یہ جج سوچتے بھی ہیں


کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے مجھے ایک کتاب کا تحفہ وصول ہوا۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے اور کچھ کتابوں کو اس لیے بھی پڑھا جاتا ہے کہ ان کی تشہیر مناسب ہوا اور کچھ ادارے اور کتب خانے کتابوں کے بارے میں رائے بھی طلب کرتے ہیں۔ طلب کا مطلب ہے کہ آپ کو کتاب پڑھنے اور رائے لکھنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے۔ بہت سال پہلے جب میں ٹرانٹو میں مقیم تھا تو وہاں کے ایک سرکاری کتب خانہ نے مجھ سے رجوع کیا اور اردو کتب کے بارے میں مشاورت کے لیے میری خدمات سے استفادہ کا عندیہ دیا اور یہ تجربہ بھی خوب رہا اور مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دفتری ملاقات میں ادارہ کی اہم رکن سے میں نے پوچھا کہ آپ کتابوں کا انتخاب کیسے کرتے ہیں۔ اس نے مجھے حیرانی سے دیکھا اور کچھ دیر سوچا۔ جب اس کو میرے چہرے پر ندامت کا احساس ہوا تو مسکرائی اور بولی۔ یہ تو ایک سرکاری راز ہے اور پھر بولی آپ کو راز دار بنایا جاسکتا ہے مجھے اس کی تاویل اچھی لگی اور وہ کہنے لگی کل کی میٹنگ کے بعد بات کریں گے۔

یہ خیالات میری یادداشت میں دوبارہ اس وقت نمایاں ہوئے جب میرے دوست انٹرنیٹ اور یوٹیوب میڈیا کے حالات حاضرہ پر بھرپور تبصرہ اور مختصر کلپ تیار کرنے والے نیک نام فضل اعوان نے خبر دی کہ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان ناشتہ پر گپ شپ لگانا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے مہربان دوست سے پوچھا کہ ناشتہ ہوگا کہ دعوت شیراز ہوگی وہ چپ رہے۔ کافی ہفتے پہلے مجھے اچانک ایک دن ”ارشاد نامہ“ ملا۔ تو کچھ حیرانی سی ہوئی۔ کتاب بہت دلچسپ تھی اور اس کو کئی دفعہ پڑھا بھی جاسکتا تھا اور جب کتاب ملی تو چند دنوں کے بعد ہی میں نے اپنے ایک کالم میں تبصرہ تو نہیں بس ذکر ضرور کیا تھا اور کچھ سوال بھی تھے جو کتاب کے حوالہ سے میرے لیے تشنہ طلب تھے۔ میں ”ارشاد نامہ“ سے مستفید ہوتا رہا اور جب اعلیٰ عدالتوں پر تنقید اور تشہیر کا میڈیا ٹرائل شروع ہوا تو مجھے خیال آیا۔ یہ تمام چیف فارغ ہونے کے بعد لکھتے کیوں ہیں اور یہ سوال اپنی جگہ ابھی بھی موجود ہے۔

مجھے میرے فاضل دوست بتانے لگے کہ سابق اعلیٰ عدلیہ کے جج وقت کے کافی پابند ہیں اور ناشتہ میں اگر تاخیر سے پہنچے تو فقط گفتگو پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ میں خود بھی جناب ارشاد حسن خان سے ملاقات کا خواہش مند تھا ایک تو میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اعلیٰ عدالت سے رخصتی کے بعد زندگی کیسی اور گزارہ کیسے ہوتا ہے اور فراغت کے دن کیسے بسر ہوتے ہیں اور زندگی گزارنے کے لیے مصروفیت کو کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔ میں اعلیٰ عسکری اور سرکاری عہدہ داروں کو جانتا ہوں اور ملازمت سے فراغت کے بعد معاشرہ میں فاضل سے لگے۔ ایک تو وہ اپنے سابقہ ماحول کی قید سے آزاد نہیں ہوئے اور دوسرے ہمارا معاشرہ اب ان کو وہ اہمیت اور حیثیت نہیں دیتا اور ان پر اکثر بے جا تنقید بھی کی جاتی ہے اور ان کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ صفائی بھی پیش کریں اور وہ چپ راست سے بے بسی کے ساتھ گزارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ گم نام ہو جاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں دو تین ایسے جج حضرات کا خیال ضرور آتا ہے جو اپنے وقت میں نامور ہوئے اور میڈیا کی مدد سے نیک نامی تو نہیں مگر مشہوری بہت کمائی۔ مگر ان کے فیصلے عدالت اور قانون کی نظر میں عوام کے لیے دوررس نظر نہیں آتے اور ان کے زمانہ میں ہی عدالتی اوقات میں تبصروں کو اہمیت اور حیثیت ملی اور جو کہ انصاف اور قانون کے تناظر میں ایک فاضل ردعمل ضرور تھا۔ مگر اس کے اثرات نے بار کو بنچ کو تقسیم کر دیا اور وکیل حضرات ان تبصروں کو بھی فیصلوں کی طرح اہمیت دینے لگے اور جس کی وجہ سے فیصلے ہونے کے بعد بھی ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا اور جمہوریت کی وجہ سے عدالت کی حیثیت بھی متاثر ہوئی اور لوگوں کو عدالتوں پر اعتماد کم ہوا اور اتنا کم ہوا کہ اب توہین عدالت کا معاملہ بھی ایک عام سا مقدمہ لگتا ہے اور تاریخ پر تاریخ لے کر ٹالا جاسکتا ہے۔

میں وقت مقررہ پر سابق چیف جسٹس صاحب بہادر کے گھر کو تلاش کرنے لگا۔ اگرچہ ان کا راستہ آسان ہی تھا مگر میں راستہ کھوجنے میں ناکام رہا اور وقت مقررہ سے کچھ لیٹ بھی ہوا۔ خیر سے ایک فرشتے نے مدد فرمائی اور ارشاد ہاؤس تک رسائی ہوئی۔ اس دن موسم بھی کچھ کچھ گرم تھا اور مجھے حیرانی ہوئی کہ سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پاکستان کا گھر ایک عام سا مکان تھا۔ بس اتنی سی انفرادیت تھی کہ ایک پولیس والا خاصا چاق و چوبند طریقہ سے آپ کا استقبال کرتا ہے اور گھر کے داخلہ تک رہنمائی بھی کرتا ہے۔ مجھ سے پہلے ان کے ہاں ایک اور صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ میں نے تاخیر پر معذرت کا اظہار کیا۔ یہ میری جناب ارشاد حسن خان صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ میں ان کی تصاویر دیکھ چکا تھا اور کمال یہ ہے کہ جناب ارشاد حسن خان بہت چاق و چوبند نظر آئے اور انہوں نے بھرپور توجہ بھی فرمائی۔

وبا کے کارن ہم چار حضرات میں مناسب فاصلہ بھی تھا۔ نشست گاہ کی فضا پرسکون اور خنک تھی مجھے اندازہ ہوا کہ میرے بھی دوست فضل اعوان کو سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کا خاصا اعتماد حاصل ہے اور گفتگو پہلے سے جاری تھی اور جس مرحلہ پر میں شامل مجلس ہوا تو اس وقت بات جنرل مشرف کے حوالہ سے ہو رہی تھی اور گفتگو خوشگوار اس لیے تھی کہ جج صاحب نے مارشل لاء کے تناظر میں ایک ایسا فیصلہ دیا تھا جس کے بعد مشرف کے زمانہ اقتدار کو ملٹری رول کہنا غیر مناسب ہوگا اس نے سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے تناظر میں کام کرنے کا موقع دیا اور عوامی نمائندگان کو پارٹی بنانے اور سیاست میں برداشت کو فروغ دیا۔ جنرل مشرف سے ایک عرصہ تک ہمارے امریکی دوست ناراض بھی رہے مگر نظریہ ضرورت نے ان کی مدد کی اور مشرف پر امریکی اعتماد کرنے لگے۔

اتنے میں ملازم نے ناشتہ کی شنید دی اور ارشاد حسن خان صاحب نے ناشتہ کی میز تک رہنمائی فرمائی من و سلوا کمال کا تھا اور خوب تھا۔ میں کچھ کچھ کم خوراک ہوں کہ اگر کبھی من و سلوا نہ ملے تو مجھے پریشانی نہ ہو۔ مگر آلو قیمہ کا ذائقہ اچھے باورچی کا پتہ دے رہا تھا اور گفتگو جاری تھی۔ میں نے جسٹس رستم کیانی کا ذکر کیا اور جو کہ ان کی کتاب میں بھی کچھ اختصار کے ساتھ ہے۔ پھر جسٹس کارنیلسن کا ذکر خیر ہوا۔ جسٹس منیر کے بارے میں بات ٹال دی گئی۔

جسٹس افتخار کا ذکر آنے والے وقت پر چھوڑ دیا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا ذکر بھی ہوا۔ مجھے اور ارشاد حسن خان کو ان کا مستقبل کچھ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ ہم سب نے بڑی شاندار گفتگو کی اور ارشاد حسن خان صاحب کی یادداشت کمال کی ہے اور ان کا نقطہ نظر اب بھی منفرد سا ہے۔ یہ نشست کبھی بھی مستقل نہیں ہوتی اور میں بھی تشنہ طلب ہی رہا اور میرا خیال ہے سابق چیف جسٹس کو اب بھی ایک اور کتاب کے بارے میں سوچنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments