خبر، میڈیا اور سماجی اخلاقیات



میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست کے تصور میں اسلامی عدالت، اسلامی تعلیمی نظام، اسلامی تہذیب، اسلامی نظام معیشت، اسلامی معاشرتی نظام پر بہت کچھ کہا سنا جاتا ہے۔ چلیے چند ثانیے کے لیے یہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں ان معاملات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے یا دین سے مذکورہ بالا جملہ معاملات کی رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ کیا ان تمام معاملات کا تعلق صرف ایک اسلامی ریاست ہی سے ہے؟

انسانوں کا ایک گروہ جو اگر قوم کہلاتا ہے تو کیا انہیں اپنے معمولات زندگی بطریق احسن چلانے کے لیے ان تمام معاملات کا اور ان کے اخلاقی پہلوؤں کا خیال نہیں رکھنا پڑتا؟ زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق کسی خاص مذہب، فرقے یا قوم سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق نوع انسانی اور ایک صحتمند معاشرے سے ہیں۔ ان تمام معاملات میں اخلاقیات ایک بنیادی عنصر ہے۔ اب بات کرتے ہیں دور حاضر میں ہمارے صحافتی ادارے جن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا چینلز جن میں نیوز اور انٹرٹینمنٹ ہر دو طرح کے چینلز شامل ہیں۔

کیا کسی ادارے نے اپنے صحافتی ڈھانچے کو بنیادی معاشرتی اخلاقیات کے سانچے میں ڈھالا ہے یا نہیں؟ وہ کون سے مخصوص عوامل ہیں جن پر عمل کر کے ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی اور کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنے سے بچتے ہوئے اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں۔ کیا دین بھی ہمیں اسی طرح سے آزادیٔ اظہار کی اجازت دیتا ہے جیسے آج کے معاشرے میں تصور پیدا ہو چکا ہے۔ یا صحافیوں کا بھی ایک دائرہ مخصوص ہے جس کا ہمیں مکلف ٹھہرایا گیا ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم مذہب کو پس پشت ڈال کر اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں؟ اکثر لوگ روزگار اور پروفیشن کو مذہب سے جدا کر دیے ہیں۔ صحافت بھی ایک شعبہ ہے اور معاش کا ذریعہ ہے۔ صحافت کا مطلب ہے کہ خبر ’حقائق لکھ کر، بول کر یا دکھا کر حق کے ساتھ پہنچانا‘ موثر پیغامات کی فراہمی اور آگاہی۔ ایسی خبر ’پیغام سے اجتناب کیا جائے کہ جس سے انتشار پھیلے یا فرقہ واریت‘ تعصب پسندی ’لسانیت‘ نفرت، فساد اور سب سے بڑھ کر اخلاقی گراوٹ کج پیدائش کا اندیشہ ہو اور ملک، قوم، ریاست اور اس کے اداروں کی سلامتی اور عوام کی اخلاقی تربیت اور تحفظ پر آنچ آئے۔

اس سلسلے میں ہمارے ملک میں صحافتی سطح پر قانون بنائے گئے ہیں۔ یعنی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے پیسے لگائے ہیں لہٰذا میں اظہار رائے کو آڑ بنا کر جو چاہے چھاپوں، سناؤں، دکھاؤں۔ یعنی ایک دائرہ کھینچ دیا گیا کہ بس اس کی حدود میں رہنا ہے۔ لیکن آج کل میڈیا انڈسٹری اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایسا کوئی قانون اور حدود سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہمارے پروگرامز ’ٹاک شوز‘ ہیڈلائنز ’انٹرویوز کو شائع اور نشر کرتے وقت صحافتی اخلاقیات کا پاس رکھا جاتا ہے نہ اسلامی تعلیمات کا۔

ہمارا میڈیا اشاعت اور نشریات کے حوالے سے اسلامی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ بلکہ ہندو اور مغربی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ مصالحے دار ’چٹخارے دار خبریں ایسے نشر یا شائع کی جاتی ہیں کہ دوسروں کے جذبات مجروح ہوں‘ اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ کسی شخصیت کے ذاتی معاملات پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ بے دھڑک فساد ’خون خرابا دکھا یا جاتا ہے۔ غیر شعوری طور پر واردات کی نئی نئی قسمیں اور طریقے معاشرے میں متعارف کیے جاتے ہیں۔

ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے جھوٹی خبریں بنا تصدیق کیے شائع یا نشر کی جاتی ہیں۔ 29 مئی بروز ہفتہ فیض آباد پر طالبعلموں کی جانب سے امتحان منعقد کرنے کے خلاف احتجاج ہوتا ہے اور تین تین گھنٹے عوام ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں لیکن چینلز پر کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے۔ پھر خبر کہاں ہے؟ جو ان چینلز کا اصل وظیفہ ہے۔ ٹاک شوز میں شخصیات ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں اور ہمارے اینکر پرسنز اس پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوتے ہیں اور مزہ لوٹ رہے ہوتے ہیں۔

پوری دنیا ہمیں اپنے نظام عدل کو پہچانا تھا۔ اپنی تہذیب کی اشاعت اور نشریات کرنی تھی۔ تبلیغ کے لئے ذرائع ابلاغ جیسے موثر ذریعے کو بروئے استعمال لاتے ہوئے اللہ کے نام کو واقعتاً عملاً بڑا کرنا تھا۔ ہمیں تو اپنی تہذیب کے ذریعے پوری دنیا کے لئے نمونہ بننا تھا۔ اس مشن میں لگنا تھا جس میں ہمیں آپ ﷺ نے لگنے کو فرمایا تھا۔ آج ہمارا میڈیا مذہبی انتہا پسندی کو آڑ بنا کر اسلام کا ایک خود ساختہ تصور پیش کر رہا ہے۔

فلسطین کے حق میں اسرائیل کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوتا ہے لیکن اس موقع پر بھی یوٹیوبرز مائیک اور کیمرے کے ساتھ لوگوں کی ذاتیات ڈسکس کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک خاتون رپورٹر جو باقاعدہ کسی ٹی وی چینل کی بھی نہیں بلکہ یو ٹیوب نیوز چینل سے ہیں وہ احتجاج میں شریک دیگر خواتین کے ہیجان انگیز اور بولڈ لباس پر بات کر رہی ہوتی ہیں اور اسے احتجاج کو ایک ڈیٹنگ پوائنٹ قرار دیتی ہیں۔ ہمارا میڈیا اسلامی تہواروں اور موقعوں (عید ’محرم‘ رمضان ’ربیع الاول) کے پروگرامز دکھا کر سمجھتا ہے کہ ہم نے تو دین کی بہت بڑی خدمت کردی۔

حالانکہ یہ تو سرمایہ داری ہے اور اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ اس کا مقصد ہرگز لوگوں کو دین کی دعوت یا عوام میں دین کا رجحان یا دین کی طرف راغب کرنا نہیں ہوتا۔ باقی قرآن کچھ بھی کہتا رہے ’اس پر عمل آج کے دور میں ممکن نہیں۔ لہذا اجتماعی معاملات میں مذہب کو دور ہی رکھا جائے۔ عدل کے فیصلے ہماری سوچ سے جاری ہوں گے اس کے لئے مذہب سے رہنمائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

آئین میں اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ آئین اسلامی طرز کا ہوگا۔ اور کوئی بھی فیصلہ قرآن اور سنت کے خلاف نہیں کیا جائے گا۔ کاروبار اور معاشی باگ ڈور میں مذہب کو کوئی مداخلت حاصل نہیں لہٰذا اصول بنالیا گیا کہ صحافت بھی ایک پروفیشن ہے جس میں مذہب کے تابع ہو کر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ میڈیا کو کٹھ پتلی بنا کر باطل نظریات اور تصورات کے ذریعے عقیدے پر بھی حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیسے کیسے جاہل لوگ مذہبی اسکالر کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو الگ طریقے سے پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہی تصورات نیکی ہیں جو میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں دکھایا ’پڑھایا یا سنایا جا رہا ہے۔ بنیادی معاشرہ اخلاقیات ان کے پورے نظام کی نفی کرتی ہیں جو انہوں نے رائج کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments