دروازوں کے باہر چاندنی: مختصر تعارف


وبا کے دنوں میں جب ڈر، خوف اور مایوسی کی فضا نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے استاد محترم ڈاکٹر احتشام علی کی کتاب ”دروازوں کے باہر چاندنی“ نے احمد مشتاق کی شعری دنیا کو منور کر کے تازگی کا ایک خوبصورت جھونکا ادبی دنیا پر ڈالا۔ احمد مشتاق کی شاعری ماضی اور ہجرت کا نوحہ ہے۔ وہ ان چیزوں پر دکھ کا اظہار کرتا ہے جو ماضی کا حصہ بن گئی ہیں مگر کھو دینے کا دکھ اسے قنوطیت میں مبتلا نہیں کرتا۔ بلکہ وہ ان جذبات اور احساسات کو بڑی نفاست سے اپنے اشعار میں سمیٹ لیتا ہے۔ وہ اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف ہے مگر حیرت کی بات یہ کہ دو بڑے جدید شعرا ناصر کاظمی اور منیر نیازی کے ہم پلہ شاعر احمد مشتاق سے آج بھی کچھ ناقدین ناواقف ہیں۔ ایسے میں ”دروازوں کے باہر چاندنی“ ادب کے قارئین کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔

محمد سلیم الرحمن لکھتے ہیں ”احمد مشتاق آئینہ فروش نہیں آئینہ نما ہے۔ اس کے شعروں میں دنیا کا عکس پڑتا ہے دلوں کی بے کرانی کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ غزلیں کہاں ہیں یہ شعر کہاں سے ہیں یہ تو کسی بہت بڑے آئینے کی ٹوٹ پھوٹ کی گواہیاں ہیں۔ دل بھی ٹوٹ جاتا ہے لیکن آئینے کے پرخچوں میں کی طرح کبھی آسمان کو سمو لیتا ہے، کبھی زمین کی سیر دکھاتا ہے۔ شاید اس کلام میں آئینوں کے بجائے بے داغ شیشوں کی سی شفافیت اور سفاکی ہے۔

آر پار ہر شے یوں نظر آتی ہے جیسے درمیان میں کچھ حائل نہیں۔ پرندے اڑتے آتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ سامنے جو ہرا بھرا گھنا درخت ہے اس پر آشیاں بنائیں گے۔ آ کر شیشے سے ٹکراتے ہیں اور مرتے مرتے سوچتے ہیں کہ دنیا کتنی پرفریب ہے۔ یہی ان شعروں کی شفافیت اور سفاکی ہے کہ جہاں بات بن گئی ہے اور اکثر بن ہی جاتی ہے، اسے پڑھ کر دل دو نیم ہوجاتا ہے ”

استاد محترم ڈاکٹر احتشام علی کی یہ کتاب احمد مشتاق کی شاعری کے نظریاتی اور عملی نقطہ نظر پر محیط ہے۔ آئینوں کی ٹوٹ پھوٹ کے وہ تمام مناظر اس کتاب میں یکجا ہو گئے ہیں جن کا ذکر محمد سلیم الرحمن نے کیا۔ ڈاکٹر احتشام علی نے احمد مشتاق کی شاعری کو جس تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھا قابل ذکر ہے۔ گزشتہ برس ان کی دو کتابیں ”جدید اردو نظم کی شعریات“ اور ”جدید اردو نظم کا نو آبادیاتی تناظر“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تنقیدی کتب کے علاوہ ایک شعری مجموعہ بھی ”ہم سفر کوئی نہیں“ کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔ ”دروازوں کے باہر چاندنی“ کو عکس پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ 176 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 500 رکھی گئی ہے۔ کتاب کا آغاز احمد مشتاق کے اسی شعر سے ہوتا ہے جس سے کتاب کا نام لیا گیا ہے۔

پہلے در آتی تھی جب بستی میں آتا تھا کوئی
اب کھڑی رہتی ہے دروازوں کے باہر چاندنی

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم ایسا الم ناک حادثہ تھا کہ کوئی ادیب اس کا اثر لیے بغیر رہ نہ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت اردو شاعری کا ایک بڑا اور اہم موضوع ہے۔ ہجرت نے جس طرح ناصر کاظمی جیسے بڑے شاعر کے ذہن کو متاثر کیا اسی طرح ہجرت کا ایک ایک واقعہ احمد مشتاق کے ذہن میں بیٹھ گیا۔ احمد مشتاق ایسا اجنبی مسافر بن گیا کہ پرانی یادیں اور صحبتیں اس کی شاعری کا اندوختہ بن گئیں۔ ڈاکٹر احتشام علی نے نہ صرف ان یادوں اور صحبتوں کو تلاش کیا بلکہ اس دکھ کو ایسے معنی عطا کیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ سچ پوچھیے تو شاعری پر ایسی شاندار اور جامع تنقیدی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ کتاب کے تیسرے باب ”شعریات“ میں احمد مشتاق کا کلام پیش کرنے کے بعد جس طرح ہر شعر کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا قابل ستائش ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں

ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی
صدا آتی ہے ان کو بھول جائیں

”ہوا کی علامت اپنے ساختیے میں جن کیفیات کو صورت پذیر کرتی ہے ان کا تعلق براہ راست انسانی حسیات سے ہوتا ہے۔ درج بالا شعر میں ’پچھلے موسموں کی ہوا‘ ان گزرے موسموں اور کھوئی بستیوں کی طرف کنایہ کرتی ہے، جنھیں حالات کی جبریت کے تحت چھوڑنا پڑتا ہے اور پھر جلاوطنی اختیار کرنے والوں کی باقی زندگی ان کی یاد میں بسر ہوجاتی ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ’صدا‘ وقت کی اس بے رحمی کا اعلامیہ جو انسان کو اس کی سرزمینوں سے ہی بے دخل نہیں کرتا بل کہ اس کی یاداشت سے گزرے موسموں کے نقش بھی دھندلا دیتا ہے۔“ مجموعہ ”کی غزلوں میں شاعر ’ہوا‘ کی علامت کے ذریعے جہاں گزرے حوادث کا نوحہ لکھا ہے وہیں اس آشوب کے نتیجے میں جنم لینے والے داخلی بکھراؤ کی بھی بھرپور عکاسی کی ہے۔“

(صفحہ نمبر 30 )
کیسے نفیس تھے مکاں صاف تھا کتنا آسماں
میں نے کہا کہ وہ سماں آج کہاں سے لائیے
شہر تو کب کا مٹ چکا لیکن اب تک یاد ہیں
کسی مکاں کی جالیاں شیشے کسی مکان کے
اجنبی لوگ ہیں اور ایک سے گھر ہیں سارے
کس سے پوچھیں کہ یہاں کون سا گھر کس کا ہے

”یہ نفیس مکانوں والا شہر آخر کہاں واقع ہے جو شاعر کے لاشعور کی چلمن سے نکل کر بار بار اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے؟ کیا اس شہر کا تعلق اجتماعی حافظے کی بازیافت سے ہے یا یہ شہر ان تشنہ امنگوں اور آرزووں کی نمائندگی کرتا ہے جو کسک بن کر لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں؟ پہلے دو اشعار اسی شہر کے مٹ جانے کا تذکرہ ہیں۔ اور تیسرے شعر میں شاعر نے اجنبیت اور مغائرت کی اس کیفیت کو بیان کیا ہے جو نئے دیار میں اس کے وجود کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔

اجنبی لوگوں اور ایک جیسے گھروں والے شہر کی گلیوں میں مسافرت کے عذاب جھیلتا شعر کا متکلم یہاں کسی اور کے نہیں بالکل اپنے کھوئے ہوئے گھر کا پتا ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ گھر جس کی آرزو میں اس نے راہ کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اپنی جنم بھومی کو خیر آباد کہا۔ اجنبی دیاروں کا سفر کیا لیکن بعد ازاں وہی گھر اس کے لیے وجودی بیگانگی کے ایسے مظہر میں تبدیل ہو گیا جس نے اسے شعوری ہی نہیں بلکہ لاشعوری سطر پر بھی منقسم کر دیا۔ شعر کا متکلم اپنی کٹی پھٹی شخصیت کے ساتھ موجودگی کے کرب کو دامن میں سمیٹے ہر لمحہ یاد آوری کے ایسے عمل سے گزر رہا ہے جہاں گزرے دنوں کی کرچیاں اس کی آنکھوں میں چبھ رہی ہیں۔ ”

(صفحہ نمبر 42 )
جدید دور کے انسان اور اس کے خوابوں کے حوالے سے ایک خوبصورت اقتباس دیکھیے۔

”جدید عہد کا ایک باشعور انسان اپنے خوابوں کے جلو میں بھٹکتا اور لایعنیت کے اندھے غاروں کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دور کی ابتدائی غزلوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں ’خواب‘ اور خواب فراموشی ’کا استعارانہ اظہار جابجا نظر آتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے :

گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے ہم
کیا خبر تھی زندگی سے سامنا ہو جائے گا

یہ شعر جو دیکھنے میں انتہائی سیدھا معلوم ہوتا ہے، اس اسلوب کا عمدہ ترین نمونہ ہے جسے ابوالکلام قاسمی نے احمد مشتاق کے ’رمزیہ اسلوب‘ سے تعبیر کیا ہے۔ گھر سے کچھ خوابوں کے تعاقب میں نکلنے والا متکلم بہ یک وقت دکھ اور تحیر جیسی کیفیات سے دو چار نظر آتا ہے۔ گھر سے خوابوں کے تعاقب میں نکلنا اس نادیدہ قوت کی پکار پر لبیک کہنے کا اظہاریہ ہے جو انسان کو اس کی ذات کا ایقان دیتی ہے۔ یہاں صورت حال پاولو کوئلو کے مشہور زمانہ ناول ’الکیمسٹ‘ کے ہیرو والی ہے، جو اپنے ایک مسلسل خواب کی تعبیر (خزانے کی صورت میں ) ڈھونڈنے نکلتا ہے، لیکن منزل پر پہنچ کر اسے پتا چلتا ہے کہ خزانہ تو اس کے اپنے ہی گھر میں دفن ہے۔

درج بالا شعر کا متکلم اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے گھر سے تو نکل پڑا ہے مگر اس کے راستے میں زندگی اپنی تمام تر برہنہ اور سفاک سچائیوں کے ساتھ آن کھڑی ہوئی ہے۔ یہاں شعر کے متکلم نے ہمیں پاولو کوئلو کے ناول کی طرح پوری کہانی نہیں سنائی بلکہ آدھی کہانی سنا کر تعبیر قاری پر چھوڑ دی ہے۔ نتیجتاً یہ شعر ایک ایسے منی بیانیے میں تبدیل ہو گیا ہے جس میں عمل بیان (Narrative act) کی کارفرمائی نظر آنے لگی ہے۔ اور دوسرے مصرعے کی قرات کے بعد قاری کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتا۔ متن میں بیانیے کی اثر پذیری کو سمجھنے کے لیے درج ذیل سوالات دیکھیے

اپنے خوابوں کے تعاقب میں نکلنے والا مسافر، زندگی سے سامنا ہونے کے بعد :
اپنی منزل تک پہنچ گیا تھا؟
کار زیست میں الجھ گیا تھا؟
راستے میں ہی ہار مان گیا تھا؟
جوکھم سے گھبرا گیا تھا؟
یا اس کے ذہن سے تمام خواب ہی محو ہو گئے تھے؟

درج بالا سوالوں کا کوئی بھی حتمی جواب نہیں ہے۔ رمز در رمز کا ایک سلسلہ ہے جس کی کھوج میں نکلیں تو پتا چلتا ہے کہ احمد مشتاق کا بظاہر عام سا نظر والا شعر بھی معنی کی کئی پرتیں رکھتا ہے ”

(صفحہ نمبر 56 )

استاد محترم ڈاکٹر احتشام علی نے کتاب میں احمد مشتاق کی شاعری کے اتنے پہلو سموئے ہیں کہ سب کو یہاں بیان کرنا مشکل ہے۔ کئی ایسے ابواب ہیں جو لفظ بہ لفظ پڑھے جانا ضروری ہیں۔ ہزاروں ایسے جملے ہیں جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر احتشام علی نے شاعر کے ساٹھ سالہ شعری سفر کے ساتھ ساتھ ان کے شعری تراجم بھی مرتب کیے ہیں جو ایک بڑا علمی اور ادبی کارنامہ ہے۔

احمد مشتاق کے شعری مجموعوں سے میرے پسندیدہ چند اشعار

غم کی مجلس میں بھی لازم نہیں سب کا رونا
نہیں روتے ہمیں اچھا نہیں لگتا رونا

کرتا رہتا ہوں اسے یاد مگر ساتھ ہی ساتھ
دل سے کہتا ہوں کہ اب یاد میں کیا رکھا ہے

یہ فکر تھی پہلے کہ سفر کیسے کٹے گا
اب سوچ رہے ہیں کہ بہت تیز چلے ہم

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے درو بام ترے
اے مکاں! بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا
یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments