فلسطین، پاکستانی لبرلز اور پاکستانی لیفٹ


پاکستان میں ایک مخلوط ترقی پسند اقلیتی طبقہ پایا جاتا ہے۔ چونکہ کوئی سیاسی امپیکٹ تو ہے نہیں تو واضح طور پر کوئی تخصیص بھی نہیں۔ لیکن فلسطین کے اس حالیہ مسئلے میں لیفٹ کے حضرات باجماعت لبرلز کو نشانہ بنائے بیٹھے ہیں بجائے پاکستانی معاشرے کی منافقت پر کوئی ڈسکورس پیدا کرنے کے۔ یقیناً فلسطین کی حمایت ایک ہائی مورل گراؤنڈ ہے لیکن اس پر قبضہ جمانا اور دوسروں کو دھکے دے کر گرانا بھی کوئی باشعور رویہ نہیں ہے۔

پاکستانی لبرلز میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو لیفٹ کی طرف انکلائنڈ ہیں۔ خاص طور پر معاشی پالیسیوں، انسانی حقوق، فلسطین کے معاملے، مزدوروں اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے۔ بلکہ اگر عوامی ورکرز پارٹی جیسی لیفٹ کی ایک معتدل جماعت کا مینیفیسٹو اٹھا کر دیکھ لیں تو اس مینیفیسٹو اور ان لبرلز کے خیالات میں کوئی رتی برابر فرق آپ کو نہیں ملے گا۔ اس کے ساتھ وہ بایاں بازو کو ایک حامی ترقی پسند طبقہ قرار دیتے ہیں۔

جس طرح لیفٹ میں بہت سے دھڑے ہیں لیننسٹ سٹالانسٹوں سے لے کر مولوی کامریڈوں تک اسی طرح لبرلز میں بھی بہت سے لوگ ہیں۔ لیکن لیفٹ کے بلند پایہ اساتذہ بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر پاکستانی کانٹیکسٹ کو اگنور کر کے لبرلز کو رگڑا لگا دیتے ہیں جیسے یہاں جرمی کوربن یا لینن صاحب ان کو ڈائریکٹلی ابراہام لنکن کی پارٹی کے لوگوں کے خلاف لیڈ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک تو مولوی مارکسسٹ ہیں جو لبرلز کو لیفٹ کے لیبل کے پیچھے چھپ کر ایک خانے میں نتھی کرتے ہیں کیونکہ ان کو لبرلز کے سیکولر بیانیے سے چڑ ہے اور یہ اس کا بدلہ لے رہے ہیں۔

اس کے ساتھ کچھ نکمے سے سیکولر فیس بکی دانشور ہیں جن کا اپنا ٹریک ریکارڈ انتہائی مشکوک ہے یا وہ فیک پروفائلز چلاتے ہیں، انسانیت سے زیادہ ان کو اپنے موقف پر ڈٹنا پسند ہے وہ کچھ معاملات میں تو لبرل ہو سکتے ہیں لیکن لبرلز کے نمائندے ہرگز نہیں ہیں نہ یہ کوئی ایک تنظیم ہے بلکہ انفرادی رائے اور موقف سے علمی اختلاف پر یقین رکھنے والے مختلف لوگ ہیں اور اگر ان کی رائے کو صرف اختلاف کے ساتھ وہاں رہنے دیا جا رہا ہے توپوں کا رخ نہیں کیا جا رہا تو یہ بھی مختلف انفرادی آراء کو منطقی طور پر مکالمے کا حصہ سمجھنے کا لبرل اصول ہے نہ کہ تائید۔

دوسری طرف اگر کوئی فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کے ساتھ مذہبی طبقے کی دو رخی بیان کرتا ہے جیسے افغانستان یا پاکستان کے اندر مذہبی طبقے کو اقلیتوں پر ہونے والے مظالم نظر نہ آنے کی بات یا حماس کو ایک دہشتگرد تنظیم سمجھتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ وہ حقیقت سے دور ہے۔ یہ بیانیہ مغرب کے لیفٹ کے حلقوں میں بھی ہے جو حماس کو بائیں بازو کی پی ایل او کی ضد بلکہ الفتح اور فلسطینیوں کے لیے بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیفٹ کے بہت سے کامریڈ لبرلز کے خلاف ایک مذموم مذہبی بیانیے کو من و عن آگے پیش کر رہے ہیں بغیر ان حلقوں کے مقاصد سمجھے اور اگر دانستہ کر رہے ہیں تو یہ ان پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں میں کافی ترقی پسند شامل تھے۔ اس پر کسی اخبار نے سرخی لگائی کہ فلسطین پر چپ سادھنے کا الزام لگنے والے فلسطین کے حق میں ریلی نکال رہے ہیں جبکہ مذہبی طبقے خاموش ہیں تو ایک کامریڈ فوراً آئے اور فرمایا یہ لیفٹ کے لوگ ہیں لبرل نہیں حالانکہ لکھنے والے نے شاید لبرل کی تخصیص بھی نہیں کی تھی۔ ایک اور کامریڈ خاتون فرماتی ہیں لبرلز یہ اور لبرلز وہ، خود ان کی اپنی کمیونٹی کے علاوہ کہیں ظلم ہو تو مجال ہے ان کی طرف سے کوئی آواز آئے۔

پاکستان کی سول سوسائٹی میں یہ تخصیص ویسے بھی نہیں کی جا سکتی کہ کون لیفٹ سے ہے اور کون لبرل۔ مذہبی طبقہ جب لبرل کی بات کرتا ہے تو وہ تیمور رحمان اور عمار علی جان کو بھی لبرل ہی گردانتا ہے، سیاسی سپیکٹرم میں لبرل بھی لیفٹ میں ہی آتے ہیں پاکستان میں کیونکہ یہاں کوئی کیپیٹلسٹ کنزرویٹو لبرلز یا معاشی لبرل ازم کی کوئی تحریک تو ہے نہیں نہ کوئی سیاسی تحریک۔ سماجی حوالے سے لبرلز اور لیفٹ کے خیالات ایک ہی ہیں۔ جمہوریت پسندی کے بھی دونوں قائل ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا اے ڈبلیو پی کے منشور سے معاشی بیانیہ نکال لیا جائے تو لبرل بیانیے اور اس میں کوئی فرق نہیں بچتا خاص طور پر جب یہاں لبرلز کی اکثریت ایک ریگولیٹڈ مارکیٹ، لیبر لاز اور مزدور انسان دوستی کی قائل ہے۔

اگر کوئی شخص سماجی رویے میں بھی انصاف اور برابری کے لبرل اصولوں کی نفی کرتا ہے اور ایک خاص تعصب کا اظہار کرتا ہے تو وہ نہ ریشنلسٹ ہے، نہ سیکولر (کیونکہ وہ اسرائیل کا صیہونی مذہبی بیانیہ تسلیم کر رہا ہے ) اور نہ لبرل۔ بلکہ ایک موقع پرست متعصب ریئکشنری ہے جو اپنے مفاد کے مطابق بیانیہ بناتا ہے۔ لیفٹ کو چاہیے کہ پاکستان کے کانٹیکسٹ میں ان ڈیفینیشنز کا ادراک کرتے ہوئے لبرلز کی شناخت کرے کیونکہ یہ اپنے پاؤں پر بھی کلہاڑی مارنے والی بات ہے۔ لاہور کے ایک مشہور استاد نے بھی موقع نہیں چھوڑا اور لبرلز کو رگڑا لگا گئے اور کئی دوست بھی ایسا کر رہے ہیں بغیر مجموعی صورتحال کو جانچے۔

اس کے ساتھ یاد رکھیں کہ فلسطین کے کاز پر لکھنے اور کام کرنے والے لوگوں جیسے اقبال احمد، ایڈورڈ سیڈ، فیض اور نوم چومسکی کے قریب کے لوگوں میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی ہیں جو خود کو لبرل تسلیم کرتے ہیں اور بیٹی لیفٹ سے وابستہ ہے اور مذکورہ بالا لوگ بھی خود کو اٹھارہویں یا انیسویں صدی کے اوائل کے لیننسٹ ماؤئسٹ نہیں کہتے۔ چومسکی کو لے لیں، سیڈ کو یا اقبال احمد کو، یہ لوگ خود کو لیفٹ انکلائنڈ انر کو سینڈیکیلسٹ یا لبرل ہی گردانتے رہے ہیں۔ یہاں پر خود لیفٹ میں اتنی تقسیم ہے کہ صرف لائلپور میں کوئی درجن دھڑے ہیں، سمجھ نہیں آتی کون کدھر سے نکل رہا۔ اے ڈبلیو پی کے اندر اپنے اتنے مسائل ہوتے۔ ایک دن تنظیمیں الگ ہو رہی ہوتیں دوسرے دن مرج ہو رہی ہوتیں۔

میں چونکہ ایک مجموعی ترقی پسند بیانیے کا قائل ہوں اس لیے میں یہاں پر ان کے اندر کی ریشہ دوانیوں کو بیان کر کے مخالفین کو فائدہ نہیں دوں گا۔ اسی طرح لیفٹ کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ لبرلز کے لیے اس طرح کے القابات یا یہ کہنا کہ وہ فلسطین سٹرگل کے خلاف ہیں جیسے متعصبانہ بیانیہ کو سوچ سمجھ کر ترویج دیں۔ کل کو یہ آپ کے گلے بھی پڑنا۔ اگر کسی سے مسئلہ ہے تو اس کا نام لے کر اس کی کلاس لیں۔ اشتراکیت کے آپ قائل ہیں لبرلز نہیں وہ انفرادیت کو مقدم مانتے ہیں۔ اگر صرف بائیں بازو سے ہونے کے ناتے گالی دینے کا شوق ہے تو امریکی یا برطانوی لبرلز کو گالیاں دیں، یہ تو آپ جیسے ہی ہیں ہر مسئلہ موقف میں آپ کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ میرا نہیں خیال کوئی باشعور اور انسان دوست، سیکولر، برابری، آزادی اور انصاف کا قائل دیانت دار شخص (جو کہ ایک لبرل کی ڈیفینیشن ہے ) فلسطین کی مخالفت اور اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کی حمایت کرے گا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی ذات اور نیت پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا وہ اپنے چند فالوورز کی اپروول (جن کے ملک کا ویسے آفیشلی فلسطین حامی اور اسرائیل مخالف بیانیہ ہے ) کی وجہ سے بدنیتی کا اظہار کر رہا ہے یا صرف انا پرستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اگر ایسے چند لوگوں کی مثالیں پیش کر کے آپ اپنے سمیت ایک پورے ترقی پسند طبقے کو لبرل کا نام دے کر تنقید کا نشان بنا رہے ہیں تو آپ بھی اتنے ہی لاعلم بددیانت ہیں جتنے وہ اسرائیل کے حامی بددیانت۔

ڈاکٹر عاکف خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عاکف خان

مصنف فزیکل سائینز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہونے کے ساتھ بلاگر، کالم نویس اور انسانی حقوق کےایکٹیوسٹ ہیں۔ ٹویٹر پر @akifzeb کے نام سے فالو کیے جا سکتے ہیں۔

akif-khan has 10 posts and counting.See all posts by akif-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments