سیکیورٹی کے غم


ایک وقت تھا ہم سیکیورٹی اور سیکیورٹی گارڈ کی اہمیت سے ناواقف تھے۔ اسکول میں ہماری ایک دوست ہوتی تھی۔ پہلی دفعہ اس کی زبانی گارڈ کا لفظ سنا۔ وہ جب بھی وقت ملتا۔ اپنے گھر کے لیے سیکیورٹی کی اہمیت بیان کرنا نہ بھولتی۔ ہم جیسی دو تین اور انتہائی دل جمعی سے سیکیورٹی کے متعلق معلومات سنتیں۔ ہمیں رات کے پچھلے پہر ہونے والی وارداتوں کی کہانیاں سننے کا شوق ہو چلا تھا۔ جب ایک نامعلوم سایہ جو رات بارہ بجنے کی دیر ہوتی تو چھت پر بھاگنا شروع کر دیتا۔ اس کے بھاری قدموں کی دھم دھم سے ہمارے معصوم دل دہل جاتے۔ وہ نامعلوم سایہ ہمیشہ چھت پر ہی بھاگتا دوڑتا رہا۔ بے چارے کی زندگی کا آدھا حصہ چھت پر دوڑیں لگاتے گزر گئی۔

پھر وہ ان گنت کتوں کے بھونکنے کی ڈراؤنی آوازیں جو رات دو بجے کے بعد سنائی دیتیں۔ یوں لگتا کتے بھونکتے ہوئے گھر کا گیٹ پھلانگ کر آ جائیں گے اور ہمیں کچا چبا لیں گے۔

ایک جب بارشیں اور آندھیاں خوب زور و شور سے چلتیں۔ طرح طرح کی خوفناک آوازیں ہمارا سکون تباہ کرتیں۔ ہماری دوست کا کہنا تھا۔ وہ ہر طرح کے ڈر و خوف سے آزاد ہے۔ چاہے آدھی رات کو چھت پر کوئی بھاگتا پھرے، باہر کتے بھونکتے رہیں یا آندھی طوفان میں ہولناک آوازیں آتی رہیں۔ کیونکہ ان کے گھر کے باہر گارڈ ہوتا ہے جو ہر طرح کے چور اور بلا کو اپنی چھڑی سے بھگانے کہ طاقت رکھتا ہے۔ ہم ہمیشہ اپنی اس دوست کے قصے کہانیوں سے مرعوب رہے۔

کہانیاں سنتے ہمیں بھی اپنے گھر کی سیکورٹی کی فکر لاحق ہونے لگی۔ لیکن گھر بات کرنے کا فائدہ نہیں تھا۔ حالاں کہ ہمارے پاس سیکورٹی کے لاتعداد فوائد جمع ہو چکے تھے۔ ہم خواب میں اپنی دوست کے گھر کی طرح اپنے گھر کے باہر ایک بہادر اونچا لمبا اور جنگ جو سا گارڈ دیکھنے لگے۔ جس کے پاس جادو کی چھڑی ہوتی۔ ایک طرف دوست کہانی سنا رہی ہوتی دوسری جانب ہم خیالی پلاؤ پکانے میں مگن ہوتے۔

کاش ہمارے گھر کے باہر بھی رات کو پہرے دینے ایک گارڈ ہوتا۔ جو ہمارے گھر کی حفاظت کرتا۔ ہم دو تین سہیلیاں اپنے گھر گارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ناک کٹتی محسوس کرتیں۔ اب ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ یہ روز روز کی گارڈ کہانی سننے کا تب مزا آتا جب ہم بھی تسکین دل کی خاطر شیخیاں بگھارتے۔ خیر ہمارے نصیب ٹھنڈے تھے موقع نہیں مل سکا۔ نہیں تو ہم بھی سیکیورٹی گارڈ کی بہادری کے ایسے قصے سناتے کہ دوست کے نقش قدم پر چلنے کا حق ادا کرتے۔

عرصہ ہوا ہمارا اس کم بخت سیکیورٹی سے دل اچاٹ ہو چلا ہے۔ کالج لائف میں بھی ایک سے بڑھ کے ایک سیکورٹی گارڈ دیکھنے ملے۔ جن میں سے کچھ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہر آتی جاتی لڑکی کو گھوریاں ڈالنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے۔ کچھ شاطر قسم کے کمائی کے اصول جاننے والے اپنی بتیسی نکالتے باہر جلدی جانے والی لڑکیوں سے پیسے بٹورتے۔ کچھ انتہائی شریف النفس اور سادہ مزاج لڑکیوں میں انکل شریف بنے پھرتے۔ جن لڑکیوں کے ڈرائیور ان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتے ان کو خصوصی پروٹوکول دیتے۔ اور ان سے حال احوال بھی دریافت فرماتے۔

ایسے ہی ایک سادہ مزاج انکل ہمیں شارٹ کورسز کے لیے در بدر دھکے کھاتے دکھائی دیے۔ ایک وقت تھا ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں شارٹ کورسز کے نام پر پیسے اور وقت برباد کرنے کا شوق ہوا۔ اس شوق میں ہماری ایک کزن بھی ساتھ ہوتیں۔ ہم بہت سوچ سمجھ کر کسی انسٹیٹٰوٹ میں قدم رکھتے۔ سب سے پہلے گیٹ پر کھڑے گارڈ کا جائزہ لیتے۔ اگر وہ شریف دکھائی دیتا تو ہم آگے قدم بڑھاتے۔ ہمارے نزدیک شرافت کا معیار بھی اپنا تھا۔ جو شکل سے بہت مسکین اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے ملتا۔ اس کی شرافت کے ہم قائل ہو جاتے۔

ایک دفعہ ہم بہت دل جمعی سے ماسٹر شیف بننے کی مراحل طے فرما رہے تھے کہ کچھ لوگ بلڈنگ خالی کروانے چلے آئے۔ وہاں کافی ہنگامہ ہوا۔ لیکن اس سارے شور شرابے میں ہمیں گارڈ انکل پر سخت غصہ آیا۔ سب نے جاتے ہوئے انکل کو کافی سنائیں آپ کے یہاں ہونے کا کیا فائدہ۔ جب کسی کو اندر آنے سے روک نہیں سکتے۔

آگے سے انکل دانت نکالتے رہے اور ہم سب اپنا خون جلاتے آ گئے۔

اب کوئی ہمیں سیکیورٹی کے فوائد گنواتے ہے تو ہم اتنا ضرور کہتے ہیں۔ بھئی ہم نے جہاں بھی سیکیورٹی دیکھی قحط کی ماری دیکھی۔ اگر اتنا ہی شوق ہو چلا ہے تو کچھ سیکیورٹی کو کھلانا پلانا بھی ضرور۔ کیونکہ عموماً یہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سیکیورٹی اپنی جان کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہوتی وہ تمہاری حفاظت کیا کرے گی۔ بہتر ہے پہلے اس کی اچھی خوراک کا دھیان رکھو۔ ہم تو اپنے فیفی اور کینڈی کی سیکیورٹی سے مطمئن ہیں۔ جو کھایا پیا حلال کرتے ہیں۔

دور سے قدموں کی آہٹ سن کر ایسا بھونکنا شروع ہوتے ہیں۔ کہ ہمارے پڑوسی توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔ آج یہ باتیں ہمیں اپنے نازک مزاج پڑوسیوں کے گارڈ کو دیکھتے یاد آ گئیں۔ جس کو دیکھ کر ہمارا سیکیورٹی سے رہا سہا ایمان بھی اٹھ گیا۔ انہیں ہمارے معصوم کینڈی، فیفی ایک آنکھ نہیں بھاتے اور ہمیں ان کے تنکا سے سیکیورٹی گارڈ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments