گلگت کا پولو گراؤنڈ ہمیشہ جیت جاتا ہے


گلگت شہر میں مشہور راجہ بازار اور پونیال روڈ سے متصل شاہی پولو گراؤنڈ میں سالانہ جلسے کی روایت پرانی ہے جس میں پورے علاقے سے پولو کی ٹیمیں حصہ لیتی آئی ہیں۔ پرانے وقتوں میں ان ٹیموں کی سرپرستی ان کےمتعلقہ راجہ یا معتبرین کرتے تھے اب سرکاری ادارے کرتے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں افسران خاص طور پر میجر کاب کی گلگت اور چترال میں تعنیاتی کے دوران پولو میں دلچسپی اور بذات خود شرکت سے اس کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی۔

گو پولو چوگان اس علاقے میں قدیم دور سے رائج ہے مگر انگریزوں کی طرف سے پولو کا اس علاقے میں فروغ اور سرپرستی بھی ان کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ میجر کاب اس نتیجے پر پہنچے کہ شمال مغربی سرحد پرجنگ کی صورت میں ان کو اس دشور گزار پہاڑی سلسلے میں خوراک اور سامان حرب کی ترسیل میں دشواری پیدا ہوسکتی ہے جو برطانوی فوج کو سو سال پہلے کابل میں پیش آنے والی جیسی صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے۔ میجر کاب نے شندور میں خود پولو کھیلنے کے علاوہ پولو گراؤنڈ بنوایا تاکہ کم از کم پولو کھیلنے والی دو ٹیموں کے بارہ گھوڑے ہر گاؤں میں ہمہ وقت دستیاب ہوں۔

انگریز کے دور سے ہی پولو کے سالانہ جلسے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو پہلے مقامی سطح اور اس کے بعد گلگت میں علاقائی سطح پر منعقد ہوا کرتا ہے۔ لوگوں کی سماجی نفسیات پر بھی اس کھیل کا گہرا اثر رہا ہے۔ لوگ جہاں مقامی ٹیموں کی حمایت میں اپنے مسلکی، قبائلی اور گروہی اختلافات ایک طرف رکھ کر اکھٹے ہوتے ہیں ایسا علاقائی سطح پر بھی ہوتا ہے جب گلگت بلتستان کی ٹیمیں چترال کے مقابلے میں شندور میں کھیلتی ہیں۔ گلگت بلتستان کی بی ٹیم جو شندور کے پاس کے گاوں سے آتی ہے وہ سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ نگر کا درویش، گلگت کا بلبل اور چلاس کا راجی رحمت سب کے ہیرو رہے ہیں۔

گلگت میں منعقد ہونے والے جلسے کا اپنا ایک پروٹوکول رہا ہے۔ انگریزوں کے دور میں تو یہ بھی طے تھا کہ بڑے صاحب (پولیٹیکل ایجنٹ) کے دائیں بائیں کون کون بیٹھے گا اور کون کتنے فاصلے پر براجمان ہوگا۔ آج کل سٹیج پر اگلی رو میں مہمانان کے ساتھ صدر جلسہ جو عموماً ایک اعلیٰ افسر یا منتخب نمائندہ ہوا کرتا ہے بیٹھا ہوتا ہے۔ اگرجلسے میں کسی خاص مہمان نے شرکت کی ہو تو اس کے ہاتھ سے یا پھر صدر نشین خود پولو کی گیند اچھال کر کھیل کا آغاز کرتا ہے۔

حسب روایت جس دن پولو کا کھیل ہونا ہوتا ہے وہ شہر میں جشن کا دن ہوتا ہے۔ اس دن صبح گیارہ بجے گراؤنڈ سے روایتی دھن ‘گلہ وار’ (طبل جنگ) کی آواز آتی ہے۔ گھروں میں لوگ جلدی جلدی اپنے کام نمٹاتے ہیں۔ دفتروں میں اس دن کھیلے جانے والے کھیل کی باتیں ہوتی ہیں شرطیں بھی لگتی ہیں، ہر شخص اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی تعریفوں میں آسمان زمین ایک کر رہا ہوتا ہے یا کارکردگی اچھی نہ ہو تو بے نقط سنا رہا ہوتا ہے۔

جس طرح پاکستان کی سیاست اور دیگر معمولات زندگی میں کرکٹ کی مثالیں دی جاتی ہیں اور کرکٹ کے کھیل کو بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح گلگت میں پولو کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھوڑوں کی پھرتیاں کھلاڑیوں کی چالیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں سب یہاں کی روزمرہ کی زندگی میں بطور ضرب المثل استعمال ہوتی ہیں۔

مقامی موسیقی کے بغیر پولو ادھورا ہوتا ہے۔ بکشوار کی دھن کے ساتھ کھیل کا آغاز ہوتا ہے جس کی یہ تاثیر ہوتی ہےکہ اس کے سنتے ہی کھیل میں شریک کھلاڑی بے چین گھوڑے بے قرار اور دیکھنے والے ایسے جزباتی ہوجاتے ہیں جیسے میدان میں گھوڑے اور کھلاڑی نہیں وہ دوڑ رے ہوں۔ ہر علاقے کی اپنی موسیقی کی دھنیں گلہ وار، بکشوار، پنو وار اور چھشتی وار موقعے کی مناسبت سے بجائی جاتی ہیں۔ جیتنے والی ٹیم اپنے کپتان کے ساتھ جب چھشتی وار، تمل یا الگنی پر رقص کرتی ہے تو اس کے حمایتی بھی میدان میں اتر آتے ہیں اور پورا ہجوم محو رقص ہوتا ہے۔ جیتنے والی ٹیم کے کھیلاڑیوں کو کاندھوں پر اٹھا کر رقص کیا جاتا ہے۔

افسران اور معتبرین کے لئے تو سٹیج پرحسب مراتب صوفے اور کرسیاں لگا دی جاتی ہیں مگر عام تماشائی کھیل کو گراؤنڈ کے گرد کھڑی پتلی دیوار پر بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں۔ دیواروں پر بیٹھے اور کھڑے لوگوں کی پولو کے کھیل کے دوران عجیب کیفیت ہوتی ہے جب میدان کے ایک سے دوسرے سرے تک گیند کے ساتھ لوگوں کی گردنیں بھی جھومتی ہیں تو پورا میدان مدہوشی کے عالم میں نظرآتا ہے۔ بغیر ضوابط اور ریفری کے کھیلے جانے وال اس پولو میں کوئی کھلاڑی گر جائے، زخمی ہوجائے یا گھوڑا ناکارہ ہوجائے کھیل نہیں رکتا۔ عموماً چوبی گیند اچھل کر کسی تماشائی کو لگ بھی جاتی ہے، کبھی کبھاراس طرح لگی گیند کی چوٹ سے سے لوگ زخمی ہوکر مر بھی جاتے ہیں جس کو پاس والے سنبھالتے ہیں کھیل جاری رہتا ہے۔ کھیل کے دوران تماشائیوں کی گردنیں گیند کی رفتار اور سمت کے ساتھ ایسی جھومتی ہیں کہ پورا ہجوم آس پاس سے بے خبر وجد کے عالم میں محو تماشا نظر آتا ہے۔

یہ 1994ء کی بات ہے پہلی بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تھے۔ اس سے پہلے منتخب ہوئی کونسل میں ایک مذہبی فرقے کی طرف سے بائیکاٹ کی وجہ سے نمائندگی کم رہی تھی۔ انتخابات کے دوران مذہبی حلقوں کی بڑی پزیرائی ہوئی جس کی وجہ سے لوگ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوئے اور معاشرے میں تقسیم کا عمل وسیع اور گہرا ہوگیا تھا۔ متعلقہ فرقہ کے نامزد امید وار کو ووٹ دینے کے لئے عام لوگوں پر شدید سماجی دباؤ تھا۔ لوگوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ سماجی علیحدگی سے بچنے کے لئے اپنے گروہ کے ساتھ شامل ہوں۔ عام لوگوں میں انتہائی بے چینی پائی جاتی تھی۔

ایک دن شاہی پولو گراؤنڈ میں سالانہ جلسے کا فائنل تھا۔ پولیس اور این ایل آئی کی ٹیمیں میدان میں تھیں۔ این ایل آئی کی قیادت خوش شکل و خوبرو بلبل جان کر رہے تھے اور پولیس کی ٹیم کا کپتان وجیہ و جسیم راجی رحمت تھا۔ میدان سج چکا تھا گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا سٹیج پر ہمیں بھی ایک کرسی نصیب ہوئی تھی۔ میرے ساتھ ہی استاد حسن شاد مرحوم براجمان تھے۔ بلکہ وہ پہنچ گئے تو میں نے ہی کھسک کر ان کے لئے بیٹھنے کی جگہ بنائی تھی۔

این ایل آئی، پی ڈبلیو ڈی اور پولیس کا مقابلہ جنگ کا سماں ہوا کرتا تھا۔ سب اداروں نے بہترین کھلاڑی بھرتی کئے ہوتے تھے اور گھوڑے پال رکھے تھے۔ اس دفعہ بھی مقابلہ انتہائی سخت تھا ہاف ٹائم تک دو دو گول کے بعد کھیل دوبارہ شروع ہوا تو پولو گراؤنڈ کی دیوار پر بیٹھے تماشائیوں کے پیچھے کھڑے لوگ بھی کئی قطاروں میں تھے۔

میچ کے دوران گراؤنڈ کے ایک طرف والی مسجد سے نماز عصر کی اذان کی آواز آئی۔ موسیقی رک گئی، کوئی تماشائی اپنی جگہ سے نماز کے لئے نہیں اٹھا۔ تھوڑی دیر بعد دوسری مسجد سے اذان کی آواز آئی اور کوئی تماشائی پھر اپنی جگہ سے نہ ہلا، پولو کا میچ اذان کے دوران بغیرموسیقی کے اور اس کے بعد موسیقی کے ساتھ جاری رہا۔ استاد حسن شاد نے جیب سے ٹنکچر (زخم صاف کرنے کا طبی استعمال کا الکوحل جو گلگت میں شراب پر پابندی کی وجہ سے پینے کے لئے مختلف ذائقوں میں دستیاب ہے) کا محلول نکالا گھونٹ بھرا اور نعرہ مستانہ لگایا “مذہب کے آگے لوگ ہار جاتے ہیں مگر پولو گراؤنڈ ہمیشہ جیت جاتا ہے۔”

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments