رواداری کے فخر سے تفرقے کی شرمندگی تک


\"\"یہ کوئٹہ کا ایک سکول ہے اور دو ہزار تیرہ کا سن ہے۔ بچوں کے والدین، ایک ایک کر کے کلاس میں آتے ہیں اور اپنے اپنے بچے کی تعریفیں سن کر باہر چلے جاتے ہیں۔ اکثریت ان بچوں کی ہے، جن کے والد یہاں ایک سال کے لئے آئے ہیں اور کورس کر کے چلے جائیں گے۔

اپنی باری آنے پہ میں اپنی بیٹی کی تعریفیں سنتا ہوں۔ یہ پدری تشکر کا ایک لمحہ ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ اسے تعلیم دینے والی کی اپنی بیٹی بھی اسی سکول میں پڑھتی ہیں۔ یہ سماجی اطمینان کا ایک لمحہ ہے۔ بات آگے بڑھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان ماں بیٹیوں کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ یہ تنظیمی انبساط کا ایک لمحہ ہے۔ کوئٹہ میں سہولیات کی عدم دستیابی کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بڑی مشکل سے اپنی بیٹی کے لئے قاری ملا ہے کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ انن کی بیٹی قران پڑھے۔ یہ مذہبی افتخار کا ایک لمحہ ہے۔ اور اسی لمحے کے زیر اثر میں دریافت کرتا ہوں کہ آپ کی بیٹی قرآن کیوں پڑھتی ہیں۔ جواب ملتا ہے۔ سر آپ کے بچے غلطی کریں تو یہ بھول چوک ہوتی ہے مگر ہمارے بچے زیر زبر بھول جائیں تو ہمارے گھر جل جاتے ہیں اور لوگوں کی تسلی نہیں ہوتی۔ یہ ذاتی شرمندگی کا ایک لمحہ ہے۔ جو ٹلنے سے انکاری ہے۔

گوجرانوالہ کا ایک کالج ہے، گورنمنٹ کالج اور انیس سو بیاسی کا سال ہے۔ سندھو صاحب کا لڑکا فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوا مگر میڈیکل کالج نہیں جا سکا کیوں کہ بڑے سندھو صاحب کلاس فور ملازم تھے اور ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ لڑکا ہمت نہیں ہارا اور ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے بی ایس سی کر لی۔ وسائل جوں کے توں رہے، مسائل البتہ بڑھ گئے۔ سن ستاسی مکمل ہوا تو ایم اے بھی پورا ہو گیا۔ مقامی سکول میں سائنس ٹیچر کی نوکری نکلی، سندھو صاحب کے لڑکے نے درخواست دی، خداوند چوپان تھا ، نوکری مل گئی۔ انیس سو چھیانوے میں، سندھو صاحب کے اس لڑکے نے، جو اب خود سندھو صاحب بن چکا تھا، جب ایک فیصلہ کیا تو پتہ لگا کہ نو سال اٹھارہ دن کے تدریسی عرصے میں انہوں نے ایک چھٹی بھی نہیں لی۔

مارچ انیس سو چھیانوے میں سندھو صاحب نے دو دوستوں کو ساتھ ملایا اور اپنا سکول کھول لیا۔ ستانوے تک سکول کا کام بڑھا تو ایک اور کیمپس بھی بنا لیا۔ دو ہزار آٹھ تک سکول میں حفظ قرآن سنٹر بھی کھل گیا۔ وقت گذرتا جا رہا تھا۔ مزاج بدلتے جا رہے تھے۔ ایک دن سندھو صاحب نے اپنے وائس پرنسپل کو بلوا کر کہا کہ آج سےدرس قرآن باقاعدہ کلاس کی صورت میں پڑھایا جائے گا۔ سکول سے تھکے ہارے لوٹتے تو اپنے بچوں کو پڑھانے لگ جاتے۔ ان کا عزم تھا کہ ان کے بچوں کی تعلیم کے راستے میں کوئی معاشی رکاوٹ نہ آئے۔

آج سندھو صاحب کی ایک بیٹی فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے، دوسری، کمپیوٹر سائنس میں ایم فل کر رہی ہے، تیسری ایف ایس سی کے نتیجے کا انتظار کر رہی ہے، جبکہ ان کا ایک لڑکا اسی میڈیکل کالج میں پڑھ رہا ہے جس میں وہ نہیں جا سکے اور دوسرا امریکہ میں ماسٹرز کر رہا ہے۔

مئی دو ہزار پندرہ میں سندھو صاحب کو گوجرانوالہ کے سی آئی اے پولیس سٹیشن سے فون آیا اور انہیں دفتر آنے کے لئے کہا گیا۔ سندھو صاحب نے سوچا کہ یا تو کسی بچے کے ویزا کی انکوائری ہو گی یا کوئی داخلہ کا معاملہ ہو گا۔ پولیس سٹیشن پہنچنے پہ ان کا موبائل ان سے لے لیا گیا اور انہیں ایک الگ کمرے میں ایک کرسی پہ بٹھا دیا گیا۔ ایک آدھ بار چائے بسکٹ بھی دیے گئے لیکن کمرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی۔ وہ پہلی رات تھی جو سندھو صاھب نے ایک کرسی پہ کاٹی۔

اگلی شام انہیں ایک بند گاڑی میں ایک جگہ لے جایا گیا۔ گاڑی رکی تو اہلکار نے انہیں باہر نکلنے کا اشارہ کیا ۔ فارم بھرتے وقت سندھو صاحب کو پتہ لگا کہ ان پہ دو سو پچانوے سی کا مقدمہ درج ہے۔
تین دن کے بعد سندھو صاحب کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ وہ کہاں ہیں۔ عدالت کا راستہ چلتے چلتے چوبیس اگست دو ہزار پندرہ آ گئی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر دو میں جج صاحبہ نے کمرے میں آتے ہی فرمایا کہ میں کئی بار کورٹ نمبر 1 والوں کو کہہ چکی ہوں کہ مجھے یہ توہین عدالت والے مقدمے مت بھیجا کریں۔ نبیؐ کی حرمت پہ میری جان بھی قربان ہے۔ علم ہوا کہ ایک غیر تصدیق شدہ ویڈیو کلپ کی بنیاد پر سندھو صاحب پر مقدمہ بنایا گیا ہے جس کے متعلق وہ لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے جعلسازی قرار دیتے ہیں مگر پنجاب فورینسک سائنس اتھارٹی والے کہتے ہیں کہ وہ اس کا تجزیہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔

تیرہ مہینے تیرہ دن کیس چلنے کے بعد عدالت نے سندھو صاحب کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ پہلے پہل خاندان والوں نے ساتھ دیا پھر کچھ ایسے فون آئے جن کے بعد خاندان والوں نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اب یہ لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر جان بچاتے پھر رہے ہیں۔

سندھو صاحب نے تیس سال تک گوجرانوالہ میں تعلیم کی شمع روشن رکھی۔ ان تین دہائیوں میں اگر ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں بچے تو ان کے شاگرد رہے ہوں گے۔ تعجب کی بات ہے کہ آج جب ان کے اہل خانہ ایک روٹی، ایک چھت اور ایک گولی کی تکون میں بھاگ رہے ہیں تو وہ سب لوگ کدھر ہیں۔

شائد کوئی اس لئے نہیں بولتا کہ انجم ناز سندھو صاحب ایک مسیحی ہیں۔

یہ قومی تاسف کا ایک لمحہ ہے جو اب ہمارا مقدر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments