پھر صدر ایوب کے ساتھ ہوا کیا؟


عمران خان کے خیر خواہوں کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کی صف میں عمران خان خود بھی کھڑے ہیں۔ کہنے والے یہ کہتے سنے گئے۔ اب نون لیگی کارکن بے شک اپنے گھروں میں آرام کریں۔ چین کی نیند سوئیں۔ تحریک انصاف کی حسن کارکردگی ہی نون لیگ کے لئے کافی و شافی ہے۔ جب اقرار نامے اور نکاح نامے کے گواہ بھی ساتھ چھوڑ جائیں تو سب اچھا کی خبر سچی نہیں ہوتی۔

جہانگیر ترین ”حکومتی اقرار نامہ“ کے گواہ تھے۔ جبکہ عون چوہدری شاہی نکاح نامہ کے۔ جہانگیر ترین، عمران خان اور تحریک انصاف سے پہلے بھی خاصے حیثیت دار تھے۔ ان کا اک سماجی اور سیاسی مقام تھا۔ جبکہ عون چوہدری کچھ بھی نہیں تھے۔ نہ ہی وہ کوئی سیاسی کارکن تھے اور نہ ہی کوئی معروف کاروباری شخصیت۔ وہ مفتی قوی کی طرح کوئی چھوٹے موٹے مذہبی رہنما بھی نہیں تھے۔ انہیں ساری شناخت اور اہمیت عمران خان کی مصاحبت میں میسر آئی۔

آج وہ بھی عمران خان کو چھوڑ کر جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اپنے نئے صاحب کی جی حضوری میں بھی وہ اسی طرح خوش و خرم، چاق و چوبند ہیں۔ وہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ 19 مئی 2021 ء ”نوائے وقت“ کے صفحہ اول پر دو خبریں قابل غور ہیں۔ پہلی یہ کہ صوبائی وزراء اور ارکان اسمبلی پر مشتمل ترین گروپ نے سیاسی فیصلوں کا اختیار جہانگیر ترین کو دے دیا۔ انہوں نے جہانگیر ترین کو حلف وفاداری بھی دیا ہے۔ اکٹھے جئیں گے۔ اکٹھے مریں گے۔

سیاست میں جینے مرنے کے کچھ اپنے معنی ہوتے ہیں۔ دوسری خبر میں پنجاب حکومت نے شوگر ایکٹ میں ترمیم کر کے اس میں کاشتکاروں کے تحفظ کی تمام شقیں ختم کر دی ہیں۔ اس طرح کاشتکاروں کو دوبارہ شوگر ملز مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دونوں خبروں میں بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ لیکن ان دونوں خبروں میں ایک ہی خبر ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے مقتدر طبقے کے مفادات ہر طرح سے محفوظ ہیں۔ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔

جہانگیر ترین گروپ کے تحریک انصاف یا عمران خان سے کوئی جماعتی، منشوری اختلاف نہیں۔ لفظ منشور ہماری سیاسی لغت سے کب کا خارج ہو چکا ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی کارکن اب اس لفظ سے مانوس بھی نہیں رہے۔ اگلے ہی روز ترین گروپ کے اراکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی۔ باہمی معاملات طے پا گئے۔ ملاقات کے بعد یہ اعلان ہوا کہ ہم مسائل کے حل کی یقین دہانیوں پر عملدرآمد کے منتظر رہیں گے۔ اب دیکھئے ان کے مطالبات کی فہرست کتنی لمبی نکلتی ہے۔

کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں ہمیشہ اندر کے پانی سے ڈوبتی ہیں۔ ہمارے ملک میں کامیاب ترین پیشہ سیاست ہے۔ ایک سیاستدان اقتدار سے محرومی کے دنوں میں اپنے بچوں کی اسکول فیس کی ادائیگی کے لئے گھڑی جیسی ذاتی اشیاء بیچنے پر مجبور تھا۔ پھر وہی سیاستدان اقتدار کی گلی کے اک پھیرے کے بعد سینٹ کے الیکشن میں اراکین اسمبلی کو خریدنے کی سکت رکھتا تھا۔ معروف کالم نگار محمد اکرم چوہدری کے ایک تازہ کالم کا عنوان ”غریب ترین کے بعد جہانگیر ترین فیکٹر“ ہے۔ وہ لکھتے

ہیں۔ ”ایک وقت میں غریب ترین طبقے کی بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین پاکستان تحریک انصاف کے ساتھی تھے۔ اب غریب ترین بھی پاکستان تحریک انصاف کے مخالف ہیں اور جہانگیر ترین بھی تحریک انصاف کے حریف بنے نظر آتے ہیں“ ۔ کالم نگار سوچ رہا ہے۔ اب غریب ترین کی بات کرن کرے گا۔ سب مفاد ات کا معاملہ ہے۔ حکمران ایک خاندان ہے۔ ان کے طبقاتی مفادات کو چھوڑیں۔ ان کی طرف کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا۔ انفرادی مفادات کی جنگ ہوتی رہتی ہے۔ طبقاتی مفادات کا معاملہ یوں ہے کہ ہماری کوئی اسمبلی نہ ہی زمین کی حد ملکیت مقرر کر سکتی ہے اور نہ ہی جائیداد کے کرایہ، زمین کے ٹھیکے پر انکم ٹیکس لگا سکتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ایک صدی پہلے ہمارے لیڈروں کے بارے میں کہا تھا۔

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ

وہی کہا آج بھی سچ ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ بہت خوش ہیں۔ دوست احباب سے مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں۔ ان کے لخت جگر نے کشمیر میں جہاد کر کے شہادت پانے کی بجائے کینیڈین یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔ باقی قوم کے بچوں کے لئے اس لیڈر کے پاس یہی ایک سبق ہے :

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
شاعر اکبر الٰہ آبادی سے سیاستدان لیاقت علی خان تک پہنچیں۔
دھوکہ ہے اک فریب ہے منزل کا ہر خیال

سچ پوچھیے تو سارا سفر واپسی کا ہے

یہ 11 دسمبر 1950 ء کی اخبار ہے۔ گول گول شیشوں والی عینک لگائے ہمارے وزیر اعظم لیاقت علی خاں ڈالروں والوں بیساکھی کے سہارے چل رہے ہیں۔ اخبار کے کارٹون میں ایک امریکی اپنے گھر کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم کو دیکھ کر کہہ رہا ہے۔ ’یہ امداد اب ان کو کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دے گی، انہیں ہمیشہ ہمارا محتاج رکھے گی‘ ۔ اس دن سے ہمارے سارے حکمران غیر ملکی قرضوں کے حصول اور ان کی واپسی میں سہولت کو ہی اپنا کارنامہ سمجھے چلے آرہے ہیں۔

کالم عمران خان سے شروع ہوا۔ حکمرانوں پر دو خطبے بھاری سمجھے جاتے ہیں۔ اب ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اگر عید جمعۃ المبارک کو ہوتی تو خطبہ کس پر بھاری ہوتا۔ قمر جاوید باجوہ پر یا عمران خان پر؟ بہر حال سرکار دربار کو رات گئے عید کا چاند نظر آ گیا۔ ہمارے حکمران اس بدشگونی سے بچ گئے۔ ویسے 1967 ء میں بھی صدر ایوب نے جمعہ کو عید آنے پر عید جمعرات کو ہی کروائی تھی۔ پھر صدر ایوب کے ساتھ ہوا کیا؟ اس کا جواب کوئی خوشگوار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments