آخر جنرل رانی تھی کون؟


کچھ دن پہلے دارالحکومت میں تشدد کی زد میں آنے والے ایک صحافی اسد علی طور کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے صحافی برادری کی جانب سے ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی کا مقصد اظہار یکجہتی تھا یا فوج کو گالیاں دینا یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایک سینئیر صحافی کی جانب سے اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف زہر اگلا گیا۔ فوج کو گالیاں دی گئی۔ اس ریلی میں جہاں دفاعی ادارے پر تبرا کیا گیا وہیں ایک نام گونجتا ہوا سنائی دیا وہ نام جنرل رانی تھا۔ بہت سے لوگ اس نام سے ناواقف ہیں کہ آخر یہ جنرل رانی تھی کون تھی اور پاکستانی سیاست میں اس کا اثر رسوخ کیا تھا۔ کیوں یہ نام اس ریلی میں گونجا۔

اقلیم اختر عرف جنرل رانی ایک عام سی گھریلو خاتون تھی۔ اقلیم اختر 1931ء میں گجرات کے ایک چھوٹے سے زمیندار کے گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کی سیاست میں جنرل رانی کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں جنرل یحیی خان کے قریبی دوستوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان کے قریبی تعلقات کی بنا پر وہ جنرل یحیی کو ”آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھیں اور ان تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھیں۔

اسی طاقت اور اختیار کی وجہ سے انھیں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ محترمہ جنرل یحیی کے دور میں جنرل کے بعد پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت ہوا کرتی تھی۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا مگر اسے سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ حکومتی فیصلوں میں عمل دخل دینے کے علاوہ محترمہ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لیتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ محترمہ کے تعلقات جنرل یحیی خان کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں سے بھی تھے۔ جنرل رانی پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھی جو طاقت حاصل کرنے کے نشے میں وائٹ کالر والوں کے لیے محفلیں سجاتی تھی۔

اب بات کرتے ہیں کہ یہ اس نام کو اسلام آباد میں ہونے والی ریلی میں صرف جرنیلوں کے ساتھ کیوں جوڑا گیا۔ کیوں نہیں نام لیے گئے ان سیاست دانوں کے جن کے براہ راست جنرل رانی کے ساتھ تعلقات تھے؟ کیوں ان لوگوں کی پردہ پوشی کی گئی؟ کیا اس ریلی کا مقصد صرف ایک ادارے کو بدنام کرنے کی سازش تھی؟ حامد میر کی جانب سے اس سے پہلے بھی اسٹیبلیشمنٹ کے خالف زہر اگلا گیا۔ آئی ایس آئی پر الزامات لگائے گئے مگر انہیں آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اس ریلی میں ہونے والے خطابات سے ایسا لگا جیسے ایک دفاعی ادارے کو بدنام کر کے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسی تقریریں کر کے کن کو خوش کیا جا رہا ہے۔ فوج کو کمزور کر کے کن ناپاک عزائم کو پورا کیا جا رہا ہے۔ کیوں اپنے مفادات کے لیے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔

مطیع اللہ جان اغوا ہوتا ہے تو الزام آئی ایس آئی پر لگتا ہے۔ ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہو تو الزام خفیہ ایجنسی پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ابصار عالم کو میں صحافی نہیں مانتا وہ ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں لگے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے پاس ثبوت ہیں کہ یہ حملے آئی ایس آئی نے کروائے ہیں تو سامنے لائیں اس طرح سے ایک خفیہ ادارے کو بدنام کرنے کی ناپاک سازشیں نہ کریں۔ ہمیں یہ رویہ بدلنا ہو گا کہ ہر دوسرا بندہ اٹھ کے فوج کو برا بھلا کہے۔ اگر ہم فوج کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے تو ہمارا حال شام اور برما سے برا ہو گا۔

اب بات کرتے ہیں موصوف کی جن کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے لوگوں نے گھر میں گھس کے ان پہ حملہ کیا اور انہیں زبردستی کہا کہ پاکستان زندہ باد اور اسرائیل مرد باد کا نعرہ لگاو۔ ایک پاکستان کا شہری ہونے اور بحیثیت مسلمان میں اور آپ خوشی سے یہ نعرہ لگا سکتے ہیں تو پھر اس میں زبردستی کیسی۔ اسد طور کا نام سنا تو پتا چلا یہ بھی کوئی صاحب ہیں۔ مزید تحقیق کی تو موصوف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اینٹی اسٹیبلشمنٹ پوسٹس سے بھرے پڑے ہیں۔ حامد میر جو پہلے سے اینٹی اسٹیبلیشمنٹ تھے انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے توپوں کا رخ پاک فوج کی طرف موڑ دیا۔ حامد میر ایک متنازع صحافی کے طور پہ جانے جاتے ہیں۔ یہ کبھی پی ٹی ایم کی حمایت کرتے ہیں اور کبھی خاکی پہن کر پی ڈی ایم کے سٹیج پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔

صحافی بالکل غیر جانبدار ہوتے ہیں مگر حالیہ دور میں صحافت جانبدار ہو کر رہ گئی ہے۔ کوئی ٹی وی پہ بیٹھ کے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پہ تبرا کر رہا ہے اور کوئی ان کے قصیدے پڑھ رہا ہے۔ ہر کوئی ملکی مفاد کو کوسوں دور چھوڑ کے اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر اتنے ہی بہادر ہیں تو بتائیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاست میں جنرل رانی کون ہے۔ کس سیاسی جماعت نے اسے پوش علاقے میں ایک محل نما گھر تحفے میں دیا ہے۔ یہ کبھی نہیں کریں گے کیوں کہ جن آقاؤں کی مدد سے آج اس مقام تک پہنچے ہیں انہیں کس طرح ننگا کریں۔

میرے چند سوالات حامد میر اور دوسرے صحافیوں سے ہیں کہ یہ بھی بتائیں ان کے چینلز کی جنرل رانی کون ہے؟ کون سے صحافی اپنا ایمان پیسوں اور زمین کے ٹکڑوں کے لیے بیچتے ہیں؟ کون سے صحافی پیسے لے کر لوگوں کو اپنے شو میں بلا کر پلانٹڈ انٹرویوز کرتے ہیں؟ اتنا پیسہ کہاں سے آیا ان صحافیوں کے پاس جو چند سال پہلے موٹر سائیکلوں پہ آتے تھے اور آج بڑی بڑی چمچماتی گاڑیوں میں گھومتے ہیں؟

اس موقع پہ ایک مصرع یاد آیا کہ ”آے نظر گریبان میں آ دیکھتی کیا ہے زمانے کو“ ۔ ہم خود اپنا احتساب کرنے کو تیار نہیں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جو الزامات لگا رہے ہیں ہم خود بھی انہی کی زد میں ہیں۔ چور ہم سب ہیں مگر الزامات ہمیں صرف انہی اداروں پہ لگانے ہیں جن سے ملک کو خطرہ اور دشمنوں کو خوشی ملتی ہو۔ کہنے کا مقصد یہ بھی نہیں کہ اس معاملے کو ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور جھوٹ سچ کو عوام کے سامنے لانا چاہیے۔ آئی ایس آئی کی تردید یا حامد میر کے شو پہ پابندی لگانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اس مملکت خدا داد کا اللہ ہی نگہبان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments