موجودہ حکومت اور اس کے سکینڈل



تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے۔ اسے اوپر تلے کئی بحرانوں اور سکینڈلز کا سامنا رہا ہے۔ ادویات، چینی، آٹا اور پٹرولیم کے گھپلوں کے بعد آج کل راولپنڈی رنگ روڈ کا معاملہ حکومت کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ جسے نہ تو وہ نگل سکتی ہے۔ اور نہ ہی اگل سکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے کا اندیشہ ہے۔ اس کے علاوہ تبدیلی سرکار کی اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

2017 میں نون لیگ کی حکومت نے راولپنڈی اسلام آباد کی سڑکوں سے ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لئے 40 کلومیٹر لمبی ایک متبادل سڑک کی تیاری کا منصوبہ بنایا تھا۔ جس کے لئے 40 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا۔ یہ منصوبہ تبدیلی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد سرد خانے کی نظر ہو گیا۔ کیوں کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں روڈ نیٹ ورک جیسے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے کبھی شامل نہیں رہے۔ یہ حکومت پناہ گاہیں قائم کرنے، لنگر خانوں اور ٹرکوں کے ذریعے لوگوں کو کھانا مہیا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔

مگر راولپنڈی اور ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والی بعض با اثر حکومتی شخصیات جن کے اپنے مفادات تھے۔ ان کے لئے مگر یہ سڑک سونے کی کان کا درجہ رکھتی تھی۔ لہذا اس منصوبے کو پراسرار انداز میں دوبارہ شروع کرنے کی تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا۔ ابتدائی طور پر جس نقشے اور لاگت کی منظوری دی گئی تھی۔ اس میں 26 کلومیٹر کا اضافہ کر کے اسے اٹک تک بڑھا دیا گیا۔ تنقید نگاروں کے مطابق راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے کی وجہ سے اسلام آباد کی متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان جو حکومتی شخصیات کی رشتے دار تھیں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔

ایک بڑے اخبار کے کالم نگار نے اپنے ایک کالم میں اس منصوبے کو پانامہ سے بڑا سکینڈل قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیلات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ موصوف نے کابینہ کے دو افراد (زلفی اور غلام سرور) ، سرکاری افسران اور سابق فوجی افسران کا ذکر بھی کیا ہے۔ جنہوں نے اس منصوبے کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور اربوں روپے کا چونا عام لوگوں کو لگانے میں اپنا کندھا فراہم کیا۔ بقول لکھاری مجوزہ منصوبے کو توسیع دیے جانے کے بعد اسلام آباد کی کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالکان نے کوڑیوں کے بھاؤ خریدی ہوئی زمین کی فائلیں کئی گنا مہنگے داموں بیچ ڈالیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان عناصر نے اربوں روپوں کی دیہاڑیاں لگائیں۔ کالم نگار نے کمشنر راولپنڈی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو بنیاد بنا کر اپنا کالم تحریر کیا ہے۔ اور اس رپورٹ کو ایک جامع رپورٹ قرار دیتے ہوئے متعلقہ کمشنر صاحب کو تحسین کا مستحق قرار دیا ہے۔

محترم کالم نگار آگے چل کر لکھتے ہیں کہ عمران خان ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے۔ اور اپنے آپ کو اور ملک کو کرپشن مافیا کے چنگل سے بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا وزیراعظم جس کی ناک کے نیچے کئی تحقیقاتی ادارے کام کرتے ہوں۔ جو ان کو پل پل کی خبریں پہنچانے پر مامور ہوں۔ ان درجنوں اداروں اور حکام کی موجودگی میں وزیراعظم کا بے خبر رہنا باعث حیرت بھی ہے اور باعث غفلت بھی۔

مجوزہ رنگ روڈ کی الائنمنٹ اور بجٹ کیسے اور کس کی منظوری سے تبدیل کیا گیا۔ اور اس کے پس پردہ کیا مقاصد تھے۔ ان سے پردہ اٹھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا ترقیاتی منصوبہ تیار کیا جاتا ہے۔ پہلے اس کو قومی اور صوبائی لیول پر منسٹری آف پلاننگ کے ایک ادارے پی ایس ڈی پی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جو تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری دیتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے ایک پریس بریفنگ میں فرمایا تھا۔ کہ کسی انجنیئر نے وزیراعظم کو کال کر کے رنگ روڈ کے مضمرات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اگر ان کو باہر سے خبر نہ ملتی تو وہ کیسے جان سکتے کہ ان کا دفتر کیا گل کھلا رہا ہے۔

ایک اور کالم نگار نے زلفی بخاری کے سیاسی کردار کے بارے میں چند ایسی باتیں لکھی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان پر کچھ انویسٹمنٹ کی تھی۔ اسی لئے راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے سے انہوں نے مالی فوائد حاصل کیے۔ ایک تیسرے کالم نگار نے اپنے مضمون میں وفاقی وزیر غلام سرور اور زلفی بخاری کو کلین چٹ دیتے ہوئے اس سکینڈل کو دونوں وزراء کے خلاف سوچی سمجھی سازش قرار دے دیا۔ بقول ان کے ان دونوں شخصیات کے خلاف حکومت کے اندر بیٹھا ہوا ایک ٹولہ سرگرم ہے۔ جو ان کی ساکھ خراب کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو من گھڑت اور جھوٹ کا پلندا قرار دے کر اسے مسترد کر دیا ہے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہر ایک اپنے ذہن یا اندر کے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے کاغذوں کو کالا کرنے میں مصروف ہے۔ قلم کی حرمت کا کسی کو خیال نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کو ملک کے مفاد کا خیال ہے۔

عوام یہ سارے معاملات کو دیکھ کر اپنی جگہ پریشان ہیں کہ ارباب اختیار کیا کر رہے ہیں اور کالم نگار کیا لکھ رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے راگ الاپ رہا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں سچ کا سراغ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔

مگر یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہر دوسرا شخص اس پیارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جس کو جتنا موقع ملتا ہے وہ اس سے اتنا ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ حکومت وقت نے اب تک کی کارکردگی سے یہ بات ثابت کی ہے۔ کہ واقعی اس میں حکومت کا بوجھ اٹھانے کی مزید سکت نہیں ہے۔ اور نہ ہی اہلیت ہے۔ کیوں کہ اس حکومت کو مافیاز نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اور وہ اپنی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم کو صرف شریف خاندان ہی نظر آتا جس کو وہ چور سمجھتے ہیں۔ ان کے اردگرد کے بعض لوگ جن کے نام ایف آئی اے اور نیب کی فائلوں میں درج ہیں۔ خان صاحب کا دھیان ان کی طرف کیوں نہیں جاتا

اگر خان صاحب مدینہ کی ریاست کے نام لیوا ہیں تو انصاف کا نظام بھی اسی طرح کا نافذ فرمائیں۔ جیسے خلفائے راشدین کے ادوار میں رائج تھا۔ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق جو شخص بھی دس آدمیوں کے معاملات کا نگران بنا ہو اسے قیامت کے دن اس حالت میں لایا جائے گا۔ کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن کے طوق کے ساتھ بندھے ہوں گے۔ یہاں تک کہ یا تو اسے اس کا انصاف آزاد کردے گا یا ظلم ہلاک کر ڈالے گا۔ لہذا ارباب اقتدار کو اسلامی احکامات کی روشنی میں انصاف کا ترازو برابر رکھنا چاہیے۔ اسی میں ہی سب کی بھلائی اور مملکت کی بہتری ہے۔

اگر شروع میں ہی جب ادویات کا سکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔ اس وقت کے وزیر صحت عامر کیانی کو احتساب کی چھلنی سے گزار دیا جاتا تو باقی لوگوں کو چوری کرنے کی جرآت ہی نہ ہوتی۔ بدقسمتی سے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اور نہ مستقبل میں موجودہ حکومت کچھ اچھا کر گزرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ جس طرح ملک کے حالات دن بدن خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں عام لوگوں کے لئے ستاں خیراں کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments