شو کمار بٹالوی۔ وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جاں


خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ

شو کمار بٹالوی پر لکھتے ہوئے محبت کی اس سے خوبصورت کوئی دوسری مثال نہیں دے سکتا۔

پنجابی زبان ادب کا بہت مقبول ترین شاعر، شو کمار بٹالوی جس نے اپنی کم عمری میں شہرت کے پہاڑوں کو سر کیا۔ اس کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود بہت اچھا گاتا تھا۔ اس کا گلا بہت صاف تھا۔ وہ اپنا کلام مخصوص انداز میں گا کر سناتا۔ کبھی اس کو پنجابی ادب کا جان کیٹس کہا جانے لگا اور کبھی شیلے۔

شو کمار بٹالوی 23 جولائی 1936 میں تحصیل شکر گڑھ کے نواحی گاؤں بڑا پنڈ لوٹیاں (موجودہ نام بڑا پنڈ جرپال) میں پیدا ہوا اور 6 مئی 1973 کو فوت ہوا۔ وہ محض 37 برس کی عمر میں الوداع کے ساحلوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ پہلے کم عمر ہندوستانی شاعر ہیں جن کو 1967 میں ساہیتا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جب وہ گیارہ برس کا تھا تو اس کو بھیانک ہجرت کا سامنا کرنا پڑا اور اپنا گاؤں چھوڑ کر بٹالہ جا بسا۔ جس طرح شو کمار نے انسانی جذبات کی عکاسی کی ہے اس کی نظیر کم کم ملتی ہے۔ وہ اداس موسموں کا شاعر تھا۔ وہ دکھ کے صحرا میں رہتا تھا۔ اس کی زندگی دکھوں اور تلخیوں سے بھری پڑی تھی۔ جابجا ان کی شاعری میں دکھوں اور دردوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

میرے گیت وی لوک سنیندے نیں
نالے کافر آکھ سدیندے نیں
میں درد نوں کعبہ کہہ بیٹھا
رب ناں رکھ بیٹھا پیڑاں دا
کجھ مان سی سانوں عشقے دا
کجھ دعوا وی سی پیڑاں دا

ادرو ترجمہ (میرے گیت بھی لوگ سنتے ہیں، اور ساتھ مجھے کافر بھی کہتے ہیں، میں نے درد، دکھ اور تکلیف کو کعبہ کہہ دیا اور زخموں تکلیفوں اور پریشانیوں کا نام رب رکھ دیا، مجھے اپنے عشق پر فخر ہے اور اپنی تکلیفوں پر بھی ناز ہے۔ )

شو کمار بٹالوی کی شاعری پڑھنے کے بعد ذہن میں سب سے پہلے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ کس طرح محبت کے دروازے پر نازک سی دستک دے کر دھڑکتے دل کے ترانے لے کر، ہجر و فراق کے کوچے میں داخل ہوتا ہے اور اداس صدائیں لگاتے چلا جاتا ہے۔

پھر اس کے بعد دکھ، درد کا کالا لباس پہن کر افسردہ خاموش چراہوں میں احتجاج کرتا سنائی دیتا ہے
مائے! نی مائے!
میں اک شکرا یار بنایا
اوہدے سر تے کلغی
تے اوہدے پیریں جھانجھر
تے اوہ چوگ چگیندا آیا
نی میں واری جاں!

اردو ترجمہ ( ماں، پیاری ماں، میں نے ایک پرندے کو دوست بنایا، اس کے سر پر کلغی تھی اور اس کے پاؤں میں گھنگھرو تھے اور وہ دانہ دنکا کھاتے ہوئے میرے پاس آیا، میں اس پر قربان جاؤں )

غماں دی رات لمی اے
یاں میرے گیت لمے نیں
نہ بھیڑی رات مکدی اے
نہ میرے گیت مکدے نیں

اردو ترجمہ ( یا توں ہجر، غم کی رات طویل ہے یا پھر میرے گیت طویل ہیں، بدقسمتی سے نہ منحوس رات ختم ہوتی ہے نہ میرے گیت ختم ہوتے ہیں )

طبقاتی فرسودہ نظام کے خلاف نعرے لگاتا اور غیر طبقاتی نظام کے کے گن گاتا سنائی دیتا ہے۔ شو کمار بٹالوی بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بھی طبقاتی نظام کے خلاف بات کرتا ہے۔

شو کمار غیر معمولی شاعر تھا۔ ان کی شاعری کی خصوصیات یہ ہے کہ وہ اسلوب کو شگفتہ اور انوکھا برتتا ہے۔ وہ پرانی روایت کی شاہراہوں سے ہو کر نئی روایت کی شہراہوں میں سفر کرتا ہے۔ شو کمار بٹالوی کی تشبہیں، استعارے، اور علامتیں بہت منفرد اور معنی خیز ہوتیں ہیں۔ شو کے خواب انوکھے، علامتیں اچھوتی ہوتیں ہیں۔ استعاروں میں زندگی کے راز ہیں۔ وہ الفاظ کو کھرچ کھرچ کے نکالتا ہے۔ پھر وہ شاعری کے کورے کاغذوں پر مصوروں کی طرح رنگ بھرتا اور سجاتا ہے۔ ایک مثال ملا حظ کیجیئے۔

کجھ رکھ یاراں ورگے لگدے
چماں تے گل لاواں
اک میری محبوبہ واکن
مٹھا اتے دکھاوں
کجھ رکھ میرا دل کردا اے
موڈھے چک کھڈاواں
کجھ رکھ میرا دل کردا اے
چماں تے مرجاواں

اردو ترجمہ ( کچھ درختوں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں اور ان کو گلے لگانا چاہتا ہوں کیوں وہ درخت میرے دوست جیسے ہیں، ایک درخت میرے محبوب جیسا ہے وہ درخت بہت شریں اور تشنگی والا ہے۔ کچھ پیڑوں کو دل کرتا ہے ان کو اپنے کندھے پر اٹھا کر ان سے کھیلوں کچھ پیڑوں کو بوسہ دے کر میں مر جاؤں۔ )

شو کی شاعری میں دیہاتی منظر نگاری جگہ جگہ جھلکتی دکھائی دیتی ہے اور فطرت کے مناظر کی بھرپور فضا ملتی۔

تینوں دیاں ہنجواں دا بھاڑا
نی پیڑاں دا پراگا بھن دے
بھٹھی والیے!
بھٹھی والیے، چنبے دیے ڈالیے
نی دکھاں دا پراگا بھن دے
بھٹھی والیے!
ہوگیا کویلا مینوں
ڈھل گئیاں چھاواں نی
بیلیاں چوں مڑ آئیاں
مجھیاں تے گاواں نی
پایا چڑیاں نے چیک چہاڑا
نی پیڑاں دا پراگا بھن دے۔

اردو ترجمہ ( ارے بھٹی والیے میرے تھوڑے سے زخموں کو بھون دو، جلدی کرو میرے زخم کو بھون دو، مجھے دیر ہوتی جا رہی ہے سورج غروب ہو رہا ہے جانور، پرندے اب اپنے گھروں کو جا رہے ہیں، جلدی کرو میرے زخموں کو بھون دو)

شو کمار بٹالوی نے پنجابی شاعری میں اپنی لفظیات اور حسیات کے پیمانے رومانوی رکھے اس کے باوجود ان کا کلام عصر حاضر کے مسائل سے جڑا رہا۔ ان کی تمثیلیں دیکھی جائیں تو یہ امیجری بالکل نئی اور اچھوتی پکچر گیلری ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔ چھوٹی بحر کی خوبصورت پیرائے میں لکھی گئی غزلیں، نظمیں، گیت اور منفرد استعارے، تشبیہیں اور علامتیں ان کی شاعری کو دیگر ہمعصر شعرا، اوپاش، سرجیت پاتر، پروفیسر موہن سنگھ وغیرہ وغیرہ کے اسلوب کلام سے ممتاز کرتی ہے۔

شو کمار بٹالوی طبقاتی نظام سے بھاگنا چاہتا تھا، وہ زندگی کی بوسیدہ ریت رواجوں سے فرار چاہتا تھا۔ وہ شراب کا عادی تھا۔ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا۔ کثرت بادہ نوشی کی سبب انہیں جگر کے کینسر نے لپک لیا اور یہی ان کی موت کا سبب بنا۔ وہ جوانی کی حسین رتوں میں مرنا چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہو گیا۔ شو نے کہا

اساں تاں جوبن رتے مرنا
جوبن رتے جو وی مردا
پھل بنے یاں تارا
جوبن رتے عاشق مردے
یاں کوئی کرماں والا۔

اردو ترجمہ ( میں تو جوانی میں مرؤں گا، جو بھی جوانی میں مرتا ہے یا تو وہ پھول بنتا ہے یا پھر تارا۔ جوانی میں وہی مرتے ہیں جو عشق والے ہوتے ہیں یا نصیبوں والے )

چڑدے پنجاب میں شو کمار بٹالوی پر بہت زیادہ کام ہوا اور سب سے زیادہ سراہا اور گایا گیا ہے۔ افسوس کہ لیندے پنجاب میں شو کی شاعری پر زیادہ مکالمہ نہیں ہوا۔ شکر گڑھ کے گمنام شاعر عامر تیاگی، شو کمار بٹالوی کی شاعری پر کافی دسترس رکھتے ہیں۔ وہ شو کمار کی شاعری کے ناقد بھی ہے اور ماہر بھی۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ جتنا وہ شو کمار کے فن اور شخصیت پر بات کر سکتے ہیں لیندے پنجاب میں اس کی نظیر کم ملتی ہوگی۔

شو کمار بٹالوی کا پہلا مجموعہ کلام 1960 میں ”پیڑاں دا پراگا“ کے نام سے شایع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کی مشہور تصانیف درج ذیل ہیں۔ مینوں ودا کرو، غزلاں تے گیت، آرتی، لاجونتی، آٹے دیاں چڑیاں، لوناں (نوجوان عورت کے جذبات) ، میں تے میں، مرچاں دے پتر، دردمنداں دی آہیں اور برہاں دا سلطان قابل ذکر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments