فلسطین، مسلم امہ اور حق گوئی


اس حمام میں سب ہرگز ننگے نہیں۔ تعداد میں کم ہی سہی لیکن حق کی آواز اٹھانے والے، مظلوم کی آہوں اور پکار کی آواز بننے والے اور ظالموں کے خلاف قلم کی بغاوت کرنے والے اب بھی لوگوں کے شعور میں جہاد بالقلم کر رہے ہیں۔ چاہے اسے لبرل کہے، آزاد خیال، بائیں بازو والے یا کوئی اور نام دے۔ کم از کم فلسطین پر اسرائیلی جبر، بربریت اور ظلم کے خلاف انہوں نے اپنا فرض دوسرے شدت پسندوں اور اقتدار پرستوں کے برخلاف بہترین طور پر نبھایا ہے۔

او آئی سی کا پلیٹ فارم تو تقریری محاذ بن چکا۔ ذاتی مفادات اور فرقہ وارانہ اختلافات نے اس کے حیثیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ مقابلے کے رنگ میں اترنے سے پہلے ہی وہ ہمت ہار چکی ہے۔ دوسری طرف 41 اسلامی ملکوں کی دفاعی تنظیم کو ہوا میں تلواریں لہرانے سے فرصت کہاں۔ ان کی توانائی تو فروعی، مسلکی اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہونے کے لیے محفوظ ہے۔ رہ گیا عرب لیگ، اس کے لیڈروں کو کاروباری مفادات سے فرصت ملے تو فلسطین کے مسلے پر جامع پالیسی بنائے۔ ان کے لئے تو فلسطینی رہنما شیخ احمد یاسین کے یہ الفاظ ہی کافی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ، ہم سمجھتے رہے کہ غلام فلسطین ہے۔ وقت آیا تو یہ کھلا کہ غلام تو عرب اقوام اور حکمران ہیں۔ جن کے پرچم آزاد فضاؤں میں پھڑپھڑاتے ہیں۔ فلسطین تو آزاد ہے ولولہ اور آرزو کھوٹ کھوٹ کے بسی ہوئی ہیں

سابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈ امائر کا طعنہ عرب افواج کے منہ پر طمانچہ ہے جب اس نے مسجد اقصی پر حملے کے بعد کہا تھا کہ جس دن مسجد اقصی میں ہم نے آگ بھڑکائی تو میں پوری رات جاگتی رہی اس خوف کے ساتھ کہ چاروں اطراف عرب افواج اسرائیل پر چڑھ دوڑے گی۔

ماشا اللہ: مسلم امہ میں لاتعداد جہادی تنظیمیں ہیں جن کا طوطی دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں بولتا ہے۔ جنہوں نے غیر مسلموں کے چھکے چڑھائے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان، نائجیریا، نیروبی، شام، میں وہ کفار کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن فلسطینی جو کہ اپنے ہی ملک میں اسرائیلی استبدادیت کا شکار ہے۔ جہاں پر قبلہ اول پر یہودی بم برساتے ہو۔ وہاں کے حالات پر ان کے دل موم بننے سے قاصر ہے۔

عاصمہ شیرازی صاحبہ نے کیا پتے کی بات کہی ہے۔
ہ‏حیران کن بات ہے کہ لبرل اور ترقی پسند طبقہ سڑکوں پر ہے اور مذہبی اور قدامت پسند خاموش۔ کل اسلام آباد، لاہور، کراچی کی سڑکوں پر ’خونی لبرلز‘ قرار دیے جانے والے تو فلسطین کی حمایت میں جلوس نکالتے دکھائی دیے لیکن مذہب اور اسلام پر مر مٹنے کے دعویدار کہیں نظر نہیں آئے۔ تھوڑا سا اور اس بات کو مسلم امہ تک لے کے حقائق سے پردہ اٹھا کر بات کی جائے تو حیرانی اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی آئی ایس آئی ایس، طالبان، القاعدہ، بوکو حرام، اور دوسری تنظیمیں کیوں خاموش ہے (کیا دال میں کچھ کالا تو نہیں ) ۔

ان تنظیموں کا اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد نہ صرف فلسطینیوں کی آزادی کی راہ ہموار کر سکتا ہے، بلکہ افغانستان میں امریکی جارحیت کے خلاف راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ، شام میں مسلمانوں کی دلجوئی اور کشمیر کی آزادی میں بھی معاون ثابت ہوں گے؟ مزید براں، ان اقدامات سے سوئے ہوئے عرب حکمران بالخصوص اور دوسرے مسلمان حکمران بالعموم خواب غفلت سے بیدار ہو سکتے ہیں اور مزید یہ کہ مسلمان غزوہ ہند کے آنے سے پہلے اتحاد اور اتفاق میں سمو چکے ہو گے۔ اور پھر کیا ہوگا سارے دنیا پر ہماری حکمرانی ہوگی۔ اور ممتاز سکالر، عالم اور دفاعی تجزیہ نگار، زید حامد کا خواب بھی پورا ہوگا۔

منافقت کے اس بدترین دور میں فلسطین پر اسرائیلی بربریت بھت سے راز فاش کر رہا ہے۔ مسلمان حکمران اور جہادی تنظیمیں صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ قلم حق کو زندہ رکھنے والے صحافی، انسانی حقوق کے علمبردار لبرل، اور آزاد خیال مسلمانوں کا پلڑا اس ظلم کے خلاف مسلمان حکمرانوں اور ان تنظیموں سے، جو بزور طاقت مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے کا پرچار کرتے ہیں، سے ہزار گناہ بہتر ہے۔ کیا ہے اچھا ہو باقی بھی غفلت اور منافقت کی گٹھری نیند سے اٹھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments