وہاں کا ائرپورٹ کافی منظم، بڑا اور صاف تھا


 

ائرپورٹ کی نسبت نا تو یہاں پر گندگی تھی اور نا ہی بد نظمی۔ اور نہ ہی کوئی نذرانہ مانگنے والا تھا۔ لاہور ائرپورٹ میں جب ہم واش روم استعمال کرنے گئے تو وہاں پر موجود خاتون نے بھی پیسے مانگنے شروع کر دیے۔ جس کو ہم نے خالی بیگ دیکھا کر جان بخشی کروائی۔ کاش ہمارے حکمرانوں نے اپنی جائیدادیں بنانے بینک بلینس میں اضافے کے علاوہ ملک کے فائدے کا بھی کچھ سوچا ہوتا۔ لاہور ائرپورٹ کا اگر کسی بھی بین الاقوامی ائرپورٹ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی حکمران جب دنیا گھومتے ہے وہاں کی ترقی دیکھتے ہے تو کیا ان کے دل میں خیال نہیں آتا ہے ہمیں بھی اپنے ملک کو ترقی کی رہ پر گامزن کرنا ہے۔ یا پھر یہ عوام کو جاہل شعور سے عاری اور بنیادی ضرورت زندگی سے محروم رکھ کر صرف اقتدار کے مزے لوٹنے چاہتے ہے۔ خیر آگے بڑھتے ہے۔ سامان لینے کے لئے ہم کونویر کی طرف بڑھے۔ جہاں پر جلد ہی ہمارے سامان نے رونمائی کروا دی۔ سامان کو کھینچ تان کے کونویر سے اتارا اس چکر میں ہم کئی دفعہ گرتے ہوئے بچے۔ کیوں کہ ہم نے اپنے چھوٹے بچے کو بھی اٹھایا ہوا تھا۔

اس کے بعد سامان کو ٹرولیز پر رکھنے کا اور تین ٹرولیز کو باہر لے جانے کا مشکل مرحلہ طے کرنا تھا۔ کیوں کہ بھاری بھر اٹیچی کیسز کو ٹرالی پر رکھنا ہمارے بس سے باہر تھا۔ اس کے لئے ہم نے پورٹر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ پورے ائرپورٹ پر صرف دو پورٹر میسر تھے۔ جنہوں نے ہمیں انتظار کا کہا۔ خیر کافی انتظار کے بعد پورٹر آئے اور ہم سامان سمیت باہر آنے میں کامیاب ہوئے۔

اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں پر گاڑی کلومیٹر کی بجائے میلز کے حساب سے چلتی ہے۔ ہائی وے پر گاڑیاں کافی سپیڈ سے چلتی ہے۔ یہاں پر پیٹرول کو گیسولین کہا جاتا ہے مزید مختصر کر کے گیس کہا جاتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے سائیکل کو بائیک کہا جاتا ہے۔ سڑک پر ایک لائن بائیک کے لئے مختص ہوتی ہے اور ایک معذور افراد کے لئے ہوتی ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سب اپنی لائن میں رہتے ہے اور ٹریفک قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ کوئی گاڑی دوسری گاڑی کو اوور ٹیک نہیں کرتی ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے یہ بھی تو ہماری طرح کے انسان ہے پر یہ ہم سے اتنا مختلف عمل کیسے کر لیتے ہے۔ پیدل چلنے والے افراد کے لئے الگ سے سگنل ہے وہ بٹن پریس کر کے با عزت اور حفاظت سے سڑک پار کر سکتے ہے۔ ہمارے معاشرے کے بر عکس یہاں پر پیدل اور باہیکر کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کی سب سے اچھی بات جو مجھے لگی ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کو دیکھ کر مسکراتا ہے اور ہیلو بولتا ہے۔

اگر آپ کی انگلش اچھی نہیں ہے آپ ٹھیک طرح سے بول نہیں پاتے ہے تو انگریزی اچھی نہ ہونے کی وجہ سے مذاق نہیں اڑایا جاتا ہے اور نہ ہی تضحیک کی جاتی ہے۔ اگر یہاں کے لوگوں کو پتا چل جائے کہ پاکستان میں انگریزی اور انگریزی بولنے والے کی کیا اہمیت ہے تو یہ صدمہ سے بیہوش ہو جائے۔ ہمارے ہاں ذہانت اور قابلیت کا معیار صرف اچھی انگلش بولنے کو گردانا جاتا ہے۔

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments