شہباز شریف متحرک، کیا حزبِ اختلاف پارلیمان کے باہر متحد ہو سکے گی؟


قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے سوموار کو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو عشائیے پر مدعو کیا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سمیت تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

شہباز شریف کی جانب سے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو ایک میز پر اکٹھا کرنے کے اقدام کو اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو متحد کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ اجلاس کے بعد شہباز شریف نے منگل کو مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور سیاسی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس ملاقات کے بعد پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس 29 مئی کو طلب کیا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا رویہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے پر مجبور تو کرتا ہے، لیکن پارلیمنٹ سے باہر اتحاد کی صورت متحد کرنا شہباز شریف کے لیے آسان نہیں ہو گا۔

منگل کی صبح شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے حوالے سے ذرائع بتاتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں نے ملک کی بدلتی سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس جلد بلانے پر اتفاق کیا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو حزبِ اختلاف کے اتحاد میں واپس لانے پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔

شہباز شریف کی طرف سے بلائے گئے حزبِ اختلاف کے پارلیمانی سربراہان کے اجلاس میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن شریک نہیں ہوں گے۔

تاہم، اس سے قبل پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پاس اب بھی پی ڈی ایم میں واپس آنے کا موقع موجود ہے۔

اگرچہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے شرکت نہیں کی۔ تاہم، پارٹی وفد کی شمولیت نے پی ڈی ایم اتحاد میں شمولیت کے تجزیوں کو تقویت دی ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز پر پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے اصرار پر پی ڈی ایم اتحاد میں اختلافات سامنے آئے تھے جو کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں شدید ہونے پر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے حزب اختلاف اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

تجزیہ کار اور سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم میں واپس لانے کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی فی الوقت دو رائے پائی جاتی ہیں۔ لہذا، یہ کہنا کہ حزبِ اختلاف جماعتیں متحد ہو جائیں گی قبل از وقت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ شوکاز والے معاملے کو سلجھانا چاہیے اور گزشتہ اختلافات کو بھلا کر آگے چلا جائے۔ البتہ، مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کا ایک حصہ بضد ہے کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی وضاحت ضرور دے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی شوکاز نوٹس کا جواب دینے کو تیار نہیں۔ بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نوٹس دے کر زیادتی کی گئی ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسے میں شہباز شریف کے لیے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اختلاف کو دور کرنا آسان نہیں ہو گا، کیوں کہ اصل مسئلہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ہے۔

ان کے بقول، شہباز شریف پارلیمنٹ کے اندر حزبِ اختلاف جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر اتحاد کی صورت پارلیمنٹ سے باہر پیش کرنا ممکن دیکھائی نہیں دیتی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکومت بھی یہی چاہے گی کہ حزبِ اختلاف تقسیم رہے اور شاید اسی وجہ سے اپوزیشن رہنماؤں کی نئی گرفتاریاں دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب صورت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے اختلافات کو کم کرنے کی بجائے بڑھانا چاہ ریی ہیں۔

تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ شہباز شریف قائدِ حزبِ اختلاف ہیں اور وہ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن جماعتوں کی خاص طور پر آئندہ بجٹ اجلاس اور انتخابی اصلاحات کی حکومتی قانون سازی کے حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی چاہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف پی ڈی ایم کی فیصلہ سازی میں زیادہ کردار ادا نہیں کر سکتے۔ البتہ، پارلیمنٹ کے اندر بطور قائدِ حزبِ اختلاف وہ اپنے کردار کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر سیاست میں بہت فرق ہوتا ہے، اسی وجہ سے انتخابی اصلاحات جیسے معاملات پر اپوزیشن کو یک جان اور یک آواز ہونا ہو گا۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کا پیدا ہونا اس وجہ سے بھی ہے کہ حکومت کا رویہ اپوزیشن کو مجبور کیے ہوئے ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ حکمت عملی اپنائے۔

مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کا بھی کہنا ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے پارلیمانی رہنماؤں کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں پی ڈی ایم سے متعلق امور زیرِ غور نہیں لائے گئے۔ البتہ، پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ حکمتِ عملی پر گفتگو کی گئی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments