کراچی آخر کب تک نظر انداز ہوگا؟


کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بند نہیں کیا گیا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔ کرپٹ حکمرانوں نے معاشی شہ رگ کے وسائل لوٹ کر شہر و صنعتی زونز کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ نظر انداز کیے جانے کی روش نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ روزگار کی عدم دستیابی، بڑھتی مہنگائی اور شہر قائد کو اون نہ کرنے کے وتیرے نے احساس محرومی کو بڑھا دیا ہے۔ بالخصوص سندھی نہ بولنے والی مستقل آباد لسانی اکائیوں کی آبادیوں کو کسی کھاتے میں ہی نہیں ڈالا جاتا۔

کراچی کا بحران کئی عرصے سے شدت سے سر اٹھا رہا ہے، عوام سراپا احتجاج بنے رہتے ہیں اور حکمران انہیں طفل تسلیاں دیتے نہیں تھکتے، عملاً کرتے بھی کچھ نہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ بحران مزید شدت اختیار کرچکا ہوتا ہے، عوام میں احساس محرومی کی حدت پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ہے لوگ یہ پوچھنے اور وا ویلا کرنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ یہ کیسی حکومتیں ہیں، جو کئی برس گزرنے پر بھی عوام اور ملک کو درپیش اہم مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، الٹا عوام کو صبر کرنے کو کہا جاتا ہے اور اگر وہ احتجاج کریں تو ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں، کیا اسی لئے عوام اپنے ووٹوں سے اپنی حکومتیں منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کریں اور احتجاج بھی نہ کرنے دیں۔

کیا کسی سیاسی رہنما کو یہ احساس ہے کہ کراچی کی اصل شناخت کو قصدا مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، شہر قائد مختلف قومیتوں کا خوب صورت گلدستہ ہے، انہیں کیوں کچرے میں پھینک کر تعفن پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلا شبہ شہر قائد میں امن کے لئے سیکورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا، ایک دن میں جتنا وقت ہڑتال کی جاتی تھی اور املاک کو نقصان پہنچایا جاتا تھا اور چوکوں پر جلائے جانے والے ٹائروں کی وجہ سے گھنٹوں جو ٹریفک بلاک رہتی تھی، اس ذہنی و جسمانی کوفت سے تو سیکورٹی اداروں نے نجات دلا دی، لیکن شہر کراچی اب بھی اسٹریٹ کرائم، ترقیاتی کاموں میں تعصب و اقربا پروری، پانی اور توانائی کے بحران میں دھنسا ہوا ہے، ان مسائل سے نکالنے کی ذمے داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے، لیکن ہمارے بیشتر سیاسی رہنماؤں اور یہاں اس وقت قائم اور ماضی میں برسر اقتدار رہنے والی حکومتوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ اگر مملکت کے سب اہم معاشی ستون کو مضبوط نہ کیا جا سکا اور اس حوالے سے سیاسی قوتوں میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا تو یہ کس کی ناکامی ہے اور اس کی سزائیں کس کو بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ آج شہر قائد معاشی طور پر مفلوج ہو رہا ہے اور انفرا سٹرکچر کی ابتر صورت حال میں سرمایہ کاری کا جمود ہے تو کیا ماضی اور موجودہ حکومتوں اور تمام سرکاری اداروں کے سربراہوں سے یہ پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ ان ساری ناکامیوں کا ذمہ دار کون ہے اور عوام کس سے پوچھیں، کس سے منصفی چاہیں؟

لوگوں کو کہنا ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ کراچی کس کرب سے گزر رہا ہے، جانتے ہیں کہ اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، لیکن سیاسی جمود کی شکار عوام کو اذیت میں مبتلا کرنے والے اقدامات کیے جاتے ہیں اور پھر اچانک کسی میٹنگ، جلسے یا پریس کانفرنس میں دکھاوے کے اربوں ڈالرز کے پیکجز کے محض اعلانات کیے جاتے ہیں، عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ارباب بست و کشاد کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور بالکل ابھی پتہ چلا ہے جس پر فوری نوٹس لے لیا گیا ہے اور نوٹس بھی کیا لیا جاتا ہے بس لوگوں کو مطمئن کرنے کی ایک لایعنی اور لاحاصل مشق کی جاتی ہے کیونکہ ایسے کسی نوٹس اور ایسے کسی اجلاس یا نام نہاد ریلیف کے دعوؤں کے اعلانات کے نتیجے میں حالات میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔

اہل کراچی اپنا نوحہ ہر روز پیش کرتے ہیں لیکن انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے مسائل کا اصل ذمے دار ہم نہیں بلکہ کوئی اور تھا، سب سے تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ لسانی اکائیوں کی سیاسی و تعمیری سوچ کا کردار ختم ہوتا جا رہا ہے، قوم پرست جماعتیں دوسرے صوبوں کی سیاست سندھ میں تو کرتی ہیں لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں اپنے پر تعیش محلات میں رہ کر غریب عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔

شہر قائد سیاسی و قومی دھارے سے دور ہوتا جا رہا ہے، اہل کراچی کو اس وقت ہی یاد کیا جاتا ہے جب ووٹ مانگنا مقصود ہوتا ہے۔ اب تو ہر حلقے کے عوام چاہتے ہیں کہ ان کے یہاں ضمنی انتخاب ہوں تاکہ اروبوں روپوں کے ترقیاتی کام ہوں، میڈیا آ کر ان کے مسائل پوچھے، حکومتی نمائندے پہلے کام پھر ووٹ کے وعدے پر عمل کریں، پھر جس نے جس کو سرپرائز دینا ہے دیتا رہے، کم ازکم حلقے کے کچھ تو مسائل حل ہوجائیں گے، روشنیوں کا شہر تاریکیوں کا شکار ہو چکا، پینے کو صاف پانی میسر نہیں، ہائیڈڈرینٹ مافیا نے رمضان المبارک میں جس طرح شہر کی 70 فیصد آبادی کو مہنگے داموں پانی فروخت کیا، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، عوام کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں، معتدی و وبائی امراض کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، صحت عامہ کی صورت حال اس قدر گمبھیر ہے کہ کسی سرکاری ہسپتال جائیں تو ہزاروں روپوں کی دوائیاں نجی اسٹور سے خریدنا پڑتی ہیں، نواحی علاقے کئی عشروں سے کھنڈرات بن چکے۔

پاکستان کے قیام سے آباد نواحی علاقوں میں جیسے کبھی ترقیاتی کام ہی نہیں ہوئے ہوں، ان علاقوں کی عوام پکی سڑکیں صرف پوش علاقوں اور پختہ گلیاں صرف سیاسی عہدے داروں کے گھروں کے سامنے ہی نظر آتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل تباہ ہو چکا، ٹریفک کے بے ہنگم ہجوم و شور شرابے نے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، ماحولیاتی آلودگی کے باعث کنٹریکٹ کا شہر ایک دہکتا انگارا بن چکا، جس میں اہل کراچی جھلس رہے ہیں۔ شہر قائد کو آئسولیٹ میں جانے سے روکنا ریاست کی ذمے داری ہے، کراچی ماضی کے مقابلے میں امن کا منظر تو پیش کرتا ہے لیکن احساس محرومی کی وجہ سے عوام کے سینوں میں ایسا آتش فشاں پک رہا ہے جس کا لاوا بہہ نکلنے سے پورے ملک و قوم کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، لسانی اکائیوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے، سینے سے لگائیں اور معاشی شہ رگ کی اصل شناخت بحال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments