پابی کی ڈائری


تہجد کی ادائیگی کے دوران آنکھ لگ گئی۔ کشف کا وقت تھا۔ خواب میں کیا دیکھتی ہوں کہ اردوان پاکستان کے دورے پر آئے ہیں۔ ہوائی مستقر پر گارڈ آف آنر کے بعد انہوں نے گھٹنوں کے بل جھک کر خاں صاحب کی بیعت کی اور اعلان کیا کہ آج سے پاکستان کے سارے قرضے ترکی کے ہوئے اور ترکی کے سارے وسائل پاکستان کے۔ اردوان نے نم آنکھوں اور رندھی آواز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد آج کا دن امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا دن ہے۔ آج سے میں نیازی خلافت کی شروعات کا اعلان کرتا ہوں۔ خاں صاحب ہی وہ بطل جلیل ہیں جن کا وعدہ حضرت اوریا مقبول جان کے پیش گوئیوں والے بزرگ ذکر کرتے رہے ہیں۔ اردوان 8 فٹ کی تلوار اور لعل و گہر جڑا تاج لے کر خاں صاحب کی طرف بڑھ رہے تھے کہ کسی نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ دیکھا تو خاں صاحب جناح کیپ، تہبند اور کرتے میں ملبوس مجھے جگا رہے تھے۔ ”اٹھ جاؤ! فجر کا وقت ہو گیا ہے۔“

امامت خاں صاحب نے کی۔ دوسری رکعت میں التحیات کے بعد پھر اللہ اکبر کہہ کر قیام کے لئے کھڑے ہونے لگے تو میں نے کھنگورا مارا، ”اہممم۔ بے جاؤ۔“ جلدی سے بیٹھ گئے۔ نماز کے بعد ورزش کرنے باہر باغ میں چلے گئے۔ میں نے لاکھ کہا کہ ٹراؤزر پہن لیں لیکن خاں صاحب نے کہا کہ جناح کیپ سے قائد اور تہبند سے شاعر مشرق والی فیل آتی ہے۔ ویسے بھی اس وقت سب سوئے ہوئے ہیں تو پردہ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ماشاءاللہ، خاں صاحب شرعی پردے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

نماز کے بعد جائے نماز پر ہی وظائف شروع کر دیے۔ میں چھوٹی سی تھی جب پی ٹی وی پر الف لیلی ڈرامہ آتا تھا۔ اس میں اڑنے والے قالین ہوتے تھے۔ میں سوچتی تھی کہ کاش میرے پاس بھی ایک اڑنے والا قالین ہوتا۔ لڑکپن سے ہی روحانیت کی طرف رجحان ہو گیا۔ سالوں کی منزلیں مہینوں میں طے ہو گئیں۔ زیادہ تر وقت جائے نماز پر ہی گزرتا تھا۔ ایک دن وظائف پڑھتے ہوئے پیاس محسوس ہوئی لیکن اٹھنے کو دل نہ کیا۔ کبھی کسی ملازم سے ذاتی کام کا بھی نہیں کہا تھا۔ اچانک دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر یہ جائے نماز اڑنے لگے اور میں فریج تک جا کر پانی پی لوں۔ یہ خیال آنا ہی تھا کہ جائے نماز زمین سے تین فٹ بلند ہو گیا اور آہستگی سے فریج کی طرف جانے لگا۔ میں روحانی دنیا کے ایسے کمالات دیکھ چکی تھی اس لئے حیرت نہ ہوئی۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ جائے نما زمیری سوچ سے کنٹرول ہو رہا تھا۔ فریج کے عین سامنے جائے نماز رک گیا۔ میں نے فریج کھولا، پانی پیا اور دوبارہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ اس کے بعد یہ معمول ہو گیا۔ ہانڈی روٹی کرتے ہوئے بھی میں جائے نماز پر ہی ہوتی تھی۔ اسی دوران نماز کا وقت ہوتا تو جائے نماز ازخود قبلہ رو ہوجاتا۔ ہانڈی دم پر لگا کر میں نماز پڑھ لیتی۔ اس معمولی سی کرامت کا سوائے گھر والوں کے کسی کو علم نہ تھا۔

وظائف سے فارغ ہو کر ناشتہ تیار کرنے کچن میں پہنچی تو فریج میں انڈے ختم تھے۔ میں نے فوراً ہرقلاطوس کو بلایا اور ڈانٹا کہ رات کو دس انڈے تھے اب ایک بھی نہیں ہے۔ وہ بے چارا شرمندہ ہوا۔ کہنے لگا کہ رات میرے کزن پاپارینا اور جموراتون آ گئے تھے۔ ٹیرس والا گوشت ختم ہو چکا تھا تو ان کے لئے ایگ سیلڈ سینڈوچ بنانے پڑے۔ جملہ ختم کرتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ میں نے ہرقلاطوس کر پچکار کر کہا کہ کوئی بات نہیں۔ یہ لو 100 روپیہ اور لڈن جنرل سٹور سے بھاگ کے انڈے پکڑ لاؤ۔ ہرقلاطوس کے انڈے لانے تک میں نے شہد (اصلی! ) ، پنیر، آم، دہی، خشک میوہ جات، کھجوریں ایک ٹرے میں سجائیں۔ خاں صاحب نے ایک اہم میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر وہی پھٹی ہوئی قمیص والا سوٹ پہن کے بیٹھے تھے۔ میں نے جائے نماز کو زمین پر لینڈ کیا اور جا کر قمیص کا دامن اٹھا کر ان کو دکھایا کہ یہ کپڑے پہن کر میٹنگ میں جائیں گے؟ خاں صاحب نے تسبیح سے سر اٹھا کر میری طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھا اور ہلکا سا تبسم فرما کر دوبارہ تسبیح رولنے لگے۔ میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا اور ساری بات سمجھ آ گئی۔ روحانیت کی پیاسی دو روحوں کا ملاپ اسی لئے ہوا کہ دونوں کے درجات تصوف بلند تھے۔ فقر، استغنا، رحمدلی، انکساری، مہمان نوازی جیسی صفات نے ہی ہم دونوں کو ایک کیا۔ اللہ نے رلائی جوڑی۔

دوپہر کو ہرقلاطوس پھر مسمسی سی صورت بنا کر ایک دم حاضر ہو گیا۔ لجاجت سے بولا، ”باجی، دو تن دوست فیر آ گئے نیں۔ میں فریج چیک کیتا، تھوڑی جئی مٹھیائی پئی اے۔ جے کہوو تے لے لواں؟“ (باجی دو تین دوست پھر آ گئے ہیں۔ میں نے فریج چیک کیا ہے تھوڑی سی مٹھائی پڑی ہے۔ کہیں تو لے لوں؟ ) یہ کہتے ہوئے اس کے سینگ بھی جھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ میں نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا روز روز کی مہمان نوازی شروع ہو گئی ہے؟ یہ سنتے ہی ہرقلاطوس الٹے پیروں گھوم کر واپس جانے لگا۔ میں نے آواز دی تو بھرائی ہوئی آواز میں بولا، ”ہاں جی باجی“ ۔ میں نے اسے مٹھائی لے جانے کی اجازت دی تو خوشی سے پورے شہر کے تین چکر ایک ثانیے میں لگا آیا۔

دوپہر کے کھانے میں دیسی مرغی کا سادہ سا سالن بنایا۔ میری خوراک تو معمولی سی ہے، خاں صاحب بہت شوق سے یہ سالن تناول کرتے ہیں۔ کچن سے فراغت کے بعد لیونگ روم میں آئی تو موتی دروازے سے گچی (گردن) نکال کر دیکھ رہا تھا جیسے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا ہو۔ میری طرف دیکھ کر گردن جھکا لی۔ میں نے کہا کہ اندر آ جاؤ لیکن وہ پرلے کونے میں جو چھوٹی میز ہے اس کے نیچے بیٹھنا، ادھر ادھر نہ گھومنا۔ اس نے گردن اوپر نیچے ہلائی اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا مقررہ جگہ پر جا براجمان ہوا۔

شام ہونے لگی تھی۔ خاں صاحب ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔ میں نے ان کے آنے سے پہلے ہلکی آنچ پر سالن گرم کرنے کے لئے رکھ دیا۔ خاں صاحب کسی میٹنگ میں کچھ نہیں کھاتے نہ کسی کو کھانے دیتے ہیں۔ گھر آتے ہیں ان کو سخت بھوک لگی ہوتی ہے۔ سالن گرم ہونے میں وقت تھا تو میں نے سوچا کہ کچھ نوافل ہی ادا کرلوں۔ نوافل ادا کر کے وظائف میں مشغول تھی کہ خاں صاحب کی آواز آئی، ”شگفتہ! شگفتہ!“ ۔ میں نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کو چپ رہنے کا کہا تاکہ وظیفہ مکمل ہو سکے۔ وظیفہ مکمل کر کے جائے نماز کو ٹیک آف کیا۔

خاں صاحب کہیں نظر نہ آئے۔ لیونگ روم میں نظر دوڑائی تو موتی کی ٹانگیں کاؤچ کے پیچھے نظر آئیں۔ وہاں جا کر دیکھا تو خاں صاحب کاؤچ کے پیچھے بیٹھے تھے۔ آنکھوں میں آنسو۔ موتی بھی ان کو دیکھ کر آبدیدہ تھا۔ میں نے کہا، میں صدقے، کیا ہوا؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ خاں صاحب نے مسمساتے ہوئے اپنا دائیں کان دکھایا، سرخ ہو رہا تھا۔
”اتنی زور سے میرا کان مروڑا ہے۔“ خاں صاحب نے میٹنگ کی روداد ایک جملے میں بیان کر کے موتی کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے۔

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments