کوہ پیماؤں کی اُمید بر آئی، کے ٹو بیس کیمپ پر اب فور جی انٹرنیٹ چلے گا


“کوہ پیمائی ایک مشکل اور خطرناک کام ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں انسان اپنے خاندان سے دور رہتا ہے۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ رابطے کیسے کریں گے۔”

یہ کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے علاقہ شمشال سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کوہ پیما مرزا علی بیگ کا جو پہاڑی علاقوں میں مواصلات کا مؤثر نظام نہ ہونے سے پریشان تھے۔

اُن کے بقول پہاڑوں پر جاتے ہوئے مواصلات کا کوئی مربوط نظام نہیں ہوتا اور ان حالات میں صرف سیٹلائٹ فون ہی کام کرتا ہے جو بہت مہنگا ہے اور ہر کوئی اسے نہیں لے سکتا۔

دنیا کی بلند ترین چوٹی ‘ماؤنٹ ایورسٹ’ کو 2019 میں سر کرنے والے کوہ پیما مرزا علی بیگ کا کہنا ہے کہ اب یہ ڈیجیٹل دنیا ہے اور مواصلات زندگی کا ایک ضروری جُزو بن چکا ہے۔

پاکستان کی ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو، کے بیس کیمپ پر واقع علاقے کنکورڈیا میں پہلی مرتبہ فور جی سروس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام اور کوہ پیما کمیونٹی نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے بیس کیمپ پر واقع علاقے کنکورڈیا میں فور جی سروس فراہم کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس سائٹ کو پاکستان کے مایہ ناز کو پیما محمد علی سدپارہ کا نام دیا گیا ہے جو رواں برس موسمِ سرما میں کے ٹو سر کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مرزا علی بیگ نے مزید بتایا کہ فور جی سروس کے بعد کوہ پیماؤں کے لیے خاندان کے ساتھ رابطے کی سہولت کے علاوہ حادثات کی صورت میں ریسکیو مشن سے رابطے میں بھی بہت آسانی پیدا ہو گی۔

خیال رہے کہ مرزا علی بیگ اپنی بہن، ثمینہ بیگ کے اس سفر میں بھی ہمراہ تھے جب انہوں نے 2013 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کی تھی۔ مرزا علی بیگ کا کہنا ہے کہ وہ 8600 میٹر کی بلندی سے واپس چلے گئے تھے کیوں کہ ان کا مقصد صرف اپنی بہن کی کامیابی تھا۔

مرزا علی کا مزید کہنا تھا کہ اس سہولت کے بعد اس علاقے میں معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔ کیوں کہ جب لوگ کے ٹو کے بیس کیمپ تک جائیں گے اور وہاں کے مناظر کی براہِ راست منظر کشی کریں گے تو اس سے مزید سیاح یہاں کا رُخ کریں گے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سروس کے آپریشنل ہونے کے بعد اس علاقے میں موبائل فون کوریج اور انٹرنیٹ کی رسائی کوہ پیماؤں اور ٹریکنگ گروہوں کو اپنے خاندان سے رابطے میں رہنے اور کسی ہنگامی صورتِ حال کی صورت میں مدد دینے میں اہم ثابت ہو گی۔

یاد رہے کہ اس سائٹ کا افتتاح وزیرِ اعظم، عمران خان نے اپنے حالیہ دورۂ گلگت بلتستان کے دوران کیا تھا۔

گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مواصلاتی تنصیبات کے لیے سرکاری ادارے ایس سی او یعنی اسپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن کا آغاز 1976 میں کیا گیا تھا۔

ایس سی او گلگت بلتستان کے ترجمان راجہ نور الامین کا کہنا ہے کہ اس ٹاور کی تنصیب سے نہ صرف ایڈوینچر سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ موسم کی صورتِ حال سے بروقت آگاہی بھی ملے گی۔

کے ٹو بیس کیمپ سطح سمندر سے پانچ ہزار میٹر بلند جب کہ یہاں کا اوسط درجۂ حرارت سردیوں میں منفی 20 سے منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے راجہ نور الامین نے بتایا کہ 15 ہزار فٹ بلند مقام کنکورڈیا تک پہنچنے کے لیے پہلے اسکردو سے اسکولی گاؤں تک دشوار گزار راستہ جیپ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ بعدازاں اسکولی سے کنکورڈیا تک گلیشیئرز اور خطرناک چٹانوں کے اوپر ایک ٹریک بنا ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بلند ترین مقام پر جدید مواصلاتی سروس کی فراہمی سے علاقے میں موسمِ سرما اور موسمِ گرما میں کوہ پیمائی کا شعبہ مزید ترقی کرے گا۔

گلگت بلتستان کی کُل آبادی تقریباً 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس کے 10 اضلاع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فور جی سروس کے اجرا سے قبل علاقے کو مختلف مسائل کا سامنا تھا۔

مقامی صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ فور جی سروس سے قبل وہ نہ تو لائیو کوریج کر سکتے تھے اور نہ ہی بروقت فوٹیج اپنے ہیڈ کوارٹرز کو بھیج سکتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگرچہ بڑے شہروں میں فور جی کی سہولت میسر تھی تاہم دور دراز کے علاقوں کے مسائل جوں کے توں تھے۔

عبدالرحمان بخاری کا مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان کے دیگر شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔

اُن کے بقول کرونا وبا کے باعث اسکول اور یونیورسٹیز کی بندش کے بعد جب طلبہ واپس آئے تو انہیں آن لائن کلاسز لینے میں بہت دقت تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ایس سی او کی سروس کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں سروسز کی فراہمی کو یقینی بنایا۔

فور جی سہولت کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ چوں کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا بڑا حصہ گلگت بلتستان سے ہی گزرتا ہے۔ لہذا اس سے یہاں کے مکینوں کو سہولت ملے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ بھاشا ڈیم سے لے کر بابو سر ٹاپ اور پھر وادیٔ کاغان کی حدود تک موبائل سروس اور فور جی سروس کو یقینی بنایا جائے گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments