بی بی سی کو فواد چوہدری کا انٹرویو: جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے 


وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بی بی سی کو انٹرویو اور گزشتہ روز آزادی صحافت کے لئے اسلام آباد میں ہونے والے ایک احتجاج میں معروف صحافی و اینکر حامد میر کی تقریر کے مندرجات ملک میں میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کو درپیش خطرات کے بارے میں دو متضاد اور مختلف تصاویر پیش کرتے ہیں۔ فواد چوہدری کی بات کو مان لیا جائے تو ملک کے صحافی بیرون ملک امیگریشن لینے کے لئے جھوٹی سچی کہانیاں گھڑتے ہیں اور مغربی میڈیا نے ہر جرم کا الزام آئی ایس آئی پر عائد کرنے کو فیشن کے طور پر اختیار کیا ہؤا ہے۔

اس کے برعکس حامد میر اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج میں شامل ہونےوالے صحافیوں اور سول سوسائیٹی کے ارکان نے ملک میں آزادی رائے کو دبانے، صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرنے اور گھٹن، خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حامد میر اور دیگر کی گفتگو کا رخ اسی آئی ایس آئی کی طرف تھا جس کے بارے میں وزیر اطلاعات نے ٹی وی انٹرویو میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ مغربی میڈیا فیشن کے طور پر آئی ایس آئی اور پاکستانی ایجنسیوں پر الزام عائد کرتا ہے۔ حامد میر خود 2014 میں قاتلانہ حملہ کا سامنا کرچکے ہیں اور انہوں نے اس کا الزام اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام پر عائد کیا تھا۔ اس پس منظر اور قومی میڈیا میں حامد میر کے کردار کو دیکھتے ہوئے یہ تو ماننا پڑے گا اگر وہ صحافیوں پر حملوں میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی بات کررہے ہیں تو یہ مغربی میڈیا جیسی ’فیشن پرستی‘ نہیں ہے بلکہ وہ زمینی حقائق کی بنیاد پر بات کرتےہیں۔

جیسا کہ گزشتہ روز اسد علی طور پر تشدد کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ ’اتنے بہادر ہو تو سینہ تان کر کہو کہ ہاں ہم نے گھر میں گھس کر اس شخص پر تشدد کیا ہے۔ لیکن بزدلی کی یہ حالت ہے کہ یہ ماننے کی بجائے عذر تراشا جاتا ہے کہ کسی لڑکی کے بھائی نے حملہ کیا ہوگا‘۔ واضح رہے کہ اسد علی طور پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ اسد طور کو کسی ذاتی معاملے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے 2017 میں اسلام آباد ہی کے ایک صحافی احمد نورانی پر پراسرار لوگوں کے حملہ کے بعد یہی کہا گیا تھا کہ ان پر کسی ایسی لڑکی کے بھائیوں نے حملہ کیا تھا جسے نورانی تنگ کرتے تھے۔ اسی طرح حامد میر کا یہ مؤقف بھی صائب ہےکہ امیگریشن لینے کا الزام لگانے سے پہلے یہ تو دیکھ لیا جائے کہ اسد علی طور تو اسلام آباد میں ہی موجود ہے۔

ملک میں میڈیا کی صورت حال کے حوالے سے وزیر اطلاعات کا انٹرویو احساس ذمہ داری سے مکمل گریز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فواد چوہدری بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک ‘ میں جرح کے تند و تیز طریقہ کا جواب دینے کے لئے آئےتھے، اس لئے ہر الزام کا جواب مغربی میڈیا پر جوابی حملہ کرکے، دینے کی کوشش کی گئی۔ یا حکومت کو درست ثابت کرنے کے لئے ہٹ دھرمی اور یک طرفہ مؤقف کو دہرانے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اسی بدحواسی میں انہوں نے سید طلعت حسین جیسے تجربہ کار اور معروف صحافی و اینکر کو صحافی ماننے سے انکار کردیا۔ یوں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ صحافی ہونے کی شرط حکومت وقت یا خاص طور سے وزیر اطلاعات سے حاصل کرنی چاہئے۔ انٹرویو میں اپنے بے پناہ اختیار کی دھاک بٹھانے کے لئے انہوں نے دعویٰ بھی کیا کہ ’میں دنیا کی پانچویں بڑی ریاست، ساتویں ایٹمی ملک کا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ہوں۔ کسی کی جرات نہیں کہ میرے اختیارات کو چیلنج کرے۔ میں یہاں مکمل اتھارٹی کے ساتھ موجود ہوں اور میں فیصلہ کرتا ہوں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا‘۔ کسی ملک کی آبادی اور اس کی ایٹمی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے اختیار کا دعویٰ کرنے والے فواد چوہدری شاید دنیا کے پہلے وزیر اطلاعات ہوں گے۔ اس پر دلیل کی بجائے یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ بہتر ہوگا فواد چوہدری اس آئینے میں خود ہی نہ صرف اپنی بلکہ اپنے لیڈر کے ’بے پناہ اختیار‘ کی حقیقت پرکھ لیں جو برسر اقتدار رہنے کے لئے ہر لمحے عسکری قیادت کے جذبہ خیر سگالی کے محتاج ہیں۔

اسی انٹرویو میں آئی ایس آئی کے بارے میں خوشامد اور کاسہ لیسی سے لبریز یہ بیان جاری کر کے فواد چوہدری نے اپنے اختیار کی حقیقت خود ہی کھول کر رکھ دی ہے۔ ان کا فرمانا تھا کہ ’پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان کی فوج انسانی حقوق کی اسی طرح عزت کرتی ہے جیسے کسی بھی ملک کی سول حکومت کرتی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے مہذب فوج ہے۔ یہ دنیا کی ذمہ دار فوجوں میں سے ایک ہے۔ لوگ اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار کو سراہتے ہیں‘۔ یہ بیان ایک ایسی ایجنسی کے بارے میں جاری کیا گیا ہے جسے نہ صرف میڈیا کی آزادی دبانے کے الزامات کا سامنا ہے بلکہ جو کئی برسوں سے ملک میں شہریوں کو لاپتہ کرنے کے سنگین الزامات کا سامنا بھی کر رہی ہے۔ اب بھی ہزاروں پاکستانی شہری لاپتہ ہیں اور ملک کا کوئی ادارہ ان کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ شدید سیاسی و عوامی دباؤ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقات ضرور کی تھی لیکن وہ متاثرین کی مدد کا کوئی وعدہ کرنے سے قاصر رہے تھے۔

وزیر اطلاعات نے جوش بیان میں خود ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ حکومت صحافیوں کو روزگار سے محروم کرنے کے عمل میں نہ صرف یہ کہ ملوث ہے بلکہ اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتی کیوں کہ اس کے خیال میں جن لوگوں کے پروگرام نہیں چلتے، وہ صحافی نہیں ہوتے۔ طلعت حسین کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’ وہ تو صحافی ہی نہیں ہیں اسی لئے ان کے پروگرام کی ریٹنگ نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے جیو نیوز نے ان کا پروگرام تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے سے بہت پہلے ہی بند کر دیا تھا‘۔ یہ دعویٰ واقعاتی طور سے غلط ہے۔ جیو ٹی وی پر طلعت حسین کا پروگرام نومبر 2018 میں بند کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی فواد چوہدری عمر ان خان کی حکومت میں وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز تھے اور میڈیا کو زیر دام لانے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کر رہے تھے۔ ویسے بھی اگر فواد چوہدری کی حجت کے مطابق ’مقبولیت اور کامیابی ‘ ہی کسی کے پروفیشنل ہونے کی دلیل ہے، پھر تو پوچھنا چاہئے کہ جن لوگوں سے حکومت نہیں چلتی، انہیں سیاست دان کیسے مان لیا جائے جو فواد چوہدری کی طرح ہر بدلتے موسم کے ساتھ اقتدار کا حصہ بنے رہنے کے لئے پینترے بدلتے رہتے ہیں۔

میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی حفاظت دو مختلف معاملات ہیں لیکن پاکستان میں مقتدر اداروں نے صحافیوں کو ہراساں کرکے میڈیا کو مجبور کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ جیسےمیڈیا ہاؤسز کے مالکان کو معاشی دباؤ کے علاوہ الزامات سے ہراساں کرنے کے ہتھکنڈوں سے ’سیلف سنسر شپ ‘ عائد کرنے اور ’ناپسندیدہ ‘صحافیوں و اینکرز کو نکالنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ طلعت حسین کسی ادارے سے نکالے گئے واحد صحافی نہیں ہیں۔ قومی میڈیا کو ’ کمرشل‘ بنوانے کے لئے حکومت نے متعدد دوسرے صحافیوں اور اینکرز کو بھی روزگار سے محروم کیا ہے۔ یوں تو حکومت وقت پر ہر شہری کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں غیر قانونی حملوں سے محفوظ رکھنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بنیادی فرض ہونا چاہئے۔ تاہم جب صحافی پر اسرار لاقانونیت کا نشانہ بننے لگیں اور ملک کا ’بااختیار‘ وزیر اطلاعات اس سچائی کو ماننے سے گریز کرتا ہو تو اسی سے صورت حال کی سنگینی اور خوف کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ دعویٰ بے بنیاد اور لایعنی قیاس آرائی ہے کہ پاکستان میں 43 بین الاقوامی اور 112 مقامی چینلز ہیں۔ 258 ایف ایم ریڈیو چینلز اور پندرہ سو سے زائد پرنٹ پبلیکشنز ہیں، اس لئے حکومت انہیں کیسے کنٹرول کرسکتی ہے۔ میڈیا چینلز اور مطبوعات کی تعداد کی بنیاد پر کوئی حکومت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ ’پاکستانی میڈیا کسی بھی مغربی ملک اور تیسری دنیا کے ممالک سے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے‘۔ موجودہ حالات میں یہ دعویٰ کرکے وزیر اطلاعات درحقیقت یہ اعتراف کررہے ہیں کہ انہیں ماڈرن میڈیا میں کام کرنے کے طریقے، مغربی میڈیا میں ادارتی آزادی کے ڈھانچے اور مدیران کی میڈیا مالکان سے مکمل خود مختاری جیسے اہم نکات کے بارے میں شناسائی نہیں ہے۔ یا وہ ان حقائق کو نظر انداز کرکے سیاسی مقاصد کے لئے رات کو دن اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر مصر ہیں۔

 سچائی چھپانے کی کوشش میں ہی فواد چوہدری کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’بی بی سی ورلڈ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز میں سے ایک ہے۔ ہم نے کبھی اس کی نشریات میں مداخلت نہیں کی۔ لیکن اردو چینلز کی بات کچھ اور ہے۔ ان کے لیے آپ کو مقامی قوانین پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے جو نہیں کیا جا رہا تھا۔ اگر ان قوانین کی پاسداری کی جائے تو انہیں آج نشریات کی اجازت مل جائے گی‘۔ اس دلیل کی روشنی میں ملک کا وزیر اطلاعات یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں انگریزی اور اردو میڈیا کے لئے مختلف قوانین ہیں۔ انگریزی زبان میں کہی گئی بات کو اگر اردو میں کہا جائے گا تو اس پر قانون کا اطلاق ہوگا۔ گویا مسئلہ رائے یا پیشکش کا نہیں ہے بلکہ حکومت کی اس خواہش کا ہے کہ کون سی بات عوام تک پہنچ سکتی ہے اور کن معلومات تک عوام کی رسائی روکنا ضروری ہے۔ انگریزی پاکستان میں خواص کی زبان ہے اور عام لوگ اردو زبان کے ذریعے ہی حقائق جانتے ہیں۔ اس لئے حکومت اسی زبان پر سنسر عائد کر کے میڈیا کو ذمہ دار بنانے کا سبق سکھانا چاہتی ہے۔

فواد چوہدری نے یہ دلیل دے کر نہ صرف ملک میں سنسر شپ اور آزادی رائے پر حکومتی کنٹرول کے طریقوں کو تسلیم کیا ہے بلکہ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ یہ حکومت اصول کو ماننے پر تیار نہیں ہے بلکہ ہر اس بات کو قانون کہتی ہے جس میں اسے اپنا سیاسی فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اس سے پہلے کرپشن کے الزامات ثابت کئے بغیر نہایت ڈھٹائی سے سیاسی مخالفین کو چور لٹیرے کہا جاتا رہا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ اردو اور انگریزی میڈیا کے لئے ملک میں علیحدہ علیحدہ قانون ہیں۔ بہتر ہوگا کہ حکومت اس دہرے معیار کی مکمل فہرست عام کر دے تاکہ صحافیوں کو سوال کرنے اور عوام کو حیران ہونے کی ضرورت پیش نہ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments