گولڈن گرلز: دور کیوں جانا، چینی مردوں کو ہی دیکھ لو


مصنفہ: تحریم عظیم
پیاری رابعہ،

آپ نے اپنے خط میں مجھ سے چین کے مردوں کے بارے میں پوچھا ہے۔ آج کے بلاگ میں ان ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ میں نے چین میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران چینی مردوں کو پاکستان کے مردوں سے بہت مختلف پایا ہے۔ مجھے چینی مرد پاکستانی مردوں کے مقابلے میں زیادہ احساس کرنے والے، محبت کرنے والے اور ساتھ دینے والے لگے۔ اگرچہ یہاں بھی مردوں کی طرف سے خواتین پر مختلف قسم کے تشدد کیے جاتے ہیں لیکن عمومی تصویر پھر بھی پاکستان سے بہتر ہے۔

میں چین کی ایک سرکاری جامعہ میں پڑھتی اور رہتی ہوں۔ یونیورسٹی کے اندر تدریسی عمارتوں کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ شام ہوتے ہی یونیورسٹی میں قیام پذیر مختلف خاندان اپنے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ کچھ لوگ اکیلے ہوتے ہیں، کچھ اپنے ساتھی کے ساتھ ہوتے ہیں، کچھ دوستوں کے ساتھ تو کچھ اپنے پورے خاندان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف قسم کی ورزش کرتے ہیں جن میں چہل قدمی، جاگنگ یا ڈانس شامل ہیں۔

میں کبھی شام میں باہر نکلوں تو مجھے بہت سے جوڑے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ میں یہاں نوجوان جوڑوں کی بات نہیں کر رہی بلکہ درمیانی عمر اور عمر رسیدہ جوڑوں کی بات کر رہی ہوں۔ میں نے پاکستان میں لوگوں کو اتنی بے فکری سے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے نہیں دیکھا۔ مجھے اب یاد کرنے پر بھی ایسا کوئی موقع یاد نہیں آ رہا جب میں نے اپنے والدین یا کسی اور قریبی شادی شدہ جوڑے کو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دیکھا ہو۔

ثقافت کا فرق اپنی جگہ لیکن یہاں کے مرد اپنی عورتوں کو جو ویلیو دیتے ہیں، میں نے پاکستان میں بہت کم مردوں کو وہ ویلیو اپنی عورتوں کو دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ چین میں مرد اپنے ساتھ ایک خود مختار عورت کو دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں، پاکستان میں مرد ایسی عورت کے ہونے پر شرمندہ ہوتے ہیں۔

رابعہ، پاکستان میں عوامی جگہوں پر مردوں کا عورتوں سے رویہ کیسا ہوتا ہے؟ انجان ہوں گے تو انہیں ہراساں کریں گے، جاننے والے ہوں گے تو ان سے دور ایسے لاتعلق سے کھڑے ہوں گے جیسے ان سے صرف مجبوری کا رشتہ ہو۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ میں لاہور میں ایک مشہور فاسٹ فوڈ چین کے ریستوران میں اکیلی بیٹھی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر میں ایک خاندان وہاں آیا، تقریباً پانچ چھ خواتین، دو چار مرد اور آٹھ دس بچے۔ مردوں کی شلواریں ٹخنوں سے اوپر تھیں اور چہروں پر لمبی لمبی داڑھیاں موجود تھیں۔

عورتوں کے جسم پر برقع اور چہرے پر نقاب تھا۔ یہ خاندان ریستوران میں ایک کونے میں بیٹھ گیا، ایسے کہ عورتوں کی پیٹھ بقیہ میزوں کی طرف تھی تاکہ لوگ انہیں نہ دیکھ سکیں۔ آدمی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ بچے بھی ان کے ساتھ لگے ان کی باتیں سن رہے تھے جبکہ عورتیں بت بنی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ آپس میں بھی بات نہیں کر رہی تھیں، رابعہ، یہ کیسا پردہ ہے؟ تھوڑی دیر بعد ویٹر اس میز پر گیا تو ایک آدمی نے ہی سب کا آرڈر لکھوا دیا۔

اس نے کسی سے بھی اس کی پسند پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ ویٹر دوبارہ کولڈ ڈرنک کا پوچھنے آیا تب بھی اسی آدمی نے ایک ہی ڈرنک سب کے لیے آرڈر کر دی۔ مجھے یہ بہت عجیب لگا۔ کھانا کھانے گھر سے باہر آئے ہو، سب سے پوچھ تو لو کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے۔ انہیں مینیو پکڑنے دو، اسے پڑھنے دو، سوچنے دو، اپنی مرضی کا کھانا منگوانے دو، کیا یہ مرد اپنی عورتوں کا اتنا سا خیال بھی نہیں رکھ سکتے؟ کھانا آیا تو پہلے تو عورتوں نے نقاب کے نیچے سے کھانے کی کوشش کی۔ کھانے میں مشکل پیش آئی تو انہوں نے ایک ایک کر کے اپنے نقاب اتارے اور اپنی پلیٹوں پر جھکیں ایسے تیزی سے برگر نگلنے لگیں جیسے کسی نے ان کا چہرہ دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی۔ اس سے اچھا تھا وہ کھانا گھر منگوا لیتے۔ کم از کم سکون سے بیٹھ کر کھا تو سکتے تھے۔

آپ کو ایک اور قصہ سناتی ہوں۔ میری سپروائزر نے مجھے نئے چینی سال کے موقع پر اپنے گھر دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ انہوں نے مجھے مقررہ دن پر اپنے گھر کے قریب ایک سب وے سٹیشن پر پہنچنے کا کہا، وہاں سے انہوں نے مجھے پک کرنا تھا۔ وہ طے شدہ وقت پر اپنے شوہر اور بیٹے کے ہمراہ ایک بڑی سی گاڑی میں مجھے لینے پہنچیں۔ انہوں نے میرا اپنے شوہر اور بیٹے سے تعارف کروایا۔ پھر مجھ سے کہا کہ گھر جانے سے پہلے انہیں اپنی جڑواں بیٹیوں کے کپڑے لینے کے لیے قریبی مال جانا ہے۔ ان کے شوہر گاڑی چلا رہے تھے۔ دوران سفر دونوں مجھ سے تھوڑی بہت بات چیت کرتے رہے۔

مال پہنچے تو پروفیسر گاڑی سے اتریں اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے مال کے اندر داخل ہو گئیں۔ ان کے شوہر بیٹے کے ساتھ ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ پروفیسر شاید وہاں آتی رہتی تھیں۔ وہ سیدھا لفٹ کی طرف گئیں اور وہاں سے چوتھے فلور پر جہاں بچوں کے کپڑے اور دیگر سامان موجود تھا۔ وہ لفٹ سے نکلتے ہی اپنے پسندیدہ برانڈ کی دکان پر چلی گئیں۔ ہم سب بھی ان کے پیچھے پیچھے وہیں پہنچ گئے۔ وہ دکان پر اپنی بیٹیوں کے لیے کپڑے دیکھ رہی تھیں۔ میں ارد گرد کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے شوہر اور بیٹے کو بھی نوٹ کر رہی تھی۔ ان کے شوہر دکان کے سامنے ایک فاصلے پر بیٹے کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بات کرنے کے علاوہ اپنا فون بھی چیک کر رہے تھے۔ ان کی مکمل توجہ اپنے فون اور بیٹے پر تھی۔

چند منٹ بعد پروفیسر نے لباس منتخب کر کے سیلز گرل کو پکڑا دیے۔ سیلز گرل نے لباس بیگ میں ڈالے اور ان کا بل پرنٹ کرنے لگی۔ جیسے ہی اس کا ہاتھ پرنٹ پکڑنے پرنٹر کی طرف گیا، پروفیسر کے شوہر نے اپنا فون جیب میں ڈالا اور کاؤنٹر پر آ گئے۔ انہوں نے سیلز گرل کے ہاتھ سے بل لیا اور اس کی ادائیگی کرنے کیشیئر کی طرف چلے گئے۔ میرے لیے یہ بہت حیران کن تھا۔ میں نے پاکستان کے مالز میں بیویوں کو اپنے شہروں کو ڈھونڈتے اور آواز دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہاں پروفیسر کو نہ اپنے شوہر کی طرف دیکھنا پڑا، نہ انہیں اشارہ کرنا پڑا اور نہ ہی آواز دینی پڑی۔ سب ایسے خود کار طریقے سے ہوا کہ کیا کہنے۔ دونوں کو پتا تھا کہ کہاں کس کا کام ختم ہو رہا ہے اور کہاں کس کا شروع ہو رہا ہے۔

پروفیسر کے شوہر بھی آدمی ہیں لیکن انہیں اپنی بیوی کی خود مختاری پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ ان کے لیے ان کی بیوی ان کی برابر کی ساتھی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس تعلق کو چلانے کی ذمہ داری دونوں پر عائد ہے۔ صرف بیوی کو قربانیاں نہیں دینی بلکہ انہیں بھی دینی ہیں۔

ہم نے گولڈن گرلز سیریز کے شروع میں ایک سوال پوچھا تھا کہ ایک عورت مرد سے کیا چاہتی ہے۔ میرے خیال میں ایک عورت مرد سے اس کی ذمہ داری کا احساس چاہتی ہے۔ یہاں ذمہ داری سے مراد صرف معاشی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ پورے تعلق کی ذمہ داری ہے۔ اس تعلق میں رہتے ہوئے مخلص رہنا، اپنے ساتھی کا خیال رکھنا، اسے محبت دینا، اس کی پسند نا پسند کو اہمیت دینا، اسے زندگی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع دینا اور اپنے تعلق کو ہر روز بہتر بنانے کے لیے خود سے کوشش کرنا۔ میرے خیال میں ایک عورت مرد سے یہی چاہتی ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےمرد کو نفرت کی زبان سمجھ آتی ہےعورت کے لئے مرد ناکافی کیوں ہو گیا ہے؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments