سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر پرکھا اور مانا جاتا ہے۔ اسرائیل کے قیام اور پھر اسے ناقابل تسخیر فوجی طاقت بنانے کی کہانی بھی ایک ایسا ہی سچ ہے جس کے بارے میں دنیا مکمل طور سے تقسیم ہے۔ یورپ کے بیشتر لوگ اسے یہودیوں کا تاریخی حق مانتے ہیں کیوں کہ کسی زمانے میں اسرائیلی اس علاقے سے نکالے گئے تھے۔ حالانکہ کئی ہزار سال بعد کسی قوم کا کسی جغرافیائی علاقے پر دعویٰ اور پھر اس قبضہ کو بحال کروانے میں نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتوں کا کردار اور اب اسرائیل کے مظالم کو اس کا ’حق دفاع‘ قرار دینے کا طرز عمل ، ایک ایسا رویہ ہے جس کی وجہ سے مہذب دنیا کے آزادی، حق رائے، انسانیت اور انسانوں کے زندگی ، عزت و قار کے بارے میں سارے اصول بے معنی قرار پاتے ہیں۔ لیکن یورپی و امریکی سیاست دانوں کو اپنے ہی مقرر کردہ ا اصولوں سے یہ روگردانی دکھائی نہیں دیتی۔
اس کے باوجود یورپ اور امریکہ میں انسانوںکا ایک قابل ذکر گروہ اسرائیل کے انسانیت سوز اقدامات کو مسترد کرتا ہے اور فلسطینیوں کو برابری کی بنیاد پر زندہ رہنے کا حق دینے کی بات کرتا ہے۔ تاہم اس گروہ کو ابھی اتنی سیاسی قوت حاصل نہیں ہوئی کہ وہ اپنی حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکیں۔ لیکن یہ رائے آہستہ آہستہ تقویت پکڑ رہی ہے اور اسرائیل کی ہر جارحیت اس کے غیر انسانی کردار اور جابرانہ مزاج کو عیاں کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اس وقت ایک طرف حکومتیں ہیں جو اسرائیل کو حماس کے ’نشانے‘ پر آئی ہوئی ’مظلوم‘ ریاست سمجھ کر اسرائیل میں شروع ہونے والے تشدد کی بات کرتی ہیں۔ ان سرکاری بیانات اور مباحث میں اسرائیل کے ہاتھوں مرنے والے بچوں اور عورتوں یا تباہ ہونے والی شہری املاک کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ ان راکٹوں کا ذکر ہوتا ہے جو ناقص بھی ہیں اور اسرائیل کے جدید راڈار نظام کی وجہ سے ان میں سے بیشتر کو ضائع بھی کردیا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی راکٹ کبھی کسی آبادی پر جاکر گرتا ہو اور اس کے نتیجہ میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہوں۔ عام طور سے یہ ہلاکتیں راکٹوں کی بجائے ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف اور بھگدڑ کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں۔
اس کے باوصف مشرق وسطیٰ کے تنازعہ میں حماس کی انسانیت سوز حکمت عملی کو نہ تو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رکھنے کا کوئی جواز ہے۔ حماس اور اس کے حامی مسلمان ممالک اس بارے میں لاکھ دلیل لاتے رہیں لیکن تشدد اور خاص طور سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے نقطہ نظر سے کئے جانے والے راکٹ حملوں کو کسی صورت جائز، درست اور ’حق دفاع‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ حماس کمزور ہے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں محدود ہے ۔ اس کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے اور وہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اسرائیل نے حماس کو سزا دینے کے لئےغزہ کے بیس لاکھ شہریوں کو عملاً جیل کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہؤا ہے۔ غزہ کا علاقہ چاروں طرف سے محصور کیا گیا ہے اور اس کے شہری ہمہ قسم سہولتوں سےمحروم ہیں۔ اس کے باوجود حماس جب اسرائیل کی شہری آبادیوں کو نشانہ بناتا ہے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
حیرت البتہ اس بات پر ہوتی ہے کہ حماس کے راکٹ حملوں کے بارے میں ایک جائز دلیل کو تسلیم کرنے کے بعد اگر یہی مؤقف اسرائیل کے بارے میں اختیار کیا جائے تو اسے شرف قبولیت حاصل نہیں ہوتا۔ جو سیاست دان اور حکومتیں اس وقت حماس کے ’ظلم‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے مظلوم اسرائیلی شہریوں کے خوف اور عدم تحفظ کا چرچا کرتی ہیں، وہ غزہ کی شہری آبادیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کو مسترد کرنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ حالانکہ اسرائیلی فوج اور فضائیہ کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ موجود ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس جگہ پر بم پھینک رہے ہیں۔ جیسے اسرائیلی فوج نے آج رات ہی ایک رہائشی کمپلیکس برج الجلا کو میزائل حملہ میں تباہ کردیا۔ اس کمپلیکس میں عام لوگ رہتے تھے یا وہاں پر الجزیرہ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور دیگر میڈیا تنظیموں کے دفاتر تھے۔ لیکن امریکی و یورپی سرکاری ترجمانوں کی زبان پر ان دو ہزار راکٹوں کا ذکر ہی رہے گا جو حماس نے اسرائیل کی طرف پھینکے۔ حالانکہ راکٹ داغنے والوں کو بھی ان کے ٹارگٹ علم نہیں تھا۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے برج الجلا کو زمین بوس کرنے سے دس منٹ پہلے وارننگ جاری کی تھی کہ اس عمارت کو گرا دیا جائے گا ۔ اس قلیل مدت میں نہ تمام لوگ اپنا اسباب لے کر کسی جگہ سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی میڈیا مراکز اپنا ساز و سامان منتقل کرسکتے تھے لیکن اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اسرائیلی فوج خود کو ’ذمہ دار‘ عسکری قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہے۔ دنیا کے طاقت ور ملکوں میں چونکہ اسے سیاسی اعانت و حمایت حاصل ہے ، اس لئے اس کے غیر اخلاقی حملوں کا نوٹس لینا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حملے شروع ہونے کے ایک ہفتہ بعد اتوار کو سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوگا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ اجلاس بھی اسرائیل کی مذمت کرنے اور اس کی جارحیت روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اس صورت حال میں ایک طرف اسرائیل کا حامی امریکہ اور مغربی ممالک ہیں جو تصویر کا وہ رخ دیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں جس میں اسرائیل انسانی اقدار کو پامال کرنے والا ایک ظالم ملک ہے جو عربوں کے حقوق سلب کرنے اور ان کی زندگیوں سے کھیلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ انہیں صرف حماس کے ناکارہ راکٹ اور اسرائیل کی مظلوم آبادیاں دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف مسلمان ممالک کی اکثریت ہے جہاں حماس کی زیادتی اور ناجائز حکمت عملی کو مسترد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ نہ ہی اس کے راکٹوں سے مرنے والے انسانوں کی ہلاکت پر کسی دکھ کا اظہار سامنے آتا ہے۔ ان مسلمان ملکوں کی حکومتیں، میڈیا اور لوگ صرف اسرائیل کو غلط سمجھ کر اور فلسطینی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کرنے کو ہی واحد درست رویہ سمجھتے ہیں۔ مغرب اور اسلامی ممالک میں پائے جانے والے ان غیر متوازن رویوں کی وجہ سے فلسطین کے معاملہ کو لے کر عالمی رائے ہر آنے والے دن کے ساتھ تقسیم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
دنیا کے سب ملکوں اور انسانوں کو کسی نہ کسی سطح پر یہ سوچنا ہوگا کہ باہمی فاصلہ اور نفرت کا یہ مزاج اگر راسخ ہوتا رہا تو تشدد اور جارحیت صرف اسرائیل اور فسلطینیوں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ دوسرے ممالک بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ اسرائیل کی طاقت اور سوچے سمجھے طریقے سے فلسطینی شہریوں کو ہلاک کرنے اور ان کی معیشت کو تباہ کرنے کے طریقے اگرچہ زیادہ قابل مذمت ہیں لیکن یہ اصول بھی طے ہونا چاہئے کہ تشدد اور جنگی جنون میں نشانے پر آنے والا فلسطینی ہو، اسرائیلی ہو، مسلمان یا عیسائی ہو یا یہودی ، وہ سب سے پہلے انسان ہیں۔ کوئی بھی انسان کسی بھی بے گناہ انسان کی ہلاکت کو نہ تو قبول کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ امریکہ کی معیت میں مغربی ممالک سے اسرائیلی جارحیت کو روکنے کا مطالبہ کرنے والے مسلمان لیڈروں اور لوگوں کو ان اسرائیلی شہریوں کے مرنے پر بھی دکھ ہونا چاہئے جو حماس کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔
جب تک عالمی رائے عامہ میں یہ توازن پیدا کرنے کی کوشش نہیں ہوگی، دلیل مسلسل ہارتی رہے گی۔ جذبات کی بنیاد پر حمایت یا مذمت سے مفاہمت یا امن کا راستہ ہموار ہونے کا امکان بھی تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments