دنیا کا معیار


دنیا کے لوگوں کا معیار ہے
جو چلتے ہے اپنے مطلب سے
پل بھر میں بدل جاتے ہے لوگ
بس مطلب ختم ہونے کی دیر ہے

اس دنیا کا ایک انوکھا معیار ہے کہ لوگ نصیحت کرتے ہوئے آپ کی اچھی خاصی بے عزتی کر دیتے ہیں اور بعد میں نام نصیحت کا دے دیتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کبھی کبھی کہ لوگ یہ کیسے کر لیتے ہے کبھی مذاق میں کسی کے احساس کو کچل دینا تو کبھی نصیحت کا لیبل لگا کہ کسی کی عزت نفس کو روند دینا۔

اس دنیا کا عجیب ہی معیار ہے آپ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے دل کی بات کردے گہ لیکن وہ اسے غلط سمجھ کر اپنے معیار سے سمجھانے لگ جاتے ہیں۔ تو یہاں مجھے اپنی ایک سینئر کی بات بہت یاد آتی ہے کہ رامین ہر ایک کی نصیحت پر عمل نہ کرو۔ سنو پھر جو مناسب لگے تو تب کرنا ورنہ نہیں۔

اصل میں ہم کبھی کبھی اپنی ذات کی صفائی لوگوں کو نہیں دے سکتے کہ میرا مقصد کیا ہے۔ بے شک ہم کتنے اچھے کیوں نہ بن جائے یہ دنیا دیکھتی اپنی نظر سے ہے کہ تم کیسے ہو۔ سوچتی ہو کبھی کبھی کہ لوگوں کو برائی، و ہماری خاموشی نظر تو آجاتی ہے لیکن دل کہ اندر درد نہیں۔

کبھی خیال آتا ہے کہ لوگوں کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کہ رویے ان کی باتیں تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہ دنیا شاید بالکل بے حس بن گئی ہے۔ میں یہ نہیں کہ رہی کہ میں بہت اچھی ہو لیکن کوئی دوسرا تکلیف بھی دے دیتا ہے اور معافی بھی میں مانگ لیتی ہوئی یہی سوچ کہ شاید کہی غلطی کی ہو میں نے۔ لیکن لوگوں کبھی بھی احساس نہیں ہوتا۔

عجیب سے لوگ ہے آپ کی زندگی کو تہس نہس کرنے کے بعد ایسے رویہ اپناتے ہے جیسے سب قصور آپ کا ہو ہاں ہمارا قصور ہوتا ہے کہ ہم حد سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ افسوس اس بات کا نہیں ہوتا کہ امیدیں کیوں ٹوٹ جاتی ہے افسوس اس بات کا ہوتا ہے امیدیں ہمیشہ اپنا کوئی توڑ دے۔ لیکن جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہی ہوتا ہے۔

ایک اور عجیب طرز ہے اس دنیا کا کہ پہلے آپ سے وعدے کرتے ہیں اور بعد میں۔ شاید ہم سب منافق بنتے جا رہے ہیں کیونکہ جس کو بھی دیکھوں وہ اپنے مفاد کا بیج کہی نہ کہی بو رہا ہے اور جہاں مفاد کا بیج اسے لگے کہ غلط جگہ بو دیا تو اسے اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں پھر بے شک اس اکھاڑنے کے بعد جو بھی نقصان ہو۔

ان سب باتوں کو میں سوچتی ہو تو حیران ہی ہوتی ہو اور کچھ نہیں کہ ہم دن بدن کیا سے کیا ہوتے جا رہے ہیں کہ کسی کو سمجھنے کے لئے بھی ہم اپنا نظریہ استعمال کرتے ہے نہ کہ اس کا۔ جس کی وجہ سے ہم دوسرے کو کتنی تکلیف دیتے ہے جس کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔

ہر کوئی ایک جیسا بھی نہیں ہے لیکن جب ہر طرف منافقین سے سامنا ہو تو انسان کیسے جی۔

ان سب چیزوں کہ ہم خود ذمہ دار ہے کہ ہم ہر ایک کہ ساتھ منسلک ہو جاتے ہے۔ اور اپنے آپ کو ان کی طرح بنانے میں لگے رہتے ہے۔ اور ان کی خوشی کے لئے سب کچھ کرتے ہے بے شک وہ صحیح ہو یا نہیں۔ بے شک وہ ضمیر گوارا کریں یا نہ کریں ہم دوسروں کو خوش کرتے کرتے اپنے آپ کو توڑ دیتے ہے اپنی خوشیوں اور جذبات کو روند دیتے ہیں۔

ایک نصیحت جس نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا کہ ہر میٹھی زبان اور ہر ایک کہ وقتی پیار پر اندھا بھروسا کبھی بھی مت کرو کیونکہ شکاری بھی شکار سے پہلے پیار اور مٹھا رویہ اپناتا ہیں۔

جب تک ہم خود کو نہیں بدلے گہ تب تک مطلبی و مفاد پرست لوگ فائدہ اٹھاتے رہے گے۔ کیونکہ جب مطلب اور دلچسپی ہوتی ہے تو آپ ان کے لئے فرشتہ سے کم نہیں اور جیسے ہی مطلب و دلچسپی ختم تو آپ کسی ابلیس سے کم نہیں یہی معیار ہے میرے لوگوں کا۔ مجھے افسوس بھی کبھی کبھی ہوتا ہے ایسے لوگوں کو زندگی میں جگہ ہی کیوں دیتے ہیں۔ سب ہماری غلطی ہے ہر ایک کو اس کی اوقات میں رکھنا چاہیے۔ تب شاید کسی کی ہمت نہ ہو کہ ہر چیز کو کچل دے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کہ حال پر رحم کریں اور دوسروں کی زندگی میں خوشی کا باعث بنے نہ کہ غم و درد کے
جو ساتھ نہ دے سکے ان کا افسوس کیسا
جو سمجھ نہ سکے ان کے پیچھے رونا کیسا
جو میری غم و خوشی میں ساتھ نہ دے سکے
جو خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دے پھر امید کیسی
جو سمیٹنے کے دعوے دار فقط دعوے دار ہی ٹھہرے
تو افسوس کیوں رونا کیوں ان لوگوں کے جانے کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments