ہنسی کرونیئے: باب وولمر دلی کے پولیس کمشنر سے سابق جنوبی افریقی کرکٹ کپتان کے بارے میں کیا جاننا چاہتے تھے؟

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


 

باب وولمر، ہنسی کرونیئے

باب وولمر، ہنسی کرونیئے

18 اپریل 2005 کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈیا کا کامیاب دورہ مکمل کر کے وطن واپس روانہ ہونے والی تھی لیکن روانگی سے کچھ دیر قبل معلوم ہوا کہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ باب وولمر دہلی میں پولیس کمشنر کے کے پال سے ملنے گئے ہوئے ہیں۔ اِس ملاقات کی خواہش خود باب وولمر نے ظاہر کی تھی۔

انڈین صحافی پردیپ میگزین نے اس ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی کتاب ’Not Quite Cricket‘ میں بیان کیا ہے کیونکہ یہ ملاقات پردیپ کے توسط سے ہی ممکن ہو پائی تھی۔

پردیپ میگزین لکھتے ہیں ’پاکستانی ٹیم کے دورہ انڈیا کے دوران ٹیم کے منیجر سلیم الطاف کے ساتھ میری دوستی ہو گئی تھی جس کا سبب ہم دونوں کا مشترکہ شوق ٹینس تھا۔‘

’ہم دونوں شام کو اکٹھے ٹینس کھیلتے تھے، ایک روز سلیم الطاف نے مجھ سے کہا کہ باب وولمر دہلی کے پولیس کمشنر کے کے پال سے ملنا چاہتے تھے لہذا آپ اس سلسلے میں مدد کریں اور ملاقات کا وقت لے کر دیں۔‘

پردیپ میگزین لکھتے ہیں ’مجھے اندازہ تھا کہ باب وولمر دہلی پولیس کمشنر سے جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیئے کے حوالے سے ملنا چاہتے تھے۔ کے کے پال وہ پولیس افسر تھے جن کی نگرانی میں ہنسی کرونیئے اور بک میکر سنجے چاؤلہ کے تعلقات کے بارے میں تحقیقات ہوئی تھی اور کے کے پال نے ہی سات اپریل 2000 کو دہلی میں پریس کانفرنس کر کے اِن دونوں کے ٹیلی فونک رابطے کا انکشاف کیا تھا۔‘

’باب وولمر یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان تحقیقات میں کتنی سچائی تھی کیونکہ وہ کسی طور پر بھی ہنسی کرونیئے کو اس معاملے میں ملوث سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے اور پولیس کمشنر سے ملاقات میں یہ بات کُھل کر سامنے آ گئی تھی۔‘

یاد رہے کہ باب وولمر پاکستانی ٹیم سے پہلے جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے اور یہ وہی دور ہے جس دوران ہنسی کرونیئے کے بک میکرز سے رابطوں اور مبینہ طور پر ان سے بھاری رقمیں وصول کرنے کی کہانیاں سامنے آئی تھیں جس کے بعد جنوبی افریقی حکومت نے ’کنگ کمیشن‘ قائم کر کے اس بارے میں تحقیقات کی تھیں۔

ان تحقیقات کی روشنی میں ہنسی کرونیئے پر کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

وولمر اور پولیس کمشنر کی ملاقات میں کیا ہوا؟

پردیپ میگزین لکھتے ہیں ’پولیس کمشنر کی جانب سےملاقات پر آمادگی کے بعد میں باب وولمر کو لے کر جنوبی دہلی میں کے کے پال کی رہائش گاہ پہنچا جہاں دونوں کے درمیان بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی۔‘

وہ لکھتے ہیں ’پولیس کمشنر ابتدا میں پُرسکون انداز میں باب وولمر کو یہ بتانے لگے کہ کرونیئے واقعی اس معاملے میں ملوث تھے اور اس سلسلے میں ہونے والی تحقیقات صاف شفاف تھیں لیکن جب باب وولمر ہنسی کرونیئے کا دفاع کرتے ہوئے بہت آگے نکلنے لگے تو پھر کے کے پال کا لہجہ بھی بدل گیا اور انھوں نے بعض ایسے سوالات کر دیے جنھوں نے باب وولمر کو لاجواب کر دیا۔‘

پردیپ میگزین کہتے ہیں ’کے کے پال نے وولمر سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوچ یا ایک ایسا شخص جو کپتان کے بہت زیادہ قریب ہو وہ اس بات سے لاعلم رہے یا اسے شک ہی نہ ہو کہ ٹیم کا کپتان بک میکرز کے پے رول پر ہے؟‘

’کے کے پال نے باب وولمر سے یہ بھی سوال کیا کہ ہنسی کرونییے کنگ کمیشن کے سامنے بک میکرز کی پیشکشوں اور ان سے ملنے والی رقوم کا اعتراف کر چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ ایک سے زائد مرتبہ ٹیم میٹنگ میں انھوں نے اپنے کھلاڑیوں سے بک میکرز سے ملنے والی پیشکشوں کے بارے میں رائے لی کہ انھیں قبول کیا جائے یا نہیں؟ تو آپ کو ان میٹنگز کا کیوں پتہ نہیں چل سکا؟‘

ہنسی

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’اس سوال پر باب وولمر دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے اور انھوں نے کے کے پال کو جواب دیا کہ انھیں ان میٹنگز کے بارے میں بعد میں پتہ چلا۔‘

دہلی کے پولیس کمشنر نے باب وولمر کو یہ بھی یاد دلایا کہ آپ سنہ 1999 کے ورلڈ کپ میں ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر اس آلے کے ذریعے میدان میں موجود کرونیئے سے کیا بات کر رہے تھے جو اُن کے کان میں لگا ہوا تھا؟ آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کرونیئے ایک فکسر ہیں؟ وولمر کے پاس اس کا جواب صرف یہی تھا وہ اپنے کپتان سے میچ کی حکمت عملی پر بات کر رہے تھے۔

وولمر کو واقعی کرونیئے کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا؟

پردیپ میگزین نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں کے کے پال اور وہ خود اس شک و شبہے میں مبتلا تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ باب وولمر اتنی اہم باتوں سے لاعلم رہے ہوں، انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وولمر اس معاملے میں بہت کچھ جانتے ہوں لیکن چھپا رہے ہوں۔

عام خیال بھی یہی ہے کہ باب وولمرکو ہنسی کرونیئے کے بک میکرز سے رابطوں اور پیشکشوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔ اس کا اندازہ جنوبی افریقہ کے چند کھلاڑیوں کے ان بیانات سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے کنگ کمیشن کے سامنے دیے تھے۔

ان بیانات کے مطابق جب سنہ 1996 میں جنوبی افریقی ٹیم انڈیا کے دورے کا آخری میچ ممبئی میں کھیل رہی تھی جسے آخری لمحات میں انٹرنیشنل میچ کا درجہ دے دیا گیا تھا جس پر جنوبی افریقی کھلاڑی ناخوش تھے کیونکہ وہ اس دورے میں بہت تھک چکے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ دورہ جلد ختم ہو جائے۔ اس موقع پر ہنسی کرونیئے کو بک میکر مکیش گپتا نے میچ ہارنے کے عوض دو سے ڈھائی لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی۔

ہنسی کرونیئے

بعد میں اس نے کرونیئے کے رابطہ کرنے پر اس پیشکش میں ایک لاکھ ڈالرز کا اضافہ بھی کر دیا تھا کیونکہ کچھ کھلاڑی اس تجسس میں تھے کہ کیا یہ پیشکش بڑھ سکتی ہے یا نہیں؟ تاہم اینڈریو ہڈسن، ڈیرک کروکس اور ڈیرل کلینن نے اس پیشکش کو فوراً ٹھکرا دیا تھا۔

آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ رچرڈسن نے جو اُس وقت جنوبی افریقی ٹیم کے وکٹ کیپر تھے کنگ کمیشن کے سامنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے بین الاقوامی کریئر میں یہ پہلا موقع تھا کہ ٹیم کے ماحول میں اس طرح کی پیشکش زیرغور آئی ہو۔

آف سپنر پیٹ سمکوکس نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان کے دوران کہا تھا کہ یہ پیشکش بہت سنجیدگی سے لی گئی تھی بلکہ اس دوران انھوں نے بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون ایڈووکیٹ شامیلا بتوہی کے سوال پر کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ میچ ہارنے کے بدلے بھاری رقم کی یہ پیشکش کہاں سے آئی تھی؟ سمکوکس کا جواب تھا ’آپ کو خود اندازہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ وزیراعظم کی طرف سے تو نہیں آئی ہو گی۔‘

ہمیں یہ پیسے لے لینے تھے

انگلینڈ کے صحافی سائمن وائلڈ نے اپنی کتاب ’Caught‘ میں ممبئی کے اس میچ کے دوران ڈریسنگ روم میں پیش آنے والے واقعے کا ذکر کیا ہے جس میں ہنسی کرونیئے یہ ڈیل نہ ہونے پر بہت خفا تھے اور انھوں نے غصے میں آ کر کھانے کی پلیٹ اس زور سے اُچھالی کہ چکن کے ٹکڑے چھت پر جا لگے تھے۔

سائمن وائلڈ نے اپنی کتاب میں باب وولمر کے ڈیلی ٹیلیگراف کو دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا ہے کہ باب وولمر نے کرونیئے کو یہ کہتے سُنا کہ ’اگر ہم پیسے لے لیتے تو ان پیسوں سے ہم فین کورٹ (ایک انتہائی مہنگا علاقہ) میں ایک گھر خرید سکتے تھے۔‘

باب وولمر ایک جانب تو اپنے انٹرویوز میں ان تمام واقعات کو بیان کرتے رہے تھے لیکن جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر علی باقر نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ باب وولمر اور ٹیم کے منیجر رابرٹ موزیل نے انھیں کبھی بھی دورے کی رپورٹ میں اس طرح کی کسی بھی بات سے آگاہ نہیں کیا جبکہ باب وولمر کا کہنا یہ تھا کہ وہ ڈاکٹر علی باقر کو اس بارے میں بتاتے رہے تھے۔

باب وولمر نے جون 2000 میں وزڈن کرکٹ منتھلی کو دیے گئے انٹرویو میں کرونیئے کے بارے میں یہ کہا تھا کہ وہ سٹاک مارکیٹ میں بھی بہت زیادہ متحرک تھے اور کرکٹ ان کا واحد ذریعہ معاش نہیں تھا۔

سلیم ملک نے کرونیئے سے کیا کہا؟

سلیم ملک

ہنسی کرونیئے نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بک میکر نے ان سے پہلا رابطہ جنوری 1995 میں مینڈیلا ٹرافی کے بیسٹ آف تھری کے پہلے فائنل سے قبل کیپ ٹاؤن میں کیا تھا۔ اُس وقت وہ پچیس سال کے تھے اور انھیں کپتان بنے ہوئے صرف تین ماہ ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ شخص پاکستانی یا انڈین تھا جسے وہ صرف ’جان‘ کے نام سے جانتے تھے۔

کرونیئے کا کہنا تھا کہ ’مجھے جان نامی اس شخص نے ہارنے کے عوض دس ہزار ڈالرز کی پیشکش کی تھی جس کا ذکر میں نے صرف آف سپنر پیٹ سمکوکس سے کیا لیکن جب میں میدان میں گیا تو پاکستانی کپتان سلیم ملک نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے جان سے بات کر لی ہے؟‘

‘سلیم ملک کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ بھی مجھے ہونے والی اس پیشکش سے واقف تھے۔’

یہ وہی میچ ہے جس میں ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ دینے کے معاملے پر کپتان سلیم ملک اور وکٹ کیپر راشد لطیف کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے تھے اور اسی کے بعد راشد لطیف نے ٹیم میں مبینہ گڑبڑ کی آواز بلند کی تھی۔

کرونیئے نے کنگ کمیشن کو یہ بھی بتایا تھا کہ سنہ 1996میں جب جنوبی افریقی ٹیم شارجہ میں تھی تو سنیل نامی بک میکر نے اُن سے رابطہ کر کے ٹیم کے انڈیا کے دورے میں میچز فکس کرنے کی بات کی تھی جسے انھوں نے رد کر دیا تھا۔

ہنسی کرونیئے کی زندگی میں چند اور بھی مشکوک افراد آئے جن سے انھوں نے رقمیں وصول کیں اور اس دلدل میں دھنستے چلے گئے بالآخر یکم جون 2002 کو وہ جنوبی افریقہ میں ایک چھوٹے جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

باب وولمر ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی آئرلینڈ کے خلاف حیران کُن شکست کی اگلی صبح 18 مارچ 2007 کو کنگسٹن جمائیکا کے ہوٹل کے اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔

ہنسی کرونیئے کی طرح باب وولمر کی موت کے نتیجے میں بھی کئی رازوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پردہ پڑ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp