حامد میر کے پاس لیمن ہو تو لیمنیڈ بناتا ہے


حامد میر کو خبر بریک کرنے کا جنون ہے اور وہ اس بات پر ملکہ رکھتے ہیں کہ خبر کیسے اچھالنی ہے۔ اگر وہ دھاتی تلواروں کے زمانے میں خبر رساں ہوتے تو یقیناً ان پیغام رساں لوگوں میں ہوتے جن کے سر قلم کر کے مخالف بادشاہ کو بر انگیختہ کیا جاتا تھا تا کہ وہ غصے اور جھنجھلاہٹ میں سامنے والے کی طاقت کا اندازہ کیے بغیر حملہ کرے۔ جو لوگ ان سے ملتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ حامد میر ملاقات کے شروع میں بات ہی ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی خبر بریک کر رہے ہوں مثلاً آپ نے کہا کہ میں نئیر علی دادا کے ٹی ہاؤس میں بیٹھا تھا کہ سوچا پرانے دوستوں سے مل لوں تو میر صاحب فوراً بولیں گے، ”نئیر علی دادا وہی جس پر کیس بن گیا تھا“ ۔

آپ حیران ہوں گے کہ ظاہر ہے کوئی بڑا کیس بن گیا اور آپ اتنے بے خبر کہ کچھ علم ہی نہیں۔ آپ کو پسپا ہوتے دیکھ کر وہ پھر کہیں گے، ”نہیں پتہ، نہیں پتہ ہاہاہا چلیں چھوڑیں“ اور اب آپ اگر صحافی ہیں تو کریدیں گے اور وہ مزا لیں گے حالانکہ بات بہت سادہ سی یہ ہو گی کہ نئیر علی دادا کی کمپنی پر کسی نے کیس کیا ہو گا کہ طے شدہ مدت میں عمارت نہیں بنی اور خرچ زیادہ ہو گیا۔

وہ اپنے کالم میں بھی بڑے شوق سے خبریں بریک کرتے ہیں اور ان کا جو کالم جنرل رانی کے نام سے وائرل ہوا ہے وہ بہت پرانا لکھا ہوا ہے۔ جنرل رانی کا استعارہ دراصل ایک معروف خاتون کی طرف اشارہ تھا جن کے لئے فارسی زبان میں “عروس ہزار داماد” کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے اور وہ معزز خاتون اس وقت ستر پچھتر عمر کی ہیں جب کہ جن صاحب کا نام منسلک کیا جا رہا ہے وہ ان سے کم از کم پندرہ برس چھوٹے ہیں۔ دربار اور حرم سراؤں میں اس نوع کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن میر صاحب نے اسے کچھ زیادہ ہی غیر جمالیاتی سا احساس بخش دیا۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خبر پہلے سے حامد میر کی زنبیل میں تھی اور انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا کہ اسد طور کی ٹھکائی ہوئی تھی۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ حامد میر صاحب کے نزدیک اسد طور کی اہمیت اسی صورت ہوتی اگر خبر یا واقعہ سے کوئی دھماکا خیز نتائج نکلتے اور وہ نکلے۔ تقریر کرتے ہوئے کچھ صحافیوں کے اندر سویا ہوا انقلابی لمحہ بھر کو جاگ جاتا ہے اور پھر پذیرائی کا چسکا اس پر مستزاد۔

حامد میر ایک دن ہمارے پروگرام میں آئے اور آتے ہی نعیم بھائی سے ملے جو نیم مجذوب سے آ دمی تھے اور لمبی چوڑی ریاضیاتی مساوات پلک جھپکتے حل کر لیتے تھے۔ انہوں نے نعیم بھائی کی جائے پیدائش پوچھ لی اور پروگرام شروع ہوتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ نعیم بھائی کے بارے انفارمیشن دینا شروع کر دی۔

ڈرامہ بازیاں میر صاحب پر ختم ہیں۔ ایک لائیو پروگرام میں آئے اور انہیں پتہ چلا کہ مولانا فضل الرحمان کی ڈمی کی جا رہی ہے۔ فوراً فون نکالا اور مولانا کو ملانے لگے۔ پتہ نہیں کیا بات ہوئی کیا نہیں لیکن میر صاحب نے پروگرام شروع ہوتے ہی ہمیں ڈانٹنا شروع کر دیا کہ ہم نے مولانا صاحب کی ڈمی بنا کر، ”ہے بے بی“ کیوں کہا اور مولانا صاحب پر پاکستان کا جشن آزادی نہ منانے کا الزام کیوں لگایا وغیرہ وغیرہ۔ بڑی مشکل سے ہم نے وہ لائیو پروگرام ختم کیا اور میر صاحب سے جان چھڑوائی۔

میر صاحب مزاجاً ہنس مکھ اور معاف کر دینے والے بندے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد کبھی کسی تلخی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ شیخ رشید کے خلاف اس کے الیکشن سے ایک رات پہلے پروگرام کر دیا جس میں پیپلز پارٹی کو اس سے برگشتہ کر دیا اور بعد میں عمران خان نے دونوں کی صلح کروا دی۔ پانی سے گاڑی چلانے والا قصہ بھی جلد شہرت حاصل کرنے کی ایک کاوش تھی جو الٹی پڑ گئی۔

حال ہی میں جو تقریر انہوں نے کی اور کسی کا نام لئے بغیر کی وہ ایک ”معمولی“ واقعہ کا غیر معمولی رد عمل تھا کیونکہ پٹائی اتنی نہیں تھی جتنا ثابت کیا جا رہا تھا۔ حامد میر تجسس ابھارنے اور رائی کا پہاڑ بنانے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ جیسے خبر کو موڑ کر اپنے ایجنڈا پر وہ لائے ہیں کہ، ”ہم آپ کے گھروں میں نہیں گھس سکتے لیکن یہ بتا سکتے ہیں۔۔۔“، یہ انہیں کا خاصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments