آئی ایس آئی کا صحافی اسد طور پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار، وزیر داخلہ مجرمان تک پہنچنے کے لیے پرامید


اسد

وفاقی وزارت اطلاعات نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) نے صحافی اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہونے والے حملے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سنیچر کو اعلیٰ ترین سطح پر وزارت اطلاعات اور پاکستان کی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے درمیان رابطہ ہوا جس میں آئی ایس آئی نے صحافی و ولاگر اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ حملے سے مکمل لاتعلقی ظاہر کیا ہے۔‘

یاد رہے کہ 25 مئی کی شب کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں تین نامعلوم افراد نے صحافی و ولاگر اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہو کر اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا تھا۔

اس حملے کے بعد اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ان پر تشدد کرنے والے افراد مسلح تھے اور انھیں پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا گیا۔

واضح رہے کہ اسد طور پر ہونے والے حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کی جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ایسے الزامات کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت آئی ایس آئی کو ففتھ جنریشن وار فیئر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔آئی ایس آئی سمجھتی ہے کہ جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی شکلیں واضع طور پر دیکھی جاسکتی ہیں تو پھر تفتیش آگے بڑھنی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ اور اس سلسلے میں آئی ایس آئی تفتیشی اداروں سے مکمل تعاون کرے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

صحافی اسد علی طور پر ’نامعلوم افراد‘ کا تشدد، ایمنسٹی کی مذمت

صحافیوں سے سلوک پر حامد میر کی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید، سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث

صحافیوں پر تشدد کے واقعات کے بعد ’آئی ایس آئی پر الزام مغربی میڈیا کا فیشن بن گیا ہے‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزارت اطلاعات اس سلسلے میں اسلام آباد پولیس سے رابطے میں ہے اور امید ہے کہ ملزمان جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔

وزارت اطلاعات کے مطابق بغیر ثبوت اداروں پر الزامات کی روش ختم ہونی چاہیے، منفی روایات ملکی اداروں کے خلاف سازش کا حصہ ہیں اور جلد اصل کردار بے نقاب ہوں گے۔

یاد رہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب جمعے کی شام کو صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد طور پر تین نامعلوم افراد کی جانب سے ان کے گھر میں گھس کر تشدد کے بعد ان کی حمایت میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جیو نیوز سے منسلک سینئیر صحافی حامد میر نے ریاستی اداروں کو تنبیہ کی تھی اب آئندہ کسی صحافی پر ایسے تشدد نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ ‘گھر کی باتیں بتانے پر مجبور ہوں گے۔’

جمعہ کو مظاہرے کے دوران حامد میر کی تقریر میں کہی گئی کئی باتوں سے واضح تھا کہ ان کی تنقید کا نشانہ ملٹری اسٹیبلشمینٹ ہے۔

جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی صحافی اسد علی طور پر حملہ کرنے والے مجرمان تک جلد پہنچنے کے لیے پر امید ہیں۔

وزیر داخلہ شیخ رشید کا کویت کے ایک روزہ دورے پر جانے سے قبل جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ ‘اسد طور کے مسئلے میں بعض لوگ ہماری حساس ترین ایجنسیوں کو بلاوجہ ملوث کرنا چاہتے ہیں۔’

انھوں نے ملزمان کی جلد گرفتاری کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ‘ آج ایک اہم فوٹیج ملی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے ذریعے ہم ملزموں تک پہنچ جائیں گے۔’

ان کا اپنے ویڈیو بیان میں مزید کہنا تھا کہ ‘اس معاملے پر ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو ہدایات کر دی ہیں کہ دونوں ادارے مل کر کام کریں اور صحافی اسد طور کے ملزموں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔‘

پی ڈی ایم رہنماؤں کا دورہ

دوسری جانب سنیچر کی شب ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے بھی صحافی اسد علی طور کی رہائش گاہ پر جا کر ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کی عیادت کی۔ پی ڈی ایم رہنماؤں کے وفد میں مولانا فضل الرحمان، میاں شہباز شریف، مریم نواز شریف، مولانا غفور حیدری، محمود خان اچکزئی، شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب اور دیگر شامل تھے۔

پی ڈی ایم وفد نے حکومت سے صحافی اسد علی طور کے ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اور ان کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمنائیں پیش کی۔

صحافی ابصار عالم

پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے وفد نے سنیئر صحافی اور سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم سے بھی ان کے رہائشگاہ پر ملاقات کی۔

یاد رہے کہ پاکستان کے سینیئر صحافی اور سابق چئیرمین پیمرا ابصار عالم پر 20 اپریل کو نامعلوم افرادنے اس وقت فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جب وہ اسلام آباد میں اپنے رہائش گاہ کے قریب پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp