مسلماں ممالک کے حاکم کہاں ہیں؟


اس کا نام فادی ابو صالح تھا۔ 2001 ء میں اس کا باپ اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنا تو 2008 ء میں غزہ پر ”مہذب“ بمباری کے نتیجے میں اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔ گھٹنوں سے کٹی اس دونوں ٹانگیں سالہاسال اپنے بوٹوں سے ”کھٹ کھٹ“ کی آوازیں نکالتے ”نصف سینچری“ سے زائد اسلامی ممالک کے ”جوانوں“ کا منہ چڑاتی رہیں۔ سوموار کا دن تھا جب اسرائیلی جارحیت نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ اس نے اپنی ویل چیئر کا پہیا گھمایا اور اس سرحدی علاقے میں جا پہنچا جہاں کبھی اس کا گھر ہوا کرتا تھا۔

اپنی ویل چیئر کو مچان بنا کر اس نے مورچا سنبھالا، غلیل ہاتھ میں پکڑی اور ابابیل بن کر دشمن کے ٹینکوں پر پتھر پھینکتا رہا۔ عصر کے وقت، کہ جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر بتایا ہے کہ انسان خسارے میں ہے، فادی ابوصالح اپنی جان راہ خدا میں قربان کر کے اسلامی ممالک کے ”غازیوں“ کو خسارے اور منافع کا حقیقی مفہوم بھی سمجھا گیا۔

یہ ایک حقیقی مرد کی کہانی ہے۔ اس معاملے میں تو فلسطین کی عورتوں نے بھی دیگر ممالک کے اپنے زرہ بند بھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ زمین پر لیٹی بے خوف مریم عساف، اس کا زمین پر گرا ہوا دوپٹا، اس کی گردن پر رکھا ہوا ایک ناپاک ملعون کا گھٹنا اور اس کی ایک مسکراہٹ۔ ایک طرف غلاف کعبہ سے متبرک دوپٹا میرا مان بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف ناپاک اسرائیلی کا گھٹنا مجھے اپنے حلق پر محسوس ہو رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ گھٹنا ”مرحوم“ امت مسلمہ کے حلق پر تھا۔

مرحوم کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ مرحوم کا مطلب ہے جس پر اللہ کی رحمت ہو۔ آج کی کربلا میں حسینی قافلے کا تماشا دیکھنے والوں اور خاموش رہ کر یزیدی قافلے کی حوصلہ افزائی کرنے والوں پر بھلا کیسے اللہ کی رحمت ہو گی؟ دودھ پیتے شہید کی مسکراہٹ پر تمام فوجیں اور غلیل پکڑے تین سالہ بچے پر اسلامی دنیا کے تمام ہتھیار قربان۔ بقول اقبال ”غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں“ ۔

جن ممالک کو پاکستان، ایران، ترکی اور ملائیشیا کا اکٹھے بیٹھنا اور ایک بلاک بنانا پسند نہیں، انہیں دودھ پیتے بچوں پر اسرائیلی بمباری کیسے پسند ہے؟ اسلامی ممالک کے عوام اور حکمرانوں کی ترجیحات یکسر مختلف ہیں۔ یقین نہیں آتا ہر اسلامی ملک ایک سروے ہی کرا لے کہ اس کے عوام فلسطین کے معاملے پر اپنے ملک کا کیا کردار دیکھنا چاہتے ہیں؟ چوک چوراہے پر بیٹھا ایک عام پاکستانی تو یہ بھی سوچ رہا ہے کہ ہمارے ناراض دوستوں نے یک دم اپنے ہاں بلا کر شاہانہ پروٹوکول کیوں دیا اور وہ بھی جارحیت سے کچھ دن پہلے؟ کہیں یہ ہمارے خاموش رہنے کی قیمت تو نہیں تھی؟

چھوٹا سا جارح اسرائیل نام نہاد اسلامی ممالک میں یوں گھرا ہوا ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان لیکن اے کاش کہ سفید اور پتلے خون کے حامل اور غیرت و حمیت سے عاری ہمارے حکمران اپنے اقتدار کے دوام کی ضمانت اپنی عوام کو سمجھتے تو در در پر الٹی قلابازیاں کھانے کی ہزیمت سے بچ جاتے۔ اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت بھی نہیں ترکی کی حالیہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب وہاں بھی مصر کی طرح اپنوں کی حکومت لانے کی کوشش کی گئی تو ”ان“ کی پشت پناہی کے باوجود عوام نے وہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔

جس طرح وکیل کرنے سے بہتر ہے سیدھا جج ہی کر لو، وقت بھی بچتا ہے اور پیسا بھی۔ اسرائیل نے بھی ٹھیک ہی کیا ہے کہ کس کس سے جنگ کرتا؟ افراد بھی ضائع ہوتے اور پیسا بھی، سیدھے سیدھے اسلامی حکمرانوں کو ”سیدھا“ کیا۔ ایک ارب سے زائد مسلمان بھلا کیسے خریدے جاتے؟ لہذا سرمایہ کاری صرف بڑوں پر کی گئی اور بڑوں نے بھی وفاداری ایسی نبھائی کہ اگر بفرض محال آج ہی ہر اسلامی ملک کی عوام جہاد کے لیے سرحدوں کی جانب مارچ شروع کر دیں تو ان پر لاٹھی چارج اور شیلنگ اسرائیلی ادارے نہیں بلکہ اپنے ادارے کریں گے۔

لہذا فلسطینی بہنوں سے میری یہی گزارش ہے کہ ہمیں نہ پکاریں۔ ہم تو کشمیر سے بھی جان چھڑا رہے ہیں۔ بلکہ کسی کو بھی پکارنے سے پہلے وہ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کا حشر ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی بربادی کا نظارہ کریں اور اگر ہو سکے تو اپنے آپ کو زندہ رکھیں تا کہ کل جب ہماری باری آئے تو وہ اسے بھی دیکھ سکیں تا کہ انہیں یقین ہو کہ ہم اتنے ”جو گے“ ہی تھے۔ ویسے بھی علم العروض میں ”اسلامی“ اور ”نیلامی“ کا وزن ایک برابر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments