پاکستان امریکہ کو اڈے نہیں تو کیا سہولت دے گا؟


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وضاحت اور وزارت خارجہ کے تردیدی بیان کے باوجود ملک بھر میں یہ سرگوشیاں جاری ہیں کہ افغانستان سے نکل جانے کے بعد پاکستان امریکہ کو عسکری سہولتیں فراہم کرسکتا ہے۔ ان افواہ نما خبروں اور تبصروں کی روشنی میں ہی افغان طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ کسی ایسے اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا جس میں کسی ملک کی زمین اور فضائی حدود افغانستان کے خلاف استعمال ہوسکیں۔

اس بحث کا آغاز گزشتہ ہفتہ کے دوران امریکہ کے نائب وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوے کے ایک بیان کے بعد ہؤا تھا۔ انہوں نے امریکی سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ’ پاکستان امریکہ کو زمینی اور فضائی تصرف فراہم کرتا رہے گا‘۔ اسی بیان میں انہوں نے افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں امریکی عسکری مفادات کی اعانت کے لئے اپنی فضائی حدود اور زمینی سہولتیں استعمال کرنے کی اجازت بھی دی ہے‘۔ اس سوال پر کہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردوں کا مسکن بننے سے کیسے روکا جائے گا، ڈیوڈ ہیلوے نے کہا تھا کہ ’اس حوالے سے ہم اپنے مقامی اور علاقائی حلیفوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ اس تعاون کے نتیجہ میں کسی بھی قسم کے خطرہ سے نمٹنے کے لئے ضروری صلاحیت اور ڈھانچہ دستیاب رہے‘۔

افغان طالبان کا انتباہ امریکی اعلیٰ عہدیدار کے اسی بیان کے نتیجہ میں سامنے آیا ہے۔ ایک بیان میں طالبان کا کہنا ہے کہ ’اللہ معاف کرے اگر کسی ملک نے افغانستان کے خلاف اپنی زمینی و فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تو ایسا اقدام تاریخی غلطی اور شرمندگی کا باعث ہوگا۔ ہم نے متعدد بار یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح ہم دوسرے ملکوں کو بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین یا فضائی حدود کو ہمارے وطن کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں‘۔ افغان طالبان کا یہ انتباہ براہ راست پاکستان کے بارے میں امریکی نائب وزیر دفاع کے بیان پر رد عمل ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے پاکستانی وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ کو اڈے فراہم کرنے کاکوئی منصوبہ زیر غور ہے۔ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کو اڈے بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔ آپ ماضی کو بھول جائیں۔ میں اب تمام پاکستانیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عمران خان کے دور حکومت میں کوئی فوجی اڈا فراہم نہیں کیا جائے گا‘۔

اس سے ایک روز پہلے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان میں امریکی فوجی موجودگی یا اسے فضائی اڈے فراہم کرنے کی خبریں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ ان سے گریز کی ضرورت ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کوئی امریکی فوجی یا فضائی اڈا موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے‘۔ البتہ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001 سے ائیرلائنز کمیونیکیشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائنز کمیونیکیشنز (جی ایل او سی) کا فریم ورک موجود ہے۔ امریکہ کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا گیا‘۔

وزارت خارجہ کے بیان کے اس حصہ سے وضاحت کی بجائے ابہام پیدا ہؤا ہے اور نت نئی موشگافیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ شاید اسی لئے شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ کی وضاحت کے باوجود اگلے ہی روز سینیٹ میں امریکی اڈوں کے بارے میں اپنی حکومت کی دوٹوک رائے اور عزم کا اظہار کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے بھی یہ تفصیل بتانے سے گریز کیا کہ پھر جن زمینی و فضائی سہولتوں کی یقین دہانی امریکہ کو کروائی گئی ہے، وہ کیا ہیں ۔ امریکی اعلیٰ عہدیدار نے کس بنیاد پر امریکی سینیٹ کمیٹی کو پاکستان کے عسکری تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے تاکہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد بھی امریکہ وہاں کی صورت حال پر نظر رکھ سکے اور اگر اسے وہاں سے کسی ممکنہ دہشت گرد گروہ کے توانا ہونے کا اندیشہ ہو تو ااس کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ پاکستان کا کردار اس حوالے سے غیر واضح اور مبہم ہے۔ وزیر خارجہ جذباتی بیانات اور پر تصنع لفاظی سے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

خاص طور سے شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد افغان طالبان کا انتباہ سامنے آنے سے ان شکوک میں اضافہ ہوگا۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اس حوالے سے چہ میگوئیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ گو کہ عسکری و دفاعی تجزیہ نگاروں نے بھی پاکستان میں امریکی اڈوں کے امکان کو ناقابل عمل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ماضی میں کی جانے والی غلطی کو دہرایا نہیں جائے گا۔ 11/9 کے بعد پاکستان میں پرویز مشرف حکومت نے جب افغانستان میں جنگ کے لئے امریکہ کے ساتھ تعاون کا آغاز کیا تھا تو امریکہ کو پاکستان میں فضائی اڈے بھی فراہم کئے گئے تھے اور اپنی سرزمین سے افغانستان پر ڈرون حملے کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ البتہ نومبر 2011 میں سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو افواج کے حملے میں متعدد پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد امریکہ سے پاکستانی اڈے واپس لے لئے گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تعاون کی تفصیلات منظر عام پر نہیں ہیں۔ اب وزارت خارجہ کے بیان میں 2001 کے معاہدوں کا حوالہ دینے سے یہ اندیشہ پیدا ہؤا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ابھی تک افغانستان کے حوالے سے تعاون کے معاہدے موجود ہیں لیکن ان کی نوعیت اور سنگینی کا کوئی علم نہیں ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکہ کو زمینی یا فضائی اڈے نہ دینے کے دعوے بھی اس حوالے سے پیدا ہونے والے شبہات کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اسی پس منظر میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اوررکن قومی اسمبلی سعد رفیق نے وزارت خارجہ کے بیان کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے حکومت سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے کہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’بتایا جائے کہ جن معاہدوں کا ذکر وزارت خارجہ نے کیا ہے ان کی تفصیلات کیا ہیں اور اس میں کن باتوں پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اگر یہ معاہدے غیر مؤثر ہوچکے ہیں تو ان پر عمل درآمد کب ختم کیا گیا تھا‘۔ انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ کابینہ نے اس اہم معاملہ پر غور تک نہیں کیا اور نہ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بحث کی گئی ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت قومی سلامتی سے متعلق اس اہم معاملہ کی تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرے۔

دیگر اپوزیشن پارٹیوں جن میں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) شامل ہیں ، نے بھی اس صورت حال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔ وائس آف امریکہ نے خبر دی ہے کہ اس کے رپورٹر نے اس بارےمیں وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد چوہدری سے رابطہ کرکے وضاحت مانگی تھی لیکن انہوں نے سابقہ بیان سے زیادہ کچھ کہنے سے انکار کردیا۔ اس قسم کی ’خاموشی‘ اور غیر واضح سرکاری رویہ قومی سلامتی سے متعلق اہم معاملہ پر پریشانی میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ وزارت خارجہ جس معاملہ پر ’غیر ذمہ دارانہ قیاس آرائیوں‘ سے گریز کا مشورہ دے رہی ہے، اگر خود ہی اس پر تفصیلات سامنے نہیں لائے گی اور میڈیا میں اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں دیا جائے گا تو افواہوں کا سلسلہ نہیں رکے گا اور حکومت کے ارادوں کے بارے میں شبہات تقویت پکڑتے رہیں گے۔

اس دوران وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے جینوا میں اپنے امریکی ہم منصب جیک سلیوان سے ملاقات کی ہے اور خبروں کے مطابق انہیں مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کے حوالے سے ’پاکستانی پلان‘ پیش کیا ہے۔ اس منصوبہ میں پاکستان نے اصرار کیا ہے کہ اب دونوں ملکوں کے تعلقات کو جیو اسٹریٹیجک کی بجائے جیو اکنامک بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے۔ اس رائے کا اظہار پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کی طرف سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دینے کے لئے شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک 14 رکنی ایپیکس کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ اس کمیٹی نے امریکہ سے تجارتی مراعات اور مالی سرمایہ کاری کے متعدد پہلوؤں کی نشان دہی بھی کی ہے۔  تاہم اسے دو ملکوں کے درمیان کسی متفقہ منصوبہ کی بجائے پاکستان کی ’وش لسٹ‘ قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ امریکہ نے افغان عمل میں پاکستانی کردار کی تعریف کے علاوہ ابھی تک پاکستان کو کوئی مالی فائدہ پہنچانے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ تاہم پاکستان امریکی عہدیداروں پر یہ واضح کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ افغانستان میں خدمات کے عوض امریکی امداد کی بجائے معاشی مراعات کے دروازے کھولے جائیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ حکمت عملی کس حد تک قابل عمل ہے اور امریکہ سے مراعات لینے کے لئے پاکستان اسے کیا سہولتیں دینے پر آمادگی ظاہر کررہا ہے۔

تاہم امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے جو اشارے سامنے آئے ہیں، ان سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکہ اس وقت تک پاکستان کو کوئی سہولت یا رعایت دینے پر آمادہ نہیں جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوجاتا اور طالبان افغان حکومت کے ساتھ مل کر عبوری حکومت قائم کرنے اور مستقبل کے آئینی ڈھانچے پر متفق نہیں ہوجاتے۔ یہ بات کہنے میں جتنی آسان لگتی ہے، اس پر عمل درآمد اتنا ہی مشکل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ شبہات کو قوی کرنے کی بجائے امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاملات کے حوالے سے حقیقی صورت حال سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ یا پھر منتخب حکومت یہ واضح کرے کہ افغان طالبان کے ساتھ معاہدوں اور امریکہ کے ساتھ عسکری تعاون کے معاملات اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments