ہاؤسنگ سوسائٹی کا وائرس

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


موسم گرما اپنے جوبن پہ ہے۔ پارہ، 44 تک بھی پہنچ جاتا ہے اور دھوپ نکلتی ہے تو ایسی کہ اپنی تمازت سے خود ہی کمہلا جاتی ہے۔ کنکیں کٹ چکی ہیں، دھان کی اگیتی پنیری کھیتوں میں جم چکی ہے اور باسمتی کی پنیری بوئی جا چکی ہے۔

امبیاں پک کے پال کے لیے تیار ہیں۔ فالسہ دھڑی دھڑی کر کے بک رہا ہے اور خشخاش کی سردائی والے سڑک کنارے رنگ برنگی جھنڈیاں گاڑے سرد، خمار آلود دودھیا مشروب بیچ رہے ہیں۔

املتاس کے درخت زرد جھومروں سے بھر چکے ہیں اور کوئی کوئل ان زرد پھولوں میں چھپ کر دوپہر بھر دردناک آوازوں میں ’کو ہو؟ کو ہو‘ الاپتی ہے۔ املتاسوں سے پرے مکئی کے کھیت ہیں جن میں پانی لگتا ہے تو اتنی گرمی میں بھی سرد جھونکے سے آتے ہیں۔

ہوا چلتی ہے تو اس کے ساتھ گرمی کی مہک ہوتی ہے۔ لوسن کے پھولوں اور گھاس میں اگی ان گنت بے نام بوٹیوں سے کشید کردہ یہ خوشبو صرف مئی کی ان گرم دوپہروں ہی میں سونگھی جا سکتی ہے اور اس خوشبو کے سامنے دنیا کا بڑے سے بڑا ڈیزائنر پرفیوم بھی ہیچ ہے۔

ایسے میں ’دیوان حافظ ‘ پڑھتے پڑھتے انسان لمحہ بھر کو اونگھ جائے تو سردائی کے خمار میں دھیان آتا ہے کہ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ تو یہیں ہے۔ نیم اور دھریکوں کی گھنی چھاؤں تلے کڑکڑاتی مرغیاں، نالوں میں بہتا شفاف پانی اور اس پانی میں پنکھ دھوتی، مینائیں، دھوبن چڑیاں، گوریاں، فاختائیں اور ان سب سے بے پروا، سفید بگلے۔

سورج گو سوا نیزے پہ ہے لیکن اس موسم کا حسن اسی دھوپ میں نکھرتا ہے۔ لو کا تھپیڑا جو کواڑ کھولتا ہوا جاتا ہے اس میں زندگی کی خوشبو ہے۔ اس زندگی کی خوشبو جو کنکریٹ کے بلاک میں، اے سی کی خنکی میں نہیں پنپتی۔

شامیں آتی ہیں تو موتیے کی مہک سے لدی۔ رات کی رانی اور چنبیلی میں بھی شگوفے کھل رہے ہیں مگر اصل میں یہ املتاس اور موتیے کا موسم ہے۔ پورے چاند کی راتیں ہیں اور جس نے گرمی کی چاندنی نہیں دیکھی اس کا جینا مرنا ایک برابر ہے۔

یہ بڑا چاند، سر شام صاف آسمان پہ نمودار ہوتا ہے۔ منڈیروں، محرابوں، صحنچیوں، پردہ دیواروں پہ چاندنی کی قلعی پھیرتا، کچی دیواروں، کھڑنجے کی گلیوں، نیم روشن مکانوں، اندھیری گلیوں اور ویران راستوں میں اپنی روشنی بکھیرتا کس شان سے ایستادہ رہتا ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹی

چاند کی اس روشنی میں بچپن کے پڑھے بھولے بسرے شعر یاد آتے ہیں اور دنیا کو زیر وزبر کر دینے کے ولولے پکارتے ہیں۔ الف لیلیٰ و لیلہ کی کہانیاں اور کورے مٹکوں کے پانی کا ذائقہ یاد آتا ہے۔

یاد تو بہت کچھ آتا ہے لیکن ان چند سو لفظوں میں یاد کے پشتارے نہ کھولے جا سکتے ہیں نہ سمیٹے جا سکتے ہیں۔ بس ایک خیال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ یہ چند بستیاں جو شہروں سے دور بسا کے چند دیوانے بیٹھے، میناوں، کبوتروں اور فاختاؤں سے باتیں کیا کرتے ہیں اگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لالچی سرمایہ کاروں کی گندی نظر ان بستیوں پہ پڑ گئی تو کیا ہو گا؟

گرمیوں کی ان راتوں میں جب سارنگ اور نارنگ نامی گیدڑ، باغ کی حد پہ کھڑے ہو کے ہکی ہکی ہو ہو کا شور مچاتے ہیں تو ان کے ساتھ میں بھی خوفزدہ ہو کے شہر کی طرف دیکھتی ہوں۔

کوئی شہر نامی اس کینسر کو ہمارے کھیت نگلنے سے روک سکتا ہے؟ ہاؤسنگ سوسائٹی نامی اس وائرس کا کوئی علاج دریافت کر سکتا ہے جو ایک شہر سے دوسرے شہر پھیلتا جا رہا ہے، سرمایہ کار عرف ’کالونی کاٹنے‘ والے اس عفریت کے لیے کوئی سد سکندری بن سکتی ہے؟

کھیتوں میں رہنے والے بھورے چوہے، دھوبن چڑیاں، سارنگ نارنگ، چاندنی کے ٹکڑے اور کیکروں پہ سمٹ کے بیٹھنے والے بگلے، ہم سب ہاؤسنگ سوسائٹی نامی اس وبا سے سخت خائف ہیں اور اس کی ویکسین جلد آنے کی دعا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).