اماوس کی رات: ایک سماجی تجزیہ


پریم چند کا افسانہ (اماوس کی رات) گاؤں کے ایک مذہبی پنڈت کی کہانی ہے جس نے اپنے پرکھوں کی یاد کے طور پر کاغذوں کے پلندوں کی پوجا کی۔ جس کا نقصان دو طرح سے ہوا،

( 1 ) ۔ ایک یہ اس نے اپنی ساری زندگی اس انتظار میں گزاری کہ کبھی تو آسمانی خدا (بگھوان) اس پر مہربان ہو کر اپنے کرپیا (نظر کرم) کرے گا جس سے اس کی زندگی سپھل (آسان) ہو جائے گی۔

( 2 ) ۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ اس کا انتطار، انتظار ہی رہا، نہ ہی اس کی زندگی کی محرومیاں ختم ہوئیں اور نہ ہی آسمانی مدد آئی، آسانی آئی بھی تو ساتھ اس کی محبوب بیوی کی موت کی صورت میں۔

افسانے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ:
دیوالی کی شام ہے سارے گاؤں میں خوشحالی کا راج ہے اور لکشمی سب پر مہربان ہے،

افسانے کی کہانی مرکزی کردار (پنڈت دیودت) کے گرد گھومتی ہے جس کے گھر دیوالی کے شب دن بھی مایوسی کا اندھیرا چھایا ہوتا ہے۔ سارا گاؤں خوش ہے مگر پنڈت کے گھر بھوک و افلاس کا راج ہے۔ نہ ہی چراغوں میں تیل ہے اور نہ ہی پیٹ میں کھانا۔

اس کی بیوی گرجا ادھ مری حالت میں بھی پنڈت سے خواہش کرتی ہے کہ دیوالی کا موقع ہے میں گھر میں چراغاں کرنا چاہتی ہوں یہ سن کر پنڈت پھوٹ پھوٹ کر روتا ہے ایک مرتا ہوا انسان اس کے اگے اپنی آخری اچھا کا بیان کرتا ہے اور وہ اتنا مجبور و بے بس ہے کہ اپنی مرتی ہوئی بیوی کی آخری اور ادنٰی سی خواہش بھی پوری کر سکتا۔ اور آخر اس کی بڑھاپے کی ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہے ہوجاتی ہے۔

افسانے میں ہر طرح سے سماج کی بے حسی دکھائی گئی ہے :

اول تو (لالہ شنکر داس) جو ایک مذہبی وید ہونے کے ساتھ ساتھ اشتہار چھاپنے کا کام بھی کرتا ہے اور اشتہار بھی وہ جو ایک طرف طبعی اصولوں کی پیش کش کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کو نیک نام مشہور کر نے کے ساتھ ساتھ شہرت بھی عطا کرتے ہیں۔

یہاں شنکر داس کی شکل میں ایسے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک طرف بھوک سے انسان مر رہا ہے تو دوسری طرف اس مذہبی وید کو پیسوں کا لالچ ہے وہ ”پیسے دو اور دوا لو“ والے فارمولے پر عمل کر کے مکمل بے حس بنا ہوا ہے، اس کے تصویر پریم چند کچھ اس طرح ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ

”بیماری ایک رئیسانہ تکلیف ہے اور پولیٹیکل اکانومی کے مسئلے کے مطابق تکلفات سے جس قدر ممکن ہو ٹیکس لینا چاہیے“ ( 1 )

پریم چند نے اس افسانے میں ایک طرف انسانی بے حسی کی تصویر کشی کی ہے اور دوسری طرف اپنے بزرگوں سے دلی وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاغذی پلندوں کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کے ہے۔

پریم چونکہ انسانی قدروں کی حفاظت کا درس دیتے ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھا جس کی مثال اپنے افسانے میں اس طرح دیتے ہیں کہ:

”خاندانی حشمت کی یادگار کچھ باقی تھی تو وہ ان رقعوں اور ہنڈیوں کا پلندا تھا جن کی سیاہی بھی حرف باطل کی طرح مٹ چکی تھی۔ پنڈت دیودت انھیں جان سے عزیز رکھتے تھے“ ( 2 )

’اماوس کی رات‘ میں پریم چند ہمیں اس معاشرے کا بھی عکس دکھاتے ہیں جب انسان اپنی موت کے قریب ہو کر بھی اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے اس کی مثال ہمیں افسانے کے اندر سے ہی ملتی ہے :

”آج صبح ہی سے گرجا کی طبیعت خراب تھی اور سر شام اس پر غشی طاری تھی۔ یکایک اس نے آنکھیں کھولیں اور بہت مدھم آواز سے بولی۔“ آج دیوالی ہے، ہمارے گھر کیا دیے نہ چلیں گے ”( 3 )

پریم چند کے زمانے میں چونکہ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی اور پریم چند خود اس تحریک کے حامی تھے اسی لیے ’اماوس کی رات‘ افسانے میں ہمیں سرمایہ کاری کے بہترین مثال اس وقت ملتی ہے جب اپنے کام کو بہترین بنا کر پیش کرنے کے لیے حکیم اپنا ’امرت بندو‘ کی اشتہار سازی کچھ اس طرح کرتا ہے کہ جس سے لگے کہ اس کی دوا بہت فائدہ مند ہے۔

اشتہار کے مکالمے کچھ اس طرح سے لکھے گئے :

”ناظرین آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ آپ کا زرد چہرہ۔ آپ کا تن لاغر۔ آپ کا ذرا سی محنت میں بے دم ہوجانا۔ آپ کا لذت دنیا سے بے فیض رہنا۔ آپ کی خانہ تاریکی۔ یہ سب سوال کا نفی میں جواب دیتے ہیں۔ سنیئے میں کون ہوں و شخص ہوں۔ جس نے امراض انسانی کو دنیا سے معدوم کر نے کا بیڑہ اٹھایا۔ جس نے اشتہار باز جو فروش گندم نما نام نہاد حکیموں کو پنچ دہن سے کھود کر دنیا کو پاک کردینے کا عزم کر لیا ہے۔ میں وہ حیرت انگیز انسان ضعیف البنیان ہوں، جو ناشاد کو دلشاد، نامراد کو با مراد۔ بھگوڑے کو دلیر۔ گیدڑ کو شیر بناتا ہوں۔ اور یہ کسی جادو سے نہیں۔ منتر سے نہیں۔ یہ میری ایجاد کردہ“ امرت بندو ”کے ادنٰی سے کرشمے میں“ ( 4 )

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ کیسے ایک سرمایہ دار خریدار کی توجہ حاصل کرتا ہے اور اپنے اشتہاروں کے ذریعے مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے۔

’اماوس کی رات‘ افسانہ پڑھنے کے بعد ہمیں سماج کا ایک سیاسی پہلو بھی نظر آتا ہے سیاسی اس طرح سے کہ انسان اپنے فائدے کی بغیر کسی کی مدد نہیں کر تا، جب پنڈت حکیم کے پاس آتا ہے اور پیسے نہ ہونے کے باعث حکیم اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا ہے، تو دیودت اس بات پر اسے ساتھ چلنے کے لیے راضی کرتا ہے کہ ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزاروں گا کروں گا ابھی چل کر میری بیوی کو دیکھ لیجیے وہ دم بھر کی مہمان ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ انسان بہت بے حس ہے اور وہ کسی مرتے ہوئے انسان کو بھی بغیر مطلب کے نفع نہیں دیتا۔ آج کل کے معاشرے کا یہی حال ہے جو اس افسانے میں دکھایا گیا ہے۔

انسان کے بس میں جو چیز نہ ہو وہ اسے حاصل کرنے کے لیے جس حد تک تگ و دو کر سکتا ہے وہ کرتا ہے مگر پھر بھی اس چیز کے نہ ملنے پر وہ اس حد تک مایوس ہو جاتا ہے کہ اپنے پاس موجود سب سے قیمتی چیز بھی ارزاں لگتی ہے اور وہ اسے نظر آتش کر دیتا ہے جیسے حکیم کے نہ آنے پر دیودت اپنے آبا و اجداد کے ان کاغذات کے پلندوں کو جنہیں وہ اپنی جان سے عزیز جانتا ہے انھیں آگ میں جھونک دیتا ہے۔

’اماوس کی رات‘ میں ہمیں جہاں ایک طرف منفی سماج کا عکس نظر آتا ہے جہاں لوگ بے حس ہیں اور کوئی کسی کا سانجھی نہیں وہاں ہمیں ایسے انسان بھی نظر آتے ہیں جو احسان کا بدلا ہر قیمت پر چکاتا ہے اور یہ سماج کا ایک مثبت پہلو ہے۔

جب حکیم کی طرف سے مایوس ہو کر دیودت گھر میں مایوس بیٹھا ہوتا ہے جب جاگیردار اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو پنڈت اس سے آنے کا سبب پوچھتا ہے تو جاگیردار اپنے آنے کا سبب بیان کرتا ہے کہ اس کے پوروجوں (بزرگوں ) نے پنڈت کے بزرگوں سے قرض کی رقم لی تھی جس کی ادائیگی کا وہ متحمل ہے اور پنڈت سے کہتا ہے کہ میں نے اپنے رشتہ داروں سے آپ کا نام سنا ہے اور مجھے عرصے سے آپ کے درشنوں کی آرزو تھی آج وہ مبارک موقع مل گیا۔ اور میرا جیون سپھل ہوا۔

پریم چند نے اس افسانے میں ایک مکالمہ لکھا ہے جو سماج میں رہنے والوں کی دلی کیفیت کا مکمل ترجمان ہے :

”غیر متوقع کامیابی اکثر بدگمانی کا باعث ہوتی ہے“ ( 5 )

جب جاگیردار نے قرض واپس کرنے کے لیے وہ رقعہ مانگا جو قرض لیتے وقت اس کے پرکھوں نے لکھا تھا۔ چونکہ پنڈت نے تمام کاغذات جلا دیے تھے اسی لیے اسے اندیشہ لاحق ہو گیا کہ رقعہ نہ ملنے کے صورت میں اسے پچھتر ہزار کی رقم سے ہاتھ نہ دھونے پڑیں۔ اس بات کا مقصد یہ تھا کہ جب انسان کسی سے امیدیں وابستہ کر لیتا ہے تو وہ اندیشوں میں گھر جاتا ہے۔

جب پنڈت کو قرض کی رقم مل جاتی ہے تو وہ خوشی خوشی اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ بھگوان نے ہماری سن لی ہے اور اب تمہارا علاج ہو جائے گا اور تم بھلی چنگی ہو جاؤ گی۔ جوں ہی وہ اپنی بیوی کو ہلاتا ہے کہ گرجا آنکھیں کھولو ”دیکھو ایشور نے ہماری سن لی ہے۔“ اور ہمارے اوپر دیا کی ہے۔ کیسی طبیعت ہے؟

مگر جب گرجا ذرا نہ سنکی تو پنڈت نے اس کے اوپر سے چادر سرکائی اور یہاں پر پنڈت کی خوشی کا خاتمہ ہوا۔

افسانے کے اختتام پر جب پر جب پنڈت وید جی کے پاس جاتا ہے اور نوٹوں کا پلندا ان کے آگے پٹک کر بولتا ”وید جی یہ پچھتر ہزار کے نوٹ لیں یہ آپ کا شکرانہ اور آپ کے فیس۔ آپ چل کر گرجا کو دیکھ لیں اسے کہیں کہ صرف ایک بار آنکھیں کھول لے۔ یہ اس کی نگاہ کا صدقہ ہے۔ آپ کو روپے انسان کی جان سے پیارے ہیں۔ وہ آپ کی نظر ہیں مجھے گرجا کی ایک نگاہ ان روپوں سے کئی گنی ہے“

آخر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جب اچھے دنوں کے انتظار میں کٹھن راستوں پر چل کر منزل کے قریب پہنچتا ہے تو اپنی سب سے قیمتی چیز کھو دیتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسے اپنی قیمتی چیز کی بدولت ہی وہ منزل ملتی ہے۔ پھر ساری عمر کا پچھتاوا رہ جاتا ہے۔

اس سارے منظر سے یہ بات سامنے آئی کہ انسان جتنا بھی مذہبی ہو وہ حالات کے سامنے بعض اوقات ہار جاتا ہے اور اپنا دین دھرم قربان کر لیتا ہے صرف دنیاوی آسائش کے پیچھے۔

پریم چند نے دیہات کی صاف اور سیدھی سادی عوامی زندگی کا مطالعہ بڑے انہماک و استغراق کے ساتھ کیا ہے۔ ہندوستان کے دیہات اور ان کی پست حال زندگی کے مسائل شروع ہی سے پریم چند کے پیش نظر رہے ہیں۔ خصوصاً کسانوں، مزدوروں، بے روزگاروں، نچلے اور بچھڑے ہوئے ہریجنوں کے دکھ درد کو انھوں نے بہت ہی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربے میں صدیوں سے دبے کچلے کسانوں کی تکلیف و اذیت کا احساس واضح طور پر موجود ہے۔

پنچایت

’پنچایت‘ پریم چند کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں انہوں نے بڑے ہی فنکارانہ طور پر ایک گاؤں کی بڑھیا کی کہانی کو پیش کیا ہے۔ بڑھیا جو کہ جمن کی خالہ ہوتی ہے وہ اپنی ساری جائیداد جمن کے نام اس لئے کرتی ہے کہ اس نے روٹی و کپڑا وغیرہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن جمن کی بیوی اس بڑھیا سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے اس لئے مجبور ہو کر بڑھیا آخر کار پنچایت بلاتی ہے۔ جس کی منظر کشی پریم چند نے اس طرح سے کی ہے :

”جب پنچایت پوری بیٹھ گئی تو بوڑھی بی نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا :“ پنچو آج تین سال ہوئے میں نے اپنی سب جائیداد اپنے بھانجے جمن کے نام لکھ دی تھی اسے آپ لوگ جانتے ہوں گے جمن نے مجھے تاعین حیات روٹی کپڑا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سال چھ مہینے تو میں نے ان کے ساتھ کس طرح رو دھوکر کاٹے، اب مجھ سے رات دن کا رونا نہیں سہا جاتا۔ مجھے پیٹ کی روٹیاں تک نہیں ملتیں، بیکس بیوہ ہوں، تھانہ کچہری کر نہیں سکتی، سوائے تم لوگوں کے اور کس سے اپنا دکھ درد روؤں، تم لوگ جو راہ نکال دو اس راہ پر چلوں۔ اگر میری برائی دیکھو میرے منھ پر تھپڑ مارو، جمن کی برائی دیکھو تو سے سمجھاؤ، کیوں ایک بیکس کی آہ لیتا ہے۔ ”

اس سے ظاہر ہوا کہ آج بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاتا ہے۔ غریب کے مدد کے لیے وسائل جمع کیے جاتے ہیں۔

بڑے گھر کی بیٹی

پریم چند نے اس افسانے میں سماج کے ایک اور منظر سے پردہ اٹھایا ہے کہ کیسے مسئلوں کا حل نکالا جائے۔ اس افسانے میں اونچے گھرانے کی بیٹی کی کہانی بیان کی گئی ہے جس نے ساری زندگی عیش و عشرت میں گزاری۔ جب اس کی شادی ہوئی تو وہ ایک متوسط طبقے کا گھرانا تھا۔ آ نندی کا شوہر بی۔ اے پاس تھا اور ایک دفتر میں نوکر تھا سری کنٹھ انگریزی ڈگری کے باوجود انگریزی معاشرت کے بہت بڑے مداح نہ تھے۔ بلکہ اکثر اوقات بڑی شد و مد سے اس کی مذمت کیا کرتے تھے۔

وہ مشترکہ خاندان کے بہت بڑے حامی تھے آج کل جو بہووں کو اپنے سسرالی کنبے کے ساتھ رہنا نہیں پسند، اسے وہ ملک و قوم کے لیے فال بد خیال کرتے تھے۔ مگر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اس نظام کے حامی نظر آئے اس کی وجہ یہ بنی کہ جب سری کنٹھ کا بھائی لال بہاری اپنی بھابی یعنی آنندی سے گوشت پکانے کی فرمائش کرتا ہے چونکہ آنندی پہلے ہی کھانا بنا چکی ہوتی ہے گوشت پکانے بیٹھتی ہے تو جو پاؤ بھر گھی ہوتا ہے وہ گوشت میں ڈال دیتی ہے تو دوسری ہنڈیا کے لیے گھی نہیں بچتا جب لال بہاری دال کھانے بیٹھتا ہے تو اس میں گھی کی بابت آنندی سے سوال کرتا ہے جس پر آنندی غصہ ہوتی ہے کہ اتنا گھی تو ہمارے ملازم کھا جاتے تھے جس کی وجہ سے لال بہاری غصے میں اسے کھڑاؤں کینچھ مارتا ہے جس سے وہ اپنے شوہر کو اس کے خلاف کرتی ہے۔

آخر میں جب سری کنٹھ گھر چھوڑنے کی بات کر تا ہے کی وہ اپنے لاڈلے بھائی کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا اور پھر گاؤں والے ان کا تماشا دیکھنے کو جمع ہوتے ہیں تو بڑے گھر کی بیٹی چونکہ دل کی نرم ہوتی ہے اور بھائیوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کا باعث خود کو سمجھتی ہے اسی لیے وہ آخر میں سب ٹھیک کر دیتی ہو جس سے سری کنٹھ کی عزت نیلام ہونے سے بچ جاتی ہے۔ اس افسانے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو کبھی اپنے اصولوں کے خلاف جانا پڑتا ہے سماج کو دیکھ کر انسان کر رنگ بدلتا ہے چاہے وہ مثبت ہی کیوں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments