ابوالحسن شاذلی ریسرچ سنٹر اور میرا تجسس


اندھی نفرت اور عقیدت پر مبنی تقسیم نے ہمیں پر خلوص تجسس کی نعمت سے محروم کردیا ہے۔ ’’نعمت‘‘ کا لفظ میں نے دانستہ طورپر استعمال کیا ہے۔ شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ تجسس ہی انسانوں کو نئی دریافتوں کے قابل بناتا ہے۔ ذہن کو جامد نہیں رہنے دیتا۔ علم کے دروازے کھولتا ہے۔

’’روحانیت‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جو ہمارے عوام کی اکثریت ’’جادو ٹونے‘‘ سے منسوب کرتی ہے۔ ’’عقل پرست‘‘ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ علامہ اقبال مگر جرمنی کی معتبر ترین یونیورسی کے طالب علم رہے تھے۔ یہ ملک فلسفے کا مرکز مانا جاتا ہے۔ مابعد اطبیعات وہاں کے عالموں کا پسندیدہ ترین موضوع رہا۔ کئی نسلوں تک ان کے مابین دھواں دار مباحث جاری رہے۔ بالآخر ’’عقل‘‘ نے برتری پائی اقبال مگر آگ میں ’’بے خطر کودنے‘‘والے عمل کی بابت تاحیات متحیر رہے۔ بسااوقات عقل کو بے بسی کے عالم میں ’’محو تماشۂ لبِ بام‘‘ ہی تصور کیا۔

ذاتی طورپر میں طالب علمی کے زمانے سے کٹر ’’عقل پرست‘‘ رہا ہوں۔ زندگی میں تاہم بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں منطق کے استعمال سے آج تک سمجھ نہیں پایا۔ اسی باعث خود کو ’’عقل کل‘‘ تصور کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ ذہن کو کھلا رکھنے میں یہ رویہ بہت مددگار ثابت ہوا۔ دل تعصب سے پاک رہا۔

ٹی وی سے فارغ ہوکر 2018 میں غیر صحافی ہوچکا ہوں۔ عملی رپورٹنگ سے ویسے بھی کئی برس قبل ریٹائرمنٹ اختیار کر لی تھی۔ گوشہ نشین ہوگیا۔ دریں اثناء کرونا بھی نازل ہوگیا جس نے خلوت کو مزید جواز فراہم کر دئیے۔ وقت کی فراوانی سے تھک کر یوٹیوب کی جانب توجہ دی تو اس پلیٹ فارم پر سیاروں کی چال سے کسی برج کے افراد ہی نہیں اقوام عالم کے مستقبل کی بابت پیش گوئیاں کرنے والے کئی دعوے داروں کو سننے کا موقع ملا۔ ان کی اکثریت اگرچہ یاوہ گوئی میں مصروف نظر آئی۔ دو افراد مگر ایسے بھی تھے جنہوں نے کمال اعتماد سے 2019 کا آغاز ہوتے ہی یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس برس دنیا کسی ایسی وبا کی لپیٹ میں آسکتی ہے جو رزق کمانے اور روزمرہّ زندگی کے حوالے سے ’’بندھے ٹکے‘‘ رویوں کی کایا پلٹ کررکھ دے گا۔

ابتداَ مجھ ’’عقل پرست‘‘ نے یہ فرض کر لیا کہ ’’تُکّا‘‘ لگ گیا ہے۔ 2020 کے اختتامی مہینوں میں تاہم وبا کی پیش گوئی کرنے والوں ہی نے یہ تکرار بھی شروع کردی کہ ایک طویل وقفے کے بعد دو طاقت ترین سیارے ایک ایسے برج میں جمع ہو رہے ہیں جسے ’’عوام کا حاکم‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ 2021اور 2022 کے برسوں میں لہٰذا خلقِ خدا حکمران اشرافیہ کے خلاف ’’بغاوتوں‘‘ پر مجبور ہو جائے گی۔ ریاستی جبر انہیں سفاکانہ ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اب تک قائم رہے ریاستی ڈھانچے مگر بالآخر سرنگوں ہو کر کمزور ترین ہوجائیں گے۔

اس برس کی فروری میں برما میں مارشل لاء لگ گیا۔ اس کے خلاف بھرپور مزاحمت مگر جاری ہے۔ ہزاروں افراد جیلوں میں ہیں۔ سینکڑوں کو وحشیانہ تشدد سے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ مزاحمت ریاستی جبر کی وجہ سے فی الوقت کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے مگر کئی نئی صورتوں میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ برس کے اگست میں بیلاروس کے  26 سال سے مسلسل صدر رہے ’’مرد آہن‘‘ نے ایک اور صدارتی انتخاب کا ڈرامہ رچایا۔ اپنی جیت کا اعلان کیا تو لاکھوں افراد دھاندلی کی دہائی دیتے سڑکوں پر نکل آئے۔ مرد آہن مگر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ چند ہی روز قبل بلکہ اس نے فوجی طیارے بھیج کر ایک مسافر طیارے کو اپنے ملک میں لینڈ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس میں سوار ایک ’’باغی‘‘ نوجوان جو جلاوطن ہوا عوام میں بے پناہ مقبول مگر صرف انٹرنیٹ پر میسر ایک ٹی وی چینل چلا رہا تھا اس جہاز سے اتار کر بغاوت کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ترکی میں بھی ان دنوں ایک یوٹیوب چلانے والا بہت رش لے رہا ہے۔ ’’سلطان اردوان‘‘ کی حکومت اس سے بہت گھبرائی ہوئی ہے۔

برما، بیلا روس اور ترکی بھرپور جمہوریت کی علامت اگرچہ کبھی نہیں رہے۔ بھارت مگر ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کا دعوے دار ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو وہ 5 اگست 2019 کے دن سے دنیا کی وسیع وعریض جیل میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مودی سرکار مگر شہریت کے نام پر بنائے مسلم دشمن قانون کے خلاف احتجاج کے روبرو بے بس نظر آئی۔ ریاستی طاقت نے نہیں بالآخر فقط کرونا نے اس احتجاج کو بے اثر بنایا۔ وہ تحریک مدہم ہوئی تو بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے دلی کا محاصرہ کر لیا جو آج تک جاری ہے۔ کرونا کی نئی لہر نے مگر مودی سرکار کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔ صحت عامہ کا نظام اس کی بدولت ڈھیر ہوگیا۔ مودی سرکار بضد تھی کہ کرونا کے باوجود اس کا ایک طاقت ور ریاست ہونے کا تاثر برقرار رہے۔ سوشل میڈیا نے مگر دل دہلا دینے والے مناظر نمایاں کر دئیے۔ مودی سرکار اب بے تاب ہے کہ سوشل میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں لائے۔ اسے ’’ریگولیٹ‘‘ کرنے کے قوانین لاگو کر دئیے گئے ہیں۔ فیس بک مگر ان کے خلاف عدالت میں چلا گیا ہے۔ ٹویٹر والے بھی اپنے ہیڈکوارٹر پر پولیس چھاپے کے بعد مودی سرکار کو ایک عالمی کمپنی کی قوت دکھانا چاہ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کی بدولت پھیلی ’’ابتری‘‘ نے ہمارے حکمرانوں کو بھی چونکا دیا ہے۔ اسے قابو میں لانے کے لئے کڑے قوانین تیار کئے جارہے ہیں۔ ابھی یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ بالآخر ہمارے حکمران اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ میں نے اس کالم کی ابتدا’’تجسس‘‘ کی ستائش سے کی تھی جو علم کے دروازے کھولتے ہوئے ذہنوں کو کشادہ اور دلوں کو تعصب سے پاک کردیتا ہے۔ اس تناظر میں ’’روحانیت‘‘ کا ذکر بھی ہوا اور اس کالم کے ذریعے مجھے اس تجسس کا اظہار کرنا تھا جو ’’روحانیت‘‘ ہی کے حوالے سے میرے ذہن میں گزشتہ دو دن سے مچل رہا ہے۔

وزیر اعظم صاحب کی قابل احترام اہلیہ نے جو عموماَ گوشہ نشین رہتی ہیں، پیش قدمی لیتے ہوئے لاہور میں ایک ایسے عملی مرکز کے قیام کی سرپرستی فرمائی ہے جو ’’روحانیت‘‘کے موضوع کے بارے میں ہوئی تحقیق کو جدید ترین سہولت فراہم کرے گا۔

عمومی طور پر ایک ’’عقل پرست‘‘ ہوتے ہوئے بھی میرا تعصبات سے آزاد ہوا دل اس منصوبے کی بابت بے پناہ یاوہ گوئی پر ہرگز آمادہ نہیں۔ پرخلوص تجسس کو اگر کسی بھی موضوع کے بارے میں تحقیق کے لئے سرکاری سرپرستی میسر ہو جائے تو اس پر اعتراض کی کم ازکم میرے پاس کوئی دلیل موجود نہیں۔ مجھے حیرانی فقط اس بابت ہوئی کہ لاہور میں قائم ہوئے تحقیقی مرکز کو شیخ ابوالحسن شاذلی سے منسوب کیا گیا ہے۔ میرے لئے یہ نام قطعاَ اجنبی تھا۔ لاہور یوں نے ہجویر سے آئے علی کو ’’داتا‘‘پکارا اور اپنے شہر کو ’’داتا کی نگری‘‘کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔ مجھے گماں تھا کہ لاہور میں روحانیت کے موضوع پر تحقیق کی خاطر بنائے مرکز کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔

سید علی ہجویری کو ’’ناقصاں راپیرکامل‘‘بھی ایک جید صوفی ہی نے ان کے مزار پر چلہ کاٹنے کے بعد کہا تھا۔ روحانیت یا تصوف کے بارے میں ان کی ایک شہرہ آفاق کتاب بھی ہے۔ فرض کیا ’’کشف المجوب‘‘ کے مصنف سے لاہور میں قائم ہوا مرکز منسوب نہیں ہو پایا تو لاہورہی میں میاں میر کا مزار بھی ہے۔ داراشکوہ ان کا مرید تھا۔ رواداری کی اتنی بڑی علامت تھے کہ امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین ’’دربار صاحب‘‘ کی بنیادوں میں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک اینٹ بھی رکھی تھی۔ کرتار پور راہداری کی تعمیرکے بعد لاہور میں قائم ہوا روحانی تحقیق کا مرکز اگر ان کے نام سے منسوب ہوجاتا تو ’’مذہبی رواداری‘‘ کے حوالے سے ہماری سرزمین سے ایک اور مؤثر پیغام کی گنجائش نکل آتی۔ مجھے اعتراض کے بجائے محض تجسس یہ لاحق ہوا کہ مذکورہ مرکز کو شیخ ابوالحسن شازلی کے نام سے کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ مجھے امید تھی کہ مذکورہ مرکز کی افتتاحی تقریب کے دوران وضاحت فراہم کردی جائے گی۔ افتتاحی تقریب کی تاہم جو رپورٹنگ میں نے اخبارات میں پڑھی اس کے ذریعے میرے ذہن میں آئے سوال کا جواب نہیں ملا۔

بالآخر گوگل سے رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔ اس کے ذریعے بھی لیکن جامع معلومات فراہم نہیں ہوئیں۔ فقط یہ علم ہوا ہے کہ وہ 1191عیسوی میں مراکش میں پیدا ہوئے تھے۔ 1258میں حج کے ارادے سے سفر میں تھے تو مصر میں رحلت فرمائی۔ قادری اور نقشبندی سلسلے کی طرح ان سے منسوب بھی ایک سلسلہ ہے۔ انہوں نے ’’حزب البحر‘‘ کے عنوان سے ایک وظیفہ بھی لکھ رکھا ہے جو ان کے مرید ورد کرنا لازمی شمار کرتے ہیں۔ اس کے سوا مجھے کچھ علم نہیں ہوا۔

تجسس بھرا غیر صحافی شہری ہوتے ہوئے اب میں انتہائی خلوص سے توقع باندھے ہوئے ہوں کہ ہمارا کوئی تحقیقی صحافی ان کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرے اور اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈے کہ لاہور میں قائم ہوے مرکز کو ان کے نام سے منسوب کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

بشکریہ: نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments