شرح نمو میں حیران کن اضافہ


پاکستان کو ہم بہت مان سے مملکتِ خداداد بھی پکارتے ہیں۔ اس پہلو کو نگاہ میں رکھیں تو کبھی کبھار معجزہ نماخبروں کا نمودار ہونا حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔ حکومتی ناقدین کا ایک گروہ مگر جمعہ کی شام سے تلملایا ہوا ہے۔ اس روز نیشنل اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس کمیٹی میں صوبائی حکومتوں سمیت معیشت کی نگہبان وزارتوں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور اعدادوشمار جمع کرنے والے ادارے کی نمائندگی بھی لازمی ہے۔

جمعہ کے روز جو اجلاس ہوا اس کا بنیادی مقصد 2020-21ء کے مالیاتی سال کے اختتام کے قریب ’’کیا کھویا کیا پایا‘‘ والا حساب لگانا تھا۔ مطلوبہ حساب کتاب نیا بجٹ تیار کرنے سے قبل ضروری شمار ہوتا ہے۔ بہرحال مذکورہ اجلاس ہوا۔ اس کے اختتام پر قوم کو نوید سنائی گئی کہ گزرے مالیاتی سال میں ہمارے ہاں شرح نمو3.94فی صد کی حیران کن حد تک پہنچ گئی۔ اداسی اور مایوسی کے عادی ’’دانشوروں‘‘ نے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

عام پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی علم معاشیات کی مبادیات کا ککھ علم نہیں۔ عمران حکومت کی قصیدہ گوئی بھی میرا وتیرہ نہیں۔ یہ فرض کرنے کو ترجیح دی کہ اندھی نفرت وعقیدت کے موسم میں ’’صیاد‘‘ سے مایوس ہوئے خواتین وحضرات ’’اچھی خبریں‘‘سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ کھلے ذہن سے اپنے تئیں یہ جاننے کی کوشش کی کہ حکومت نے مذکورہ دعویٰ کس بنیاد پر کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے ’’اچھی خبر‘‘ کے بارے میں ٹویٹس لکھے ہیں۔ تفصیلی بیان مگر حماد اظہر نے جاری کیا۔ لاہور سے اُبھرے یہ جواں سال وزیر محض چند دنوں کے لئے وزیر خزانہ بھی بنائے گئے تھے۔ اسد عمر کی فراغت کے بعد مگر دو بجٹ قومی اسمبلی کے روبرو انہوں نے ہی پڑھے تھے۔ عمران حکومت کی معاشی پالیسیوں کا پارلیمان کے اجلاسوں اور ٹی وی سکرینوں پر جارحانہ انداز میں دفاع کرتے ہیں۔

ان کا اصرار تھا کہ حیران کن شرح نمو تین بنیادی وجوہات کی بنا پر نمودار ہوئی ہے۔ کرونا کی لہر کے باوجود عمران حکومت نے کاروباری رونق لگانے کے لئے چند اقدامات کیے تھے۔ ان کی بدولت بڑے صنعتی اداروں کو بینک قرضوں کے حوالے سے گرانقدر رعایتوں سے نوازا گیا۔ تعمیراتی شعبے کا حوصلہ بھی بڑھایا گیا۔ حکومتی تھپکی نے کارسازی اور سیمنٹ کے کاروبار رواں رکھنے کے علاوہ انہیں قابل ستائش منافع کمانے کے قابل بھی بنادیا۔ روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدرے مستحکم رہی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اصل معجزہ مگر یہ بھی ہوا کہ گزرے برس ہمارے ہاں گندم کی فصل بہت بارآور رہی۔ مکئی اور گنے کی فصلیں بھی رونق لگا رہی ہیں۔ ان تمام عوامل نے باہم مل کر شرح نمو کو 3.94 تک پہنچادیا۔

حماد اظہر کا بیان پڑھنے کے بعد میں نے چند کاروباری دوستوں سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ انہوں نے اس دعویٰ کی تصدیق کی کہ چند بارانی علاقوں میں بے وقت کی بارشوں اور ژالہ باری کے باوجود گندم کی اجتماعی پیداوار ریکارڈ ساز رہی ہے۔ کریڈٹ اس کا بیج کی ایک نئی قسم کو دیا جارہا ہے جو بہت بارآور ثابت ہوا۔ گندم کے علاوہ مجھے اطلاع یہ بھی دی گئی کہ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل سے وابستہ افراد ان دنوں بہت خوش ہیں۔ کرونا کی وجہ سے پہلے چین اور اب بھارت بیرون ملک کی طلب پوری نہیں کرپارہے تھے۔ اس کے باعث پیدا ہوا خلا پاکستان میں تیار کردہ مصنوعات سے پورا ہورہا ہے۔ میں نے ان کی گواہی پر اعتبار کرنے کو ترجیح دی۔

علم معاشیات کے مگر ’’ماہر‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ ان کی اکثریت حکومتی دعوے پر اعتبار کرنے کے بجائے ہمیں یاد دلارہی ہے کہ گزشتہ ماہ ہی وفاقی کابینہ نے عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کو باقاعدہ اطلاع دی تھی کہ 2020-21ء میں ہمارے ہاں معاشی نمو کی شرح 2.9 فی صد رہے گی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اگرچہ امید رہی کہ یہ 3 فی صد کی حد بھی چھوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف مگر مصر رہا کہ شرح نمو 2 فی صد رہے گی۔ ورلڈ بینک کو اس کے برعکس فقط ایک فیصد شرح نمو کی توقع تھی۔

مذکورہ تخمینوں کاحوالہ دیتے ہوئے جھکی ’’ماہرینِ معیشت‘‘ جھلائے ہوئے سوال اٹھا رہے ہیں کہ وہ کونسا ’’معجزہ‘‘ رونما ہو گیا جس کا اندازہ آج سے ایک ماہ قبل تک مقامی اور عالمی ماہرین معیشت باہم مل کر بھی لگا نہیں پائے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے بھی چند ٹویٹس لکھ کر ایسے ہی سوالات اٹھائے ہیں۔ اسد عمر نے جواباَ انہیں حسد کی ماری ٹویٹس ٹھہرایا ہے۔

عرصہ ہوا میں سوشل میڈیا سے گریز کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔ فقط اپنے لکھے کالم پوسٹ کرتا ہوں۔ ہفتے کے روز مگر ایک ٹویٹ لکھ کر یاد کرنے کو مجبور محسوس کیا کہ مملکت خداداد میں معجزے بھی رونما ہوسکتے ہیں۔

میرے لکھے ٹویٹ نے کئی مہربانوں کے دل توڑ دئیے۔ وہ روزمرہّ خوراک کے لئے اہم شمار ہوتی کئی اجناس کے نام لے کر بازار میں اس وقت ان کے موجودہ نرخ بتاتے رہے۔ ناقابل برداشت نظر آتی قیمتوں کے تناظر میں سوال یہ اٹھایا گیا کہ میرے اور آپ جیسے کم تنخواہ والوں یا دیہاڑی دار افراد کی آمدنی میں گزشتہ مالیاتی برس کے دوران کتنا اضافہ ہوا ہے۔

یہ حقیقت مسلم ہے کہ 2018ء سے ہمارے ہاں کم از کم 50لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ دو کروڑ لوگوں کی جامد ہوئی ا ٓمدن انہیں خط غربت کی جانب دھکیل رہی ہے۔ ایسے عالم میں اعدادوشمار کی بنیاد پر خوش گوار خبروں کا ماحول بنانا یقینا سفاکانہ محسوس ہوتا ہے۔

سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں جمعہ کے روز جار ی ہوئے اعدادوشمار کو مگر ایک اور پہلو سے دیکھ رہا ہوں۔ اگریہ اعدادو شمار مستند ہیں اور ان پر اعتبار کرنے کے اشارے بھی میسر ہیں تو ڈاکٹر حفیظ شیخ کو جھک کر سلام کرنا چاہیے۔ مجھ جیسے کم علم انہیں بازار میں پھیلی کساد بازاری اور اداسی کا واحد ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ میں تو ذاتی طورپر دو ٹکے کا رپورٹر ہوں۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ مگربہت طاقت ور ہیں۔ انہوں نے بھی حفیظ شیخ کو معیشت کی تباہی کا ذمہ دار تصور کیا اور مارچ میں انہیں سینیٹ بھیجنے کے بجائے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں ووٹ ڈال کرعمران حکومت کو پریشانی میں مبتلا کردیا۔

سینیٹ کا انتخاب ہارنے کے باوجود شیخ صاحب اپنے عہدے پر براجمان رہے۔ آئی ایم ایف سے انہوں نے 500 ملین ڈالر کی نئی قسط حاصل کرنے کے لئے تحریری طورپر چند وعدے بھی کئے۔ بجلی کی قیمت میں دو گنا اضافہ ان میں سے میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ ایسے وعدوں کی وجہ سے ہاہاکارمچی تو عمران خان صاحب نے حسب عادت شیخ صاحب کو واٹس ایپ میسج کے ذریعے برطرف کردیا۔ برطرف ہوتے ہی وہ بیرون ملک چلے گئے۔ معلوم نہیں ان دنوں کہاں ہوتے ہیں۔

بہرحال شیخ صاحب فارغ ہوئے تو حماد اظہر صاحب کو ان کی جگہ تعینات کیا گیا۔ امید دلائی گئی کہ لاہور سے ابھرے یہ جواں سال اور بلند آہنگ رکن قومی اسمبلی اب ایسی معاشی پالیسیاں متعارف کروائیں گے جو عام آدمی کا بھلا کریں۔ چند ہی دنوں بعد مگر عمران خان صاحب کو خیال آیا کہ معیشت سنوارنا ایک مشکل کام ہے۔ غالباََ حماد اظہر کے بس کی بات نہیں۔ اسی باعث شوکت ترین صاحب کو پارلیمان کے کسی ایوان کا رکن نہ ہونے کے باوجود بااختیار وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔

ترین صاحب کی شہرت ایک کامیاب بینکر کی ہے۔ دبنگ آدمی ہیں۔ اپنا عہدہ سنبھالتے ہی اصرار کرنا شروع ہوگئے کہ پاکستانی معیشت کو درحقیقت آئی ایم ایف سے حفیظ شیخ کی طے کردہ شرائط ترقی کی جانب بڑھنے نہیں دے رہیں۔ بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا تو ہمارے ہاں کاروبار جاری رکھنا دشوار ترین ہوجائے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھی شرح سود میں نمایاں کمی لانا ہوگی تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔

شوکت ترین صاحب کی دبنگ گفتگو سننے کے بعد مجھ جیسے سادہ لوح نے توقع باندھی کہ بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف سے 6بلین ڈالرکا ’’امدادی پیکیج‘‘ لینے کے لئے جو وعدے ہوئے ہیں ان پر نظرثانی ہوگی۔

جمعہ کے روز مگر جو اعدادوشمار ہمارے سامنے لائے گئے ہیں وہ یہ سوچنے کومجبور کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے روبرو اب کس منہ سے جایا جائے گا۔ ہم اس سے رعایت کے طلب گار ہوں گے تو وہاں بیٹھے ’’مہاجن‘‘ ہمیں یاد دلائیں گے کہ انہوں نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ذریعے پاکستانی معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے لئے جو نسخہ تیار کیا تھا وہ اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ 2020-21ء کے مالیاتی سال کے دوران شرح نمو مقامی اور عالمی ماہرین کی اجتماعی توقعات سے بھی کہیں زیادہ بڑھی نظر آئی۔

جمعہ کے روز رونما ہوئے اعدادوشمار تقاضا کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے تیار کردہ نسخے پر عملدرآمد جاری رہے۔ آئی ایم ایف ان کی بدولت یہ تقاضا جاری رکھے گا کہ بجلی کی قیمت بڑھائو۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری دو۔ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرو اور عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے مزید رعایت کی توقع نہ رکھو۔ حفیظ شیخ تو چلے گئے مگر ان کی تیار کردہ پالیسیاں گویا برقرار رہیں گی۔ دیکھتے ہیں شوکت ترین ان میں کون سی نئی اور وکھری شے متعارف کروائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments