مولانا کو بخش دیں


جب سے ایک مولانا صاحب نے کپڑے لتے کا کاروبار شروع کیا ہے ہر کوئی مولانا کے ہی لتے لے رہا ہے۔ مولوی صاحب نے کاروبار کیا شروع کیا ہے ان پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہو گئی ہے۔ سچی بات ہے میں تو پریشان ہو گئی ہوں کہ کیا اس معاشرے میں مولوی کا کوئی حق نہیں کہ وہ بھی کام کرے۔ کیا لازم ہے کہ وہ ختم شریف اور مدرسے کے نام پر آئے صدقہ و خیرات پر ہی گزارہ کرے۔ جمعرات کی روٹی کو ہی کافی جانے۔ اعتراض کرنے والوں کو یہ تو سوچنا ہی چاہیے کہ پورے ہفتہ میں صرف جمعرات ہی نہیں ہوتی، ہفتہ میں باقی دن بھی تو ہوتے ہیں اور اس کو ان باقی دنوں میں بھی بھوک لگتی ہے اور پھر کھانے کے ساتھ دیگر لوازمات بھی تو ہوتے ہیں۔

جو صرف جمعرات کی روٹی سے پورا نہیں ہو سکتے۔ تو آپ ہی بتائیے مہنگائی کے اس دور میں باقی کے دن وہ کیسے گزارا کرے۔ زمانے کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے اور اگر زمانے کے ساتھ ساتھ کچھ مولوی جدت پسند ہو گئے ہیں، وہ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے لگے ہیں۔ تو آپ ہی بتائیے صاحب بھلا کیا برا کرتے ہیں وہ۔ مدرسے چلانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے مدرسے کے نام پر آئے صدقہ خیرات کو اپنی ذات پہ خرچ کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔

کہ کبھی بھی ایسا وقت آ سکتا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں حساب دینا پڑ جاتا ہے۔ مدرسے کی آمدن سے سے مولوی کی گزر بسر تو اچھی ہو جاتی ہے لیکن بہت اچھی اور پر آسائش زندگی گزارنے کے لیے پارٹ ٹائم بزنس کرنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ کچھ مولویوں کو سمجھ آ چکی ہے کہ مولوی کا بھی حق ہے کہ وہ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح زندگی گزار سکے۔ تھوڑے سے کام نہ چلے تو زیادہ منافع بخش کاروبار شروع کرے، شاندار گاڑی میں گھومے، بڑے سے بنگلے میں رہے۔

نا کہ مسجد کے چند فٹ کے حجرے میں اپنے خاندان کی خواہشات کو دفن کر دے اور خود بھی گھٹ گھٹ کر اس میں مر جائے۔ خدا کے لیے رحم کریں۔ ایک اچھی زندگی کی خواہش کرنا اور اس کے لیے تگ و دو کرنا گناہ نہیں، بلکہ انسان کا حق ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ مولوی کو بھی اے سی کی ٹھنڈی ہوا اچھی لگتی ہے۔ مہنگی گاڑیوں میں بیٹھنے کو اس کا بھی دل کرتا ہے، کشادہ گھر اسے بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اور اگر کوئی مولوی اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے محنت کر کے یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے، اچھا کاروبار کرتا ہے، زیادہ منافع کمانا چاہتا ہے، تو کچھ غلط نہیں کرتا ہے۔ مولوی بھی انسان ہے اور اس کے اندر بھی ایک دل ہے جو دھڑکتا ہے، اور دھڑکتے دل کے ایک سو ایک ارمان۔ جنت میں جانے کے لیے صرف جنت کے نقشے کھینچنے سے کام نہیں چلتا، جنت جیسی زندگی کے لیے کچھ عملی قدم بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔ اور اگر کوئی مولوی یہ عملی قدم اٹھائے تو غلط نہیں ہے۔

مولانا صاحب کے کاروبار شروع کرنے پر لوگوں کے اعتراض ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ اکثر لوگ مولانا کے کاروبار کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے اور اس میں ہزار طرح کی قباحتیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ کوئی ان کی مہنگی برینڈ پر نالاں ہیں تو کوئی خواتین کے ملبوسات پر اور کچھ ایسے بھی ہیں جو مولانا کے ناڑا بیچنے پر معترض ہیں۔ اور ان کے زیادہ نفع کمانے کو گناہ سمجھ رہے ہیں۔ اب ناسمجھوں کو کون سمجھائے کہ مولانا ہم آپ سے زیادہ صاحب فہم و فراست رکھتے ہیں۔ وہ گناہ ثواب، بھلا برا سب سمجھتے ہیں۔ کاروبار کرنا ان کا شرعی و قانونی حق ہے۔

لیکن کچھ لوگ mtj برینڈ کی قیمتیں دیکھ کر معترض ہو رہے ہیں۔ اور شکوہ کرتے نظر آئے ہیں، کہ مولانا کے برینڈ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں، مولانا دنیا دار ہو گئے ہیں اور زیادہ منافع کمانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ mtj کوئی عام مولوی نہیں ہیں، یہ بہت بڑے مبلغ ہیں اور بڑے مبلغ ہونے کی وجہ سے ان کے تعلقات بھی عام لوگوں سے نہیں ہیں۔ اگر ان کے تعلقات خواص سے ہیں تو پھر ان کا کاروبار بھی ہم جیسے عام لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ تو جب عام لوگوں نے اس برینڈ کو خریدنا ہی نہیں تو پھر وہ زیادہ منافع کمائیں یا کم، عام لوگوں کے اعتراض کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

لیکن جس بات کے لیے میں نے ساری تمہید باندھی ہے وہ ان کا کاروبار یا اس کا منافع ہر گز نہیں ہے۔ اور نہ ہی مجھے mtj کی گرینڈ اوپننگ کو ڈسکس کرنا ہے۔ کہ اس برینڈ کی تشہیر کے لیے جو ساری رسمیں کی گئیں مولانا ماضی میں اس کے لیے اسراف اور گناہ جیسے لفظ استعمال کرتے رہے ہیں، اور نہ ہی مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس ایونٹ پر جتنی لاگت آئی اس سے کتنی غریب بچیوں کی شادی یو سکتی تھی، یا کتنے قرض داروں کا قرض ادا کیا جا سکتا تھا۔

کیونکہ یہ بات تو مولانا صاحب ہم آپ سے بہتر جانتے ہیں۔ سو اس کو زیر بحث لانا ہی فضول ہے۔ سادگی کا درس دیتے اگر کوئی خود تھوڑا ماڈریٹ ہو جائے تو بھی ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ لہذا بولنے والوں کو مولانا صاحب کے کاروبار پر بیان بازی بند کر دینی چاہیے۔ صاحبان بہت ہو گیا، خدا کے لیے مولانا کو بخش دیں

کہ مولوی کا کاروبار ہے تو مرضی بھی مولوی کی ہونی چاہیے۔ مجھے تو بس اس سوال کا جواب چاہیے جو بہت سارے دنوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی مولانا اپنی شہرت کا فائدہ اٹھا کر کسی کاروبار سے ضرورت سے زیادہ منافع کمائے تو کیا اس پر بھی حرام کمائی کا فتوی لگ سکتا ہے یا پھر وہ کاروبار حلال ہی رہتا ہے۔ یا پھر کوئی مفتی اگر تھوڑا سا دل پھینک واقع ہو، جو کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کو ممنوعہ مشروب پینا پسند کرے۔

نا محرم عورتوں کو تنہائی میں خلوت میں دین سمجھانے کی کوشش کرے تو کیا یہ تبلیغ جائز ہوگی، یا کوئی مولوی مدرسے کے طالبعلم کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا لے تو اس پر کسی جید عالم دین کسی مفتی کی خاموشی اسے اسلام سے خارج تو نہیں کر دیتی۔ کیا مولوی پر بھی کوئی حد لگ سکتی ہے؟ میں اکثر سوچتی ہوں کہ مولوی حضرات پر کبھی کسی قسم کا فتوی نہیں لگتا، اور نہ ہی خدا کے احکامات کی نافرمانی پر اس کا قتل واجب قراردیا جاتا ہے۔ اور نہ ہی خدا کی نافرمانی پر اس کے سر کی قیمت لگتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ”کم فہم“ سوچے کہ شاید ”خدا گم ہو گیا ہے“ تو دین کے محافظ اس کا قتل واجب قرار دے دیتے ہیں، اس کے سر کی قیمت مقرر کر دیتے ہیں۔ کسی کی سوچ کی اتنی بڑی سزا، اور کسی کے عمل پر گہری چپ۔ آخر کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments