گولڈن گرلز: شریف عورت کون ہوتی ہے؟


گولڈن گرلز کی گاڑی چل نکلی ہے۔ پہلے ہم دو عورتیں اسے چلا رہی تھیں۔ اب ڈاکٹر لبنیٰ مرزا، ثمر اشتیاق، نادرہ مہر نواز اور دیگر بھی اسے ہمارے ساتھ چلا رہی ہیں۔ سب ساتھیوں کا شکریہ۔ سب کا ساتھ ہی اس سیریز کو کامیاب بنا رہا ہے۔ رابعہ، آپ کی تحریر میں کئی نکات تھے۔ میرا ذہن تو بس ایک جملے میں اٹک گیا، شریف عورت۔ شریف عورت کون ہوتی ہے؟ مجھے تو ویسے شریف مرد کی اصطلاح کی بھی کبھی سمجھ نہیں آئی بلکہ مجھے تو اس لفظ ہی ہی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ شریف ہونا کیا ہوتا ہے؟

کہتے ہیں شریف وہ ہوتا ہے جسے کبھی موقع نہ ملا ہو۔ کیا یہ بات درست ہے؟

آپ نے اپنی تحریر میں شریف عورت کسے کہا ہے؟ وہ عورت جو گھر بیٹھی ہوتی ہے جسے اس چار دیواری سے باہر جانے کے لیے دو چار بڑوں کی اجازت اور ایک آدھ چھوٹے کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے؟ وہ عورت جو بہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن نہیں کر پاتی کہ خاندان کی عزت خراب ہو جائے گی؟ یعنی جسے کوئی موقع نہ دیا گیا ہو وہ عورت شریف عورت سمجھ لی جاتی ہے اور میرے جیسی عورتیں جنہیں کچھ مواقع دیے جاتے ہیں اور کچھ وہ خود حاصل کرتی ہیں، وہ کیا کہلاتی ہیں؟

یاد رہے یہاں ان حلال و پاکیزہ مواقع کی بات ہو رہی ہے جو معاشرے کی طرف سے منظور شدہ ہیں۔ یہی تعلیم حاصل کرنے کا موقع، نوکری کرنے کا موقع، نوکری سے حاصل ہونے والے پیسے اپنی مرضی سے خرچنے کا موقع، اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کا موقع وغیرہ وغیرہ۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ عورت کی آزادی کی مانگ یا اسے حاصل مواقعوں کو کسی اور ہی موقع سے جوڑ لیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ موقع ان کی مانگ کی وجہ سے تو وجود میں آیا ہے۔

بائی اس لحاظ سے بہتر رہتی ہے کہ اس سے سیدھا اور کھرا سودا کیا جاتا ہے۔ کاروبار ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مجھے تو ان پر اعتراض ہے جو ہمارے تمہارے پاس رالیں ٹپکاتے پہنچ جاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم بائی نہیں ہیں لیکن ڈیمانڈ ہم سے وہی کرتے ہیں۔ کبھی کسی بہانے تو کبھی کسی بہانے۔ عورت سے مرد نے اس کے علاوہ کبھی توقع ہی کیا کی ہے؟

بائی کا ذکر چل پڑا ہے تو بائی جتنی بدنام ہے، بائی کے پاس جانے والا اتنا ہی ”بے نام“ ۔ کون جانتا ہے انہیں جو بائیوں کے کوٹھوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ جو جان پہچان میں آ بھی جائیں، انہیں یہ معاشرہ خود ہی معاف کر دیتا ہے۔

المیہ ہی یہ ہے کہ مرد کو اپنے ہر فعل کی معافی مل جاتی ہے، عورت کو نہیں ملتی۔ مرد کچھ بھی کر لے، اسے اس کی جوانی کی غلطی سمجھ کر معاف کر دیا جاتا ہے۔ عورت کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی ہر بات اور ہر حرکت پکڑ میں آتی ہے۔ چاہے وہ بات اس نے بھی مرد کی طرح غصے یا نادانی میں کہی ہو یا وہ حرکت مرد کی طرح جوانی کے نشے میں کی ہو۔

ہمارے معاشرے میں مرد کو جوانی کے اس نشے کا خمار محسوس کرنے کی اجازت ہے، عورت کو نہیں ہے۔ مرد کرے تو تجربہ، عورت کرے تو بے حیائی، رسوائی، عزت کا جنازہ اور جانے کیا کیا۔

مجھے تو اس پر اعتراض ہے۔ دو انسانوں کے لیے الگ الگ ترازو کیوں؟ بس ایک جھلی کی وجہ سے؟ عورت کے پورے وجود پر بس ایک جھلی حاوی ہے؟

اس ایک جھلی کی وجہ سے عورت کو نازک کہا جاتا ہے اور مرد کو مضبوط۔ دونوں پوری زندگی اپنی نزاکت اور مضبوطی دکھانے کے چکر میں ہلکان ہوئے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے ہم لکھاری بھی باؤلے ہیں۔ معاشرے کے سدھار کی چاہ میں لکھتے ہیں۔ معاشرے میں سدھار تو کیا ہی آئے گا، ان کی اپنی زندگی بگڑ جاتی ہے۔ ان کے ساتھ دو چار لیبل لگ جاتے ہیں۔ جس لیبل کا جس کے ذہن میں جیسا خاکہ ہو وہ ان کے ساتھ اسے جوڑ دیتا ہے۔

پچھلے سال کی بات ہے، کرونا کی عالمی وبا چین میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہم یہاں ہاسٹل میں محصور تھے۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔ شام کو کچھ پاکستانیوں نے اکٹھا ہونا شروع کر دیا، کھانا بناتے، کھاتے، ہنستے بولتے۔ ایک روز کھانا کھانے کے بعد برتن دھونے کی ذمہ داری میں نے اٹھا لی۔ اب میں برتنوں کا ڈھیر دھو رہی ہوں اور یہ میری ویڈیو بنا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کیوں تو کہنے لگے پہلی بار کسی فیمینسٹ کو برتن دھوتے دیکھ رہے ہیں۔

ایک دوست تو جاتے جاتے کہہ گئے کہ تم فیمینسٹ نہیں ہو۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگے نہ رنگ برنگے بال، نہ آدھے ادھورے کپڑے، کھانا بھی اچھا بناتی ہو، کمرہ بھی صاف ستھرا رکھتی ہو، فیمینسٹ ایسی نہیں ہوتیں۔

میں ہنس دی۔ یہ تو ہر ایک کی انفرادی پسند ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد پر کسی کو جج کیسے کیا جا سکتا ہے۔ میں چونکہ عورت ہوں اور میری تحاریر میں ایک فیمینسٹ سوچ ہوتی ہے تو میں جج کی جاتی ہوں۔

کبھی ہمت ہارتی ہوں تو سوچتی ہوں اتنا کچھ نہ ہی ہوتی تو بہتر تھا۔ نہ دماغ بہت کچھ سوچتا، نہ میں بہت کچھ کرتی، نہ میرے ساتھ بہت کچھ ہوتا۔ پھر ان خواتین کا سوچتی ہوں جو بہت کچھ نہیں کر سکیں اور جب مجھ سے ملتی ہیں تو حسرت سے کہتی ہیں کاش ہم تمہاری زندگی جی سکتے، اس سے تھوڑی سی ہمت ملتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ عورت ہونا اس معاشرے میں ایک کنفیوزڈ سا عمل ہے۔ عورت کچھ نہ کرے تب بھی اس کی زندگی مشکل میں گزرتی ہے، کچھ کر لے تب بھی اس کی زندگی مشکل میں گزرتی ہے۔ مرد کا معاملہ الگ ہے۔ کچھ کر لے تو بہت اچھا، نہ کرے تو کوئی بات نہیں، جتنا موجود ہے اس میں گزارا کرو۔ ناراضگی دکھا کر اسے غصہ نہ دلاؤ۔

رابعہ، افسوس ہمارے حصے میں آیات اور اقوال بھی نہیں آئے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

مصنفہ: تحریم عظیم

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےدیسی مرد، ابھی تک دائیوں اور بائیوں کے خمار سے نہیں نکل سکامرد کو نفرت کی زبان سمجھ آتی ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments