فیمینزم کا مطلب: عورت کے انسانی حقوق کا مطالبہ


لفظ فیمینزم یا نسائیت پرستی کو ہمارے ہاں 2021 ء میں بھی قبولیت نہیں مل سکی۔ اس لفظ کو ملعون سمجھا جاتا ہے۔ وجہ اس سے منسلک نہایت غلط تصورات ہیں مثلاً نسائیت پرست خواتین، مردوں کو ناپسند اور ان سے کراہت محسوس کرتی ہیں ؛ وہ مادر پدر آزادی کی خواہش مند اور معاشرے کے روایتی تار و پود کی دشمن ہوتی ہیں ؛ وہ مرد کی عزت نہیں کرتیں بلکہ انہیں قابل عزت ہی نہیں سمجھتیں ؛ ایسی خواتین گھر اور معاشرے کے نظام کے لئے گویا ایک زہر قاتل ہوتی ہیں ؛ یہ خواتین اور لڑکیاں گھر تو آباد کر ہی نہیں سکتیں کیونکہ انہیں باہر کی دنیا میں دلچسپی ہوتی ہے ؛ ایسی عورتوں کی وجہ سے ہی تو عورت مارچ جیسی خرافات ہمارے ہاں ہونے لگی ہے اور گھروں میں بیٹھی بچیاں اور خواتین خانہ بھی ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے باغیانہ خیالات سے متاثر ہوتی ہیں وغیرہ۔ مختصراً، فیمینسٹ کا مطلب ہمارے ہاں ’مرد مار‘ یا ’مرد دشمن‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ عموماً ایسی ہی باتیں فیمینسٹ خواتین کو سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور درست سمت میں چلنے کے باوجود انہیں اپنا طرز عمل اور سوچ غلط لگنے لگتی ہے۔

اسی وجہ سے کئی خواتین، فیمینسٹ ہونے سے انکار کرتی نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے ہم ایک روایتی معاشرے کا حصہ ہیں جو سمارٹ فون، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا کے اس دور جدید میں بھی صدیوں پرانی روش پر عمل پیرا ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں صرف اسی عورت کو قابل عزت سمجھا جاتا ہے جو والد، بھائیوں، اور شوہر کی فرمانبردار ہو، ان کے سامنے زبان نہ کھولے، اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انہی کی مرضی سے زندگی گزارے۔ عورت کو شوہر کے نام سے شناخت کیا اور پکارا جاتا ہے مثلاً مسز سلیم، مسز اعجاز وغیرہ۔ اور تو اور کسی مرد کی بیوی بن جانے کے بعد ہی اسے معتبر سمجھا جاتا ہے۔ غیر شادی شدہ عورت کے بارے میں تو لوگ عجیب سی باتیں بنا لیتے اور اس کے کردار پر شک کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں فیس پر ایک پوسٹ پڑھی: عورت کی عزت شوہر کی عزت سے منسلک ہے۔ تنہا اس کی عزت میکے میں ہے اور نہ معاشرے میں۔

اس پوسٹ پر لوگوں نے دلچسپ تبصرے کیے مثلاً اگر کسی عورت کا شوہر آوارہ اور بے حیا ہو تو؛ ہر انسان کی عزت اس کی اپنی ذات اور کردار سے ہوتی ہے، نہ کہ کسی اور کی وجہ سے ؛ ہر انسان اپنی عزت کا خود ذمہ دار ہے وغیرہ۔ خود میں نے یہ لکھا: میں غیر شادی شدہ ہوں، کیا میری کوئی عزت نہیں؟ اس سوال کا مجھے پیچ ایڈمن نے جواب نہ دیا۔ گویا یہ فرسودہ تصور تاحال ہمارے ہاں موجود ہے کہ شوہر ہی کے نام اور وجود سے عورت قابل احترام سمجھی جاتی ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ غربت اور جہیز نہ ہونے، یا کسی اور وجہ سے جن لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی، انہیں خود کو ’ناقابل عزت‘ سمجھ کر صبر شکر کر لینا چاہیے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جس عورت کا شوہر، زانی، شرابی، ڈاکو، قاتل، دہشت گرد، جرائم پیشہ، رشوت خور، سزا یافتہ، یا قیدی ہو، اس عورت کی عزت کا کیا معیار ہو گا کیونکہ عورت کی عزت تو اس کے شوہر کے نام اور مقام سے منسلک ہے؟ صد شکر کہ نسائیت پرست تحریک نے ہماری اور تمام دنیا کی خواتین کو یہ فہم و شعور عطا کیا ہے کہ وہ باپ، بھائی، اور شوہر کے نام کے علاوہ اپنی ذاتی شناخت بھی رکھتی ہے۔ یعنی مجھے میرے ہی نام سے شناخت کیا جائے نہ کہ والد یا شوہر کے نام سے۔

اسی ذہنیت نے عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق بنا رکھا ہے۔ اور جب نسائیت پرست خواتین اور مرد بھی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو انہیں گالیاں اور لعن طعن سننے کو ملتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کے والد کو فیمینسٹ ہونے کی بنا پر اب تک جتنا احترام ہمارے لوگوں نے دیا ہے، وہ قارئین جانتے ہوں گے۔ ان حالات میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی اور گولڈن گرلز والی رابعہ الربا اور تحریم عظیم جس حوصلے کا مظاہرہ کر چکی ہیں، وہ سب لوگوں میں نہیں ہوتا۔

معاشرہ تو کیا، جب اپنے ہی گھر کے لوگ، عورت کو فیمینسٹ ہونے کی بنا پر برا سمجھیں تو اپنی عزت برقرار رکھنے کے لئے وہ اپنی شناخت اور خیالات چھپانے پر یقیناً مجبور ہو گی۔ نسائیت پرستی کو ایک طعنہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نسائیت پرست انسانی حقوق اور عورت کے خلاف ہونے والی زیادتی اور نا انصافی کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں۔ ہم سب کے مصنفین اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ حقوق نسواں اور آزادی کے مطالبے میں نمایاں فرق ہے لیکن چونکہ ہمارے مردوں کی اکثریت عورت کے انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتی اس لئے اسے غلط معنی دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔

جب عورت تعلیم، شادی میں رضامندی، جائیداد، اور دیگر انسانی حقوق کا مطالبہ کرتی ہے تو مرد یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ یہ حقوق تو عورت کو پہلے ہی دین اسلام دے چکا ہے۔ لیکن جب ان شرعی انسانی حقوق کی ادائیگی کی بات آتی ہے تو مرد کی غیرت مجروح ہو جاتی ہے۔ اور ایک مجروح غیرت والا مرد، عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

ایک دفعہ میری ایک سہیلی کی والدہ کہنے لگیں : تمہیں کسی نیک شریف مرد سے شادی کر لینی چاہیے جو گھر بٹھا کر کھلا سکے اور تمہیں جاب نہ کرنی پڑے۔ میں ایسی خواتین کو کیسے سمجھاؤں کہ مجھے نیک شریف نہیں بلکہ ایسا شریک حیات چاہیے جو مجھے برابر کی انسان سمجھے اور میری مرضی کا احترام کرے۔ میں کیا نیک شریف مرد کا اچار ڈالوں گی جو کہے کہ رضوانہ بی بی، گھر بیٹھ کر روٹیاں پکاؤ اور بچے سنبھالو۔ تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے کام یا جاب واب کرنے کی۔

جس شخص کے ساتھ اپنی ذات اور شخصیت کا گلا دبا کر مجبوراً رہنا پڑے تو تنہائی بھلی۔ میں ایک روایتی نیک شریف مرد کے ساتھ اس لئے شادی نہیں کر سکتی کیونکہ میں خوش قسمتی سے باشعور ہوں جسے عورت کے انسانی حقوق کا فہم و ادراک ہے۔ یا یوں کہیں کہ فیمینسٹ ہوں اس لئے کہ اب فیمینسٹ اور باشعور عورت دونوں الفاظ مترادف اور ہم معنی ہیں۔ میرے فیمینسٹ ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ مجھے اپنے انسانی حقوق کا شعور ہے اور میں ان کا مطالبہ کرتی ہوں۔ میں فیمینزم سے متعلق تمام غلط تصورات اور تعریفات کو مسترد کرتی ہوں۔

آخر میں شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘ کی ہیروئن کا ایک ڈائیلاگ پیش خدمت ہے : میں صرف تمہاری بیوی نہیں، تم سے الگ ایک پوری انسان بھی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments