کیا عمران خان اور مریم نواز ایک پیج پر ہیں؟


ن لیگ کی گوگلی کبھی کسی کو سمجھ آتی ہے کبھی کسی کو نہیں آتی۔ بعض اوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ نون لیگ کی گوگلی خود نون لیگ والوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ اسے مرشد کی دعا کہا جائے یا حکیم کی دوا کہیں کہ نون لیگ کا سیاسی گراف کریش نہیں ہوتا بلکہ ڈبکی کھانے کے بعد پھر ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ جب شہباز شریف کی حالیہ ضمانت منظور ہوئی تو سیاسی لوفروں کا خیال تھا کہ اب نون لیگ کی سیاست پر شہباز شریف کی سوچ غلبہ کرے گی جسے اگر موم کی ناک نہ بھی کہا جائے تو مولٹی فوم کی ناک ضرور کہا جاسکتا ہے جو لوہے کی طرح سخت نہیں اور نہ ہی موم کی طرح نرم ہے بلکہ فوم کے گدے کی طرح ہے جو دباؤ پڑنے پر بیٹھ جاتا ہے اور دباؤ اٹھنے کے بعد اپنی سطح برابر کر لیتا ہے۔

دوسری طرف نواز شریف جن کی عمل درآمد کنندہ مریم نواز ہیں دونوں کی سوچ اتفاق فاؤنڈری کے فولاد کی طرح ہے جسے اب تک توڑا جا سکا ہے نہ ہی موڑا جا سکا ہے۔ شہباز شریف نے جیل سے باہر قدم رکھتے ہی پھرتیلے سیاست دان کی طرح سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں۔ پارٹی اراکین سے ملاقاتیں، دوسرے سیاست دانوں کی مزاج پرسی اور اہم غیرملکی سفارت کاروں سے میٹنگیں وغیرہ دیکھ کر سیاسی لوفروں کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوتی نظر آ رہی تھی۔

پھر اچانک نون لیگ نے گوگلی کھیلی اور شہباز شریف نے ایک ہی دن کے اندر عدالت سے اپنے باہر ملک جانے کی اجازت حاصل کرلی۔ گوگلی کے منتظمین نے یہ انتظام بھی کیا کہ عدالت کا دروازہ عید کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے آخری دن کھٹکھٹایا جائے تاکہ حکومت کے پاس اس عدالتی اجازت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فوری موقع نہ رہے اور چھٹیوں کے باعث حکومت کو عدالت کا دروازہ بند ملے۔ تاہم حکومت کے پاس حکومت چلانے کے لیے نا اہل افراد ہی سہی لیکن اپوزیشن کو ذلیل کرنے کے لیے اہل افراد ضرور ہیں جنہوں نے شہباز شریف کو ائرپورٹ سے واپس بھجوا کر سحری گھر کرنے پر مجبور کر دیا۔

یوں حکومت نے شہباز شریف کے لندن پلان کو فی الحال ڈی پلان کر دیا۔ اس موقع پر نون لیگ نے توہین عدالت، کینسر کے مریض کے انسانی حقوق اور خاص عید کے دن سرکولیشن کے ذریعے شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی فائل منظور کرانے جیسے ایشوز پر حکومت کی بے عزتی بہت خراب کی لیکن نون لیگ کو اب تک یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ بے عزتی خراب تو ان کی ہوتی ہے جن کی کوئی عزت ہو۔ اب سیاسی لوفروں کو یہ فکر لاحق تھی کہ شہباز شریف آخر اچانک لندن کیوں جا رہے ہیں؟

اس کا جواب شہباز شریف کے فوم کے گدے والے مزاج کو سمجھ کر آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہو سکتا ہے صحیح ہو کہ شہباز شریف کی ضمانت میں ان کے یار بیلی چوہدری نثار علی خان نے پل کا کردار ادا کیا ہو۔ چونکہ چوہدری نثار پنڈی میں ہی رہتے ہیں اس لیے انہیں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ انہوں نے پنڈی کا معاملہ پنڈی میں ہی طے کر لیا ہوگا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شہباز شریف کے باہر آنے سے عمران خان بہت پریشان ہوئے لیکن غور کیا جائے تو مریم نواز گروپ بھی کم پریشان نہیں تھا۔

اس کے لیے مریم نواز کے چند ہفتے قبل کے ایک بیان پر دوبارہ غور کرتے ہیں جنہوں نے اس بیان میں کہا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کو سیاسی شہید نہیں ہونے دیں گے بلکہ انہیں پانچ سال پورے کرنے دینے چاہئیں۔ جی ہاں اس بیان کو دوبارہ پڑھیے۔ یہ وہی مریم نواز ہیں جنہوں نے چند ماہ قبل حکومت کو فوری گھر بھیجنے کے لیے دن رات ایک کر دیے اور یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے اہم پارٹنر پیپلز پارٹی کو ناراض بھی کر دیا۔ اب وہی مریم نواز پی ٹی آئی کے پانچ سال پورے کرنے پر راضی نظر آتی ہیں۔

آخر اس میں کیا راز ہے؟ ہو سکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہو سکتا ہے صحیح ہو کہ شہباز شریف کے ساتھ معاملات طے ہو رہے ہوں اور بجٹ کی منظوری کے بعد ان ہاؤس تبدیلی یا الیکشن کے ذریعے نون لیگ مخلوط حکومت میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئے جس کی قیادت شہباز شریف کے پاس ہو۔ ایسی صورت میں مریم نواز یا نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کی امید مزید پانچ برس دور چلی جائے گی۔ پانچ برس لکھنے میں تو محض پانچ ہیں لیکن سیاست میں یہ عرصہ صدیوں سا لگتا ہے۔

مریم نواز اور نواز شریف جانتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات ہوں تو وہ دونوں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ البتہ اگلے دو برسوں کے دوران عدالتوں میں معزز ججوں کی تبدیلی کے بعد ایسے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں جن کے باعث مریم نواز اور نواز شریف کی اپیلوں کو سن کر انہیں بے گناہ قرار دے دیا جائے اور ان کی سزائیں کالعدم ہو جائیں۔ اس کے بعد وہ کسی پبلک عہدے کے لیے اہل ہوسکتے ہیں۔ کیا مریم نواز نے پی ٹی آئی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کی بات اسی لیے کی تھی؟

ہو سکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہو سکتا ہے صحیح ہو کہ پنڈی پلان کے بارے میں لندن پلان کو تیار کرنے کے لیے نواز شریف سے ملاقات کے لیے شہباز شریف لندن جا رہے ہوں۔ یہ معاملہ عمران خان کے لیے تو خطرناک تھا ہی کیونکہ ان کی حکومت چلی جاتی لیکن مریم نواز کے لیے بھی خوش آئند نہیں تھا کیونکہ انہیں اگلے پانچ چھ برس وزارت عظمیٰ سے دور رہنا پڑتا۔ شہباز شریف کے باہر جانے پر رانا ثناء اللہ کی خوداعتمادی بھی قابل دید تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ جو چاہیں کر لیں شہباز شریف باہر جا کر رہیں گے۔

اس وقت تو یہ دیوانے کی بڑھک محسوس ہوئی لیکن جوں جوں وقت گزرا تو رانا ثنا اللہ کی خوداعتمادی پر داد دینے کو دل کیا کیونکہ حکومت عید کے دن سرکولیشن کے ذریعے فائل منظور کروانے کے باوجود شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا نوٹی فکیشن خواہش کے باوجود جاری نہ کر سکی اور حکومت کو قانونی بھول بھلیوں میں ڈالنے کے لیے عید کی تعطیلات ختم ہونے تک روکا گیا۔ ہو سکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہو سکتا ہے صحیح ہو کہ شہباز شریف کے بارے میں عمران خان اور مریم نواز ایک پیج پر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments