بابا رام دیو شدید تنقید کا نشانہ: یوگا گورو کے ’بےحس، غیر ذمہ دارانہ اور حوصلہ شکن‘ بیانات


بابا رام دیو

بابا رام دیو ایک بہت بڑا اور کامیاب کاروبار بھی چلاتے ہیں

انڈیا میں ڈاکٹروں نے یوگا گورو بابا رام دیو کے جدید طب کے بارے میں دیے گئے بیانات پر شدید تنقید کی ہے۔

بابا رام دیو نے حال ہی میں کہا تھا کہ جدید ادویات لینے کے بعد ہی دسیوں ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے ان لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جو آکسیجن سیلِنڈر حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بابا رام دیو کی تیار کردہ کورونا کی دوا پر وزیر صحت سے جواب طلب

’کورونیل‘: یوگا گُرو رام دیو کی کمپنی کی ’کورونا دوا‘ کی حقیقت

’مسلمانوں کو بھی گائے کا پیشاب قبول کرنا چاہیے‘

انڈیا کے وزیر صحت کی طرف سے تنقید کے بعد بابا رام دیو نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد پیر کو بابا رام دیو نے ایک بار پھر جدید طب کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ اس نظام میں کئی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں۔

جدید طب جسے ‘ایلوپیتھی’ بھی کہا جاتا ہے، انڈیا کے نظام صحت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ملک میں آیُروید اور ‘ہومیوپیتھی’ جیسے نظام بھی بہت مقبول ہیں۔

بابا رام دیو کی ہی طرح کئی گوروؤں نے جڑی بوٹیوں سے تیار کی جانے والی ادویات بیچنے کی کامیاب کاروبار کھڑے کر رکھے ہیں۔

انڈین حکومت میں آیُروید، نیچروپیتھی، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی کی ایک ‘آیوش’ نامی وزارت بھی ہے جس کا مقصد روایتی طب کو فروغ دینا ہے۔

انڈین میڈیکل ایسو سی سیشن (آئی ایم اے) نے ایک عالمی وبا کے دوران دیے جانے والے ان بیانات کو ‘بےحس’ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرنے والے ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک ایسے گورو کی طرف سے جنہیں لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں، اس طرح کا بیان ‘غیر ذمہ دارانہ اور حوصلہ شکن’ ہے۔

تنازع ہے کیا؟

اس ماہ کے اوائل میں بابا رام دیو کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں انہیں آکسیجن حاصل کرنے کی کوشش پر مریضوں کا مذاق اڑاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ بات واضح نہیں کہ انھوں نے یہ بیان کب دیا لیکن انھیں آکسیجن کی قلت کے بارے میں بات کرتے سنا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘بھگوان نے ہمیں مفت آکسیجن دے رکھا ہے، اس کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ قلت کیسے ہو سکتی ہے جب بھگوان نے فضا کو آکسیجن سے بھر رکھا ہے؟ بےوقوف لوگ آکسیجن سِلِنڈروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ مفت کی آکسیجن کا سانس لو۔ آکسیجن اور بیڈوں اور شمشانوں کی کمی کے بارے میں شکایت کیوں کر رہے ہو؟’

اس پر ڈاکٹروں اور کووڈ سے متاثرہ افراد کے گھر والوں کی طرف سے سخت تنقید ہوئی، اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ رام دیو معافی مانگیں۔

https://twitter.com/aninda12987/status/1396097493700595720?s=20

اس کے دو ہفتے بعد ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں انھیں ڈاکٹروں پر تنقید کرتے ہوئے اور انھیں کووڈ سے ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

کئی ڈاکٹروں نے ٹوئیٹر پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔ کچھ نے تو رام دیو کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔

https://twitter.com/drasmalhi/status/1396945666757206018?s=20

ڈاکٹر پرگیا شکلا نے ٹویٹ کیا کہ بابا رام دیو ایک اچھے یوگا ٹیچر ہیں اور یوگا زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، انھیں اسی طرف دھیان دینا چاہیے اور میڈیسن کا کام ڈاکٹروں پر چھوڑ دیں۔

https://twitter.com/drpragya_shukla/status/1396862980155854859

دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ انڈیا کے وزیر صحت ہرش وردھن جو کہ خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں، انہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بابا رام دیو سے اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا۔

انہوں نے کہا ‘ایلوپیتھی اور اس سے منسلک ڈاکٹروں نے لاکھوں لوگوں کو نئی زندگی دی ہے۔ آپ کا ہہ کہنا کہ لوگ ایلوپیتھِک ادویات کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں بہت افسوس ناک ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ جنگ صرف متحد ہو کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ اس جنگ میں ہمارے ڈاکٹر، نرس، اور دیگر طبی عملہ لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جان داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اس مشکل وقت میں انسانیت کی خدمت کا ان کا یہ جذبہ لاثانی اور مثالی ہے۔‘

اتوار کو بابا رام دیو نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنا متنازع بیان واپس تو لے لیا لیکن پھر اگلے ہی دن ایک خط میں آئی ایم اے سے یہ پوچھا کہ جدید طب کے پاس اب بھی ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا علاج کیوں نہیں ہے۔

بابا رام دیو، ہرش وردھن

انڈین وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کے ساتھ بابا رام دیو

اس سے ایک بار پھر ڈاکٹروں میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پھیپھڑوں کے امراض کے سرکردہ ماہر ڈاکٹر اے فتح الدین نے کووڈ میں مبتلا ہزاروں مریضوں کا علاج کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کے بیانات سے دیرپا نقصان ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا ‘پچھلے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے میں اور مجھ جیسے ہیلتھ ورکر حالت جنگ میں ہیں۔ ہم نے دسیوں ہزار لوگوں کی جانیں بچائی ہیں۔ اس طرح کے افسوس ناک اور تضحیک آمیز بیانات پڑھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔’

ڈاکٹر اے فتح الدین نے یہ بھی کہا کہ جدید طب کے ارتقا کے پیچھے مسلسل تحقیق اور تدریس کا عمل ہے۔ انھوں نے کہا، ‘ہمارا طریقہ کار شواہد پر مبنی ہے۔ ہر لمحہ ہزاروں تحقیق کار نئے علاج دریافت کرنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ کینسر کے علاج میں جتنی پیش رفت ہوئی ہے اسی کو دیکھ لیں۔ ہمیں مسلسل آگے بڑھنا اور سیکھنا ہے۔ کسی بھی ایسے طبی نظام پر بھروسہ کرنا جو ہر مرض کا علاج کرنے کا دعویٰ کرے مشکل ہے۔’

ان کا یہ بھے کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات سے ایک ایسے وقت میں لوگوں کے ذہن میں شکوک پیدا ہو جاتے ہیں جب اس وبا سے بچنے کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ لوگ ادویات اور علاج پر بھروسہ کریں۔

بابا رام دیو کون ہیں؟

بابا رام دیو پہلی بار اس وقت منظر عام پر آئے جب ٹی وی پر ان کی یوگا کلاسس بہت مقبول ہو گئیں جن سے انھیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔

سن 2006 میں انھوں نے جڑی بوٹیوں پر مبنی ادویات بیچنے کے لیے پتانجلی نامی کمپنی کو لانچ کرنے میں مدد کی۔ کچھ ہی سال بعد پتانجلی نے ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی، آٹے سے لے کر ملبوسات، صابن، تیل، بِسکِٹ یہاں تک کہ گو موتر بھی بیچنا شروع کر دیا۔

کورونِل

اس دوا کو کورونا کے لیے مفید دوا کے طور پر بیچا جا رہا ہے۔

بابا رام دیو کے کاروبار میں وسعت اتفاقاً اسی عرصے میں ہوئی جب سن 2014 میں بی جے پی نے دلی میں اقتدار سنبھالا۔ بابا رام دیو نے کھل کر بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت کی ہے یہاں تک کہ ان کے لیے انتخانی مہم میں بھی حصہ لیا ہے۔

کووڈ کے علاج کے بارے میں غلط دعوے

پچھلے سال جون میں پتانجلی نے کورونِل کے نام سے روایتی انڈین طب پر مبنی ایک دوا بیچنا شروع کی، اور اس کے بارے میں دعویٰ کیا کہ اس سے کووڈ کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

تاہم اس دوا کی مارکیٹنگ کو اس وقت روکنا پڑا جب حکومت نے یہ کہا کہ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی شواہد نہیں ہیں۔ تاہم حکومت نے اس پر یہ کہہ کر پابندی نہیں لگائی کہ اس سے قوت مدافعت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد فروری میں پتانجلی کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ کورونِل کو عالمی ادارہ صحت نے منظوری دے دی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت نے اس کی تردید کی۔

https://twitter.com/WHOSEARO/status/1362755186112880646?s=20

فروری میں ہی ڈاکٹر ہرش وردھن بابا رام دیو کے ساتھ ایک تقریب میں شریک ہویے جہاں کورونل کے بارے میں اسی طرح کے دعوے دہرائے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp